علم الجفر تاریخ کے آئینہ میں

علم الجفر تاریخ کے آئینہ میں     

علم الجفر کی افادیت پر ، حصہ آثار و اخبار پر اس سے قبل کئی مضامین پیش کئے جا چکے ، گو کہ علم الجفر کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں تاریخ میں اس کے واضح شواہد ملتے ہیں لیکن ہمارے مفتی صاحبان کا کیا کریں؟ کہ جب کسی بات تک ان کی پہنچ نہ ہو پائے تو وہ علم حرام قرار دے دیا جاتا ہے، یہ سلسلہ مفتی صاحبان تک محدود نہیں رہتا بلکہ  ہمارے معاشرہ کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ حرام و کفر کے لیبل تھوک کے حساب سے لئے گھومتے ہیں بلاتحقیق جس پر جب دل چاہا چسپاں کردیا جائے قرآن سے مطلوبہ آیت کی اپنے مفاد میں تشریح کرتے ہوئے حرام کے فتوے داغ دئیے  جائیں بحث برائے بحث فائدہ مند نہیں ہوتی۔
یہاں چند تاریخ کے اوراق سے کچھ حوالہ جات دئیے جا رہے ہیں جو اس علم کی صداقت کے لئے کافی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم حوالہ جات پیش کریں مناسب سمجھتے ہیں کہ ان علماء کے نام اور کتب کے نام بھی تحریر کر دیں جنہوں نے علم الجفر پر کافی ریسرچ کی واضح رہے کہ یہ علماء مسلمانوں کے ہر دو مسلک سے تعلق رکھتے ہیں
یعنی ان علماؤں میں اہل سنت اور اہل تشیع ہر دو مسالک کے مشاہیر ، علماء و محققین شامل ہیں۔

علم جفر پر تحقیق کرنے والے چند مشہور نام     

رسالہ فی الجفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام احمد رضا بریلوی
سرالاسرار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منصور ابن حلاج بغدادی
بحرالوقوف علم الحروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منصور ابن عربی
نصوص الانوارحرفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو الخیر رابع(رح)۔
فصوص الحروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ قرطبی(رح)۔
قوانین تکوین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  محی الدین ابن عربی (رح)۔
اسرار جفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین طوسی (رح)۔
زائرجات و اشرف المربعات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام غزالی(رح)۔
کشف الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام خمینی
سر الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طوخی الفلکی
کشف المکنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکرم علی معظم
قرص الشمس فی بیان الحروف۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر بن الفارس الحوی(رح)۔
منتہی الکمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالعزیز پرہاروی(رح)۔
مخزن الحروف۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین سیوطی( رح)۔
حقائق الیقین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بایزیز بسطامی
مدارج البروج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ زرقافی(رح)۔
معانی الاعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمشید بصری(رح)۔
یقین من الحروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن انطاکی (رح)۔۔۔۔

یہ چند کتب اور ان کے مصنفین کے نام تحریر کئے گئے ہیں جو کہ علم الجفر پر تحریر کی گئی ہیں اگر یہاں نام گنوانے شروع کر دئیے تو بات بہت طویل ہوجائے گی ۔
مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اگر یہ علم حرام تھا تو پھر اتنے جید علماؤں نے اس پر اپنا وقت ضائع کیوں کیا؟؟؟
ان میں امام غزالی(رح) جیسی شخصیت شامل ہے ۔
زین الدین ابو حامد محمد بن محمد بن احمد الطوسی الغزالی جن کی وفات ۵۰۵ ہجری میں ہوئی ان کے جو اوصاف کتب میں ملتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
علامہ یافعی نے ان کے حالات کتاب "مراۃ الجنان”جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۷میں تحریر کئے ہیں جن کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ سواد اعظم میں ان کی عظمت شان و جلالت کس قدر رفیع تھی ان کا لقظ "حجۃ الاسلام” عام ہے ۔
امام یافعی لکھتے ہیں کہ "امام غزالی وہ علوم کے سمندر ہیں جن کے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عیسٰی(ع)و موسیٰ(ع) سے فخر و مباہات کیا تھا”۔

