Roohon ki madad se khud bakhud likhne ka ilm | فن از خود نویسی

روحوں کی مدد سے خودبخود لکھنے کا علم

فہرست

از خود نویسی سے مراد ایسی تحریر ہے جو قلب باخبر سے کام لئے بغیر کی جاتی ہے ۔ زیادہ واضح الفاظ میں از خود نویسی ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں ہاتھ اور بازو کی جسمانی طاقت نادانستہ طور پر کام میں لائی جاتی ہے ۔
اس لئے اس قسم کی تحریر کے فن کا نام از خود نویسی یا تحریر نادانستہ رکھا گیا ہے ۔ یہ دراصل روح و خیال کی فوٹو گرافی ہوتی ہے ۔ اس تحریر کو شہود میں لانے کے لئے معمولی طور پر ایک پنسل ہاتھ میں لے لی جاتی ہے اور اس کو کاغذ پر رکھتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں معلوم ہوتا ہے کہ پنسل کو خفیف سی جنبس ہو رہی ہے ۔ جس سے کاغذ پر کچھ نشانات پڑتے جاتے ہیں رفتہ رفتہ نشانات سلسلہ وار متواتر ہوتے جاتے ہیں ان سے حلقے سے بن جاتے ہیں بعد ازاں انہی نشانات سے حروف پھر الفاظ اسی طرح آخر کار پورے جملتے تحرہر ہوجاتے ہیں از خود نویسی کے لئے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے بازو کو اس طرح رکھا جائے کہ میز بالکل علیحدہ رہے اس سے چھونے نہ پائے یعنی کلائی ،کہنی یا بازو کا کوئی حصہ اس سے مس نہ کریں ایسا کرنے سے بہت جلد بازو میں تھوڑی سی تھکاوٹ محسوس ہونے لگے گی اور اس تھکاوٹ کے پیدا ہوتے ہی از خود نویسی کا آغاز ہونے لگتا ہے اس قسم کی تحریر کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ عامل اپنے ہاتھ کی طر ف سے اپنی توجہ بالکل ہٹا دے ،یعنی اپنی قوت ارادی یا باخبری کو ہاتھ کی جنبش کے لئے ذرا بھی حرکت نہ دے ہاتھ کو بالکل بے توجہی کے ساتھ خود بخود حرکت کرنے کے لئے چھوڑ دیں۔ اپنی قوت ارادی کو کام میں لا کر کچھ نہ لکھیں ہاتھ اپنا کام خود بخود کرے خواہ اس سے جو چکھ تحریر ہو فضول اور لغو ہی کیوں نہ ہو ۔
بعض لوگ پنسل کو اپنی پہلی اور دوسری انگلی کے درمیان رکھ کر از خود نویسی کرلیتے ہیں لیکن خیال رکھیں کہ جس طریقے سے آپ کو از خود نویسی میں سہولت ہو اسی طریقے کو کام میں لائیں ۔ دل و دماغ سے جہاں تک ممکن ہو کوئی کام نہ لیں ہر قسم کے خیال کو دور کر دیں
رفتہ رفتہ آپ کو ایسا کرنے کے ساتھ ہی ساتھ بات چیت کرنے اور کتابیں پڑھنے کی مشق ہوسکتی ہے ایک ہی وقت میں دو سری باتوں کی طرف بھی توجہ مائل کی جاتی ہے اور وہ تحریر بھی جاری رہ سکتی ہے ۔لیکن شروع شروع میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے سب سے پہلے بات جو آپ کو کرنی چاہئے وہ یہی ہے کہ دل میں کوئی ارادہ اور کوئی موج پیدا نہ ہو تاکہ دوسری طرف کے نتائج کے منتظر رہیں ۔
از خود نویسی کی مشق کو ترقی دینے کے لئے روزانہ پندرہ یا بیس منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھنا چاہئے ۔ اگر ممکن ہو توہر روز ایک ہی مقررہ وقت پر بیٹھا کریں ان دو قاعدوں کی پابندی دو باتوں کے لئے سے بہت ضروری ہے ۔اولاََ آپ کے عالم ارواح کے دوست ، جو بلا شبہ فن از خود نویسی میں مدد دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں امداد کے لئے غیر معینہ وقت کے مقابل میں مقررہ وقت پر آسانی سے آتے ہیں اور خاص طور پر اگر آپ ان کو آنے کے لئے ٹھیک ٹھیک بتا دیں جب آپ اپنی تحریر ختم کریں تب بآواز بلند یہ کہہ دینا بہت اچھی ترکیب ہے کہ تشریف لے جائیے اور کل ہم آپ کے پیغاموں کے لئے اسی مقررہ وقت پر ملیں گے
دوسری بات یہ ہے کہ وقت کا ایک خاص پیمانہ مقرر کردینا چاہئے اس کا کچھ حساب رہنا چاہئے جب اس قسم کی از خود نویسی کا فن حاصل ہوگیا اور ایک مرتبہ روحوں نے آنا شروع کر دیا تو نتائج میں دلچسپی پیدا ہوجائے گی یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کہ لوگ ہاتھوں کی تحریر کے لئے اس قدر بے تاب رہتے ہیں کہ پھر وقت کا لحاظ نہیں کرتے ۔ اور اگر کوئی خاص ضروری کام نہیں ہوتا تو گھنٹوں از خود نویسی کرتے ، اور جو پیغام موصول ہوتے ہیں ان کا جواب دیتے رہتے ہیں ، اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہےمیں مندرجہ بالا دونوں شرائط کو بہت ضروری اور اہم خیال کرتا ہوں۔ اس امر میں کامیابی اور ترقی ان دونوں نصیحتوں کی پابندی سے ہوگی اور اسی اصول سے اپنی خود نوستہ تحریر وں میں کسی قسم کی دقت یا تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا ۔
اس امر کے لئے کمرہ تنہا ہو کوئی فرداس میں موجود نہ ہو ، نہ ہی توجہ ہٹنے کے ذرائع موجود ہوں تاکہ آسانی سے اس کی مشق کی جا سکے جب پنسل میں حرکت ہوگی تو پیغامات وہ ذرائع سے ملیں گے یا تو کسی نہ کسی روح کی طرف سے ہونگے یا آپ کی اپنی روح کے ہوں گے یا آپ کے ہمزاد کے ہوں گے جوں جوں مشق زیادہ ہوگی پیغام بھی واضح ملیں گے اور اس بات کا بھی پتہ چل جائے گا کہ پیغام کس طرف سے آرہے ہیں