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی نے کتاب التنبیہ بمن یبت اللہ علی راس کل مآۃ میں کہا ہے کہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی نے شرح مواہب لدینہ جلد ۱ ص۳۶میں ان کی بڑی توصیف و تعریف کی ہے نیز ملاحظہ ہو شہاب الدین دولت آبادی کی کتاب ہدایت السعداء ۔
اگر علم الجفر حرام تھا تو مفتی صاحب سے یقیناً زیادہ علم امام غزالی (رح) رکھتے تھے انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے تھی ۔

اب آئیے ذرا تاریخ کی جانب۔۔۔۔۔۔
علم جفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی زبان میں جفر یا جفرہ بکری کے اس بچے کو کہا جاتا ہے جو چار ماہ کا ہو اور دودھ پینا چھوڑ کر گھاس چرنا اور جگالی کرنا شروع کر چکا ہو

ملاحظہ ہو علامہ کمال الدین دمیری کی حیٰوۃ الحیوان جلد اول صفحہ ۱۹۷ مطبوعہ مصر۔
اگر چہ یہ علم آنحضرت (ص)کی تشریف آوری سے قبل کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ان الواح سے ماخوذ تھا جن کا ذکر قرآن کریم کی سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۵ تا ۱۵۰ میں آیا ہے ۔ جیسا کہ علامہ عباس قمی محدث نے سفینۃ البحار جلد اول میں فرمایا ہے مگر چونکہ سب سے پہلے آنحضرت (ص) نے خود اس علم کو بکری کی کھال پر املاء کرایا اسی وجہ سے یہ علم الجفر کے نام سے مشہور ہوا۔

حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم (ع) نے ارشاد فرمایا کہ حضور(ص) اپنے آخری ایام حیات ظاہری میں حضرت علی(ع) کو ساتھ لے کر کوہ احد پر تشریف لے گئے اور مطابق حکم وحی پہاڑی بکریوں کو صدا دی جو آنحضرت (ص)کی صدا پر لبیک کرتے ہوئے وہاں جمع ہوئیں ۔ حضرت علی (ع) نے ان میں سے ایک چار ماہ کی بکری کے بچے کو پکڑا اور بحکم نبی(ص) ذبح کرکے اس کی کھال کو صاف کرکے تیار کیا اور جبرائیل(ع) امین قلم دوات اور ایسی سیاہی لائے جو کہ زمین کی بنی ہوئی نہ تھی اور فرمایا:۔
بکری کی اس کھال اور سیاہی کی تحریر کو زمین کی مٹی کبھی پرانا نہ کر سکے گی نہ حروف کو مٹا سکے گی۔ سیاہی کا رنگ سبز تھا آنحضرت (ص) پر جبرائیل (ع) وحی لاتے تھے اور آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) کو لکھواتے جاتے تھے یہ مخصوص وحی قیامت کے آنے والے تمام حالات و واقعات ظاہری و باطنی تغیرات اور اولیاء اللہ ، سادات، وغیرہ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث اور آنے والی حکومتوں کے بارے میں تھی ۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ کتاب الجفر کے مضامین حروف ابجد کی صورت میں تھے اور حضرت امام حسن مجتبی(ع) نے اس میں سے حروف الف با سین لام تا آخر پڑھ کر سنوائے اور فرمایا ہر ہر حرف میں سے ایک ایک حرف کا استخراج ہوتا ہے اور علم جفر میں سے جو حصہ لوگوں تک پہنچا وہ صرف ان دو حرفوں کے متعلق ہے جو اس کتاب میں ہے (کتاب الاختصاص)۔
نیز امام نے فرمایا پورے علم جفر پر عبور نبی(ص) یا وصی نبی(ص)کے علاوہ کسی عام فرد کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
امام مذکور نے مزید فرمایا کتاب الجفر اگرچہ شرح و بسط کے لحاظ سے اس قدر تفصیلی ہے کہ اس میں ہر شخص کی موت و حیات، مصائب اور ابتلا کا ذکر ہے مگر حجم کے لحاظ سے یہ ایک مختصر سا صحیفہ تھا جس کو جناب امیر المومنین (ع) اپنی تلوار ذوالفقار کے دستہ سے باندھے رہتے تھے ۔

کتاب الجفر مذکور جو کہ جناب امیر المومنین علی (ع) کے دست مبارت سے نوشتہ تھی بعد میں امام جعفر صادق (ع) نے بھی اس کو بصورت کتاب اپنے دست مبارک سے نقل فرمایا اس کی صحت و حقانیت کو اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے مشاہیر ، علماء و محققین نے تسلیم کیا ہے کہ یہ کتاب پشت بہ پشت ، نسل در نسل سادات عظام میں منتقل ہوتی رہی ہے ۔

ابن خلدون اندلسی مغربی نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ کتاب الجفر کو ہارون بن سعید عجلی نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کیا ہے اس میں عموماً اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حوادت کا تفصیلی حال مذکور تھا "۔
تاریخ عصر جعفری صفحہ ۷۴ میں ہے کہ کتاب الجفر مغرب اقصٰی کے خاندان بنی عبدالمومن کے پاس اب تک محفوظ ہے ادھر ترکی کے سلطان سلیم عثمانی اول کا دعویٰ تھا کہ اصل کتاب الجفر امام جعفر صادق (ع) کا نسخہ انہوں نے مصر سے تلاش کروالیا اور اپنے کتب خانہ میں محفوظ کرلیا تھا ۔ جبکہ روایات آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق
کتاب الجفر امام زمانہ (ع) کے پاس محفوظ ہے ۔

ابن خلکان نے تاریخ دخیاط الاعیان میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) کے ایک شاگرد ابو موسیٰ جابر بن حیّان نے ایک کتاب الجفر الاسود لکھی جو کہ امام علیہ السلام کے علم جفر کے بارے میں بتلائے ہوئے اسباق و تقاریر کا مجموعہ ہے یہ کتاب ایک ہزار اوراق پر مشتمل ہے ۔
دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں امام نے جابر بن حیان کو علم الحروف میں کیمیا گری کے اصول و ضوابط املاء کرانے اور الجفر الاسود سے یہی مراد ہے جبکہ جفر ابیض اور جفر احمر کے نام سے امام کی دیگر کتب کا تذکرہ علیحدہ ہے جابر بن حیان علم کیمیا میں بڑے زبردست مشتاق تھے ۔

علم الجفر کی صداقت و وثاقت
اگر جفار غلطی نہ کرے اور کسی مصلحت کے پیش نظر نتیجہ پر کوئی گرہ نہ لگائے تو علم الجفر سے بالکل صحیح اور صاف و شفاف جواب آتا ہے ۔ علامہ عبداللہ الجزائری فرماتے ہیں کہ علم جفر صحیح نتیجہ دینے میں علم نجوم اور علم رمل سے زیادہ قابل اعتماد و اشرف ہے بلکہ قرآن کریم کی حقانیت کا ایک زندہ معجزہ ہے
علامہ سید جعفر بحر العلوم نجفی فرماتے ہیں کہ اگر تم علم جفر کا سوال قرآنی آیت سوالیہ کے مطابق باندھو تو جواب میں وہی آیت آتی ہے جو اس سوالیہ آیت کے جواب میں پہلے سے قرآن میں موجود ہے ۔
مثلاً اگر ہم سورہ یسین کی آیت "بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا” کو سوال بنا دیں تو جواب میں یہی آیت آتی ہے کہ "ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان ہڈیوں کو پہلے سے خلق کیا "۔
زندگی رہی تو انشاء اللہ چند نادر قواعد پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
واللہ الموفق المعین

4 Comments

  1. 15 سال سے علم جفر read کر رہی ہوں لیکن اتنی تاریخی تفصیلات کہیں نہیں دیکھیں ۔ سر آپ سے ملاقات ہوسکتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*