فن از خودنویسی کی تکملی

اس میں شک نہیں کہ از خود نویسی لکھنے والے کے ہاتھ اور بازو کی حرکت اس کی جسمانی قوت سے ہوتی ہے جو ماتحت یا بے خبری کے عالم میں واضح ہوتی ہے زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اتنا کہہ دینے سے از خود نویسی کا اثر اچھی طرح ظاہر نہیں ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ۔
اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اصلی تحریر اسی طریقے سے کی جاتی ہے ایک سوال کا جواب دینے کے لئے رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ معلومات کہاں سے آتی ہیں جو بذریعہ تحریر حاصل کی جاتی ہیں اور جن کو نویسندہ کسی معمولی ذریعہ سے حاصل نہیں کر سکتا۔

گو اس کا مختصر جواب پہلے درج کر چکا یوں مگر مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ میز کے قریب بیٹھے ہیں پنسل ہاتھ میں ہے اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ دیکھیں پنسل سے کیا تحریر ہوتا ہے آپ کا ہاتھ لکھتا ہے کہ میں نسیم بیگم ہوں میں آج سہہ پہر تین بجے قتل کر دی گئی یہ قتل تین آدمیوں نے مل کر کیا ہے ۔

یہ مانتے ہوئے بھی کہ آپ کے ہاتھ نے پنسل کو ایسا لکھنے کے لئے حرکت دی یہ خیال کرنا چاہئے کہ آخر یہ اطلاع کہاں سے آئی آپ کے دل میں یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ یہ اطلاع تحریر کی جائے کہ بیگم نسیم قتل ہوگئی ۔ یا جو کچھ لکھا گیا اس کی آپ کے دل کو خبر کیسے ہوئی

صرف یہی سوال ہے کہ جس کا حل دریافت کرنا ہے اور جن سائنسدانوں نے اس قدرتی وقوعہ کی تحقیقات اور اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ان میں سے اکثر مندرجہ بالا سوال کا جواب دینے سے منہ چھپا گئے اور انہوں نے اس کو یک قلم بغیر حل کئے ہوئے چھوڑدیا۔

متعدد دوسرے واقعات میں یہ طاقت بھی اس طاقت سے زورآور معلوم ہوتی ہے جو صرف وسیلے یا عامل سے پیدا ہو سکتی ہے ایسی حالتوں میں بلا شبہ کسی بیرونی طاقت سے کام لیا گیا ہے جیسا کہ اکثر جسمانی مکاشفات میں کیا جاتا ہے

پیغامات موصولہ کی صورت

جوپیغامات ہمیں موصول ہونگے ان میں اکثر بے شک پہلے پہل خواب کی طرح بے تُکے اور غیر مسلسل معلوم ہوں گے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ پیغامات خواب ہی ہوتے ہیں معمولی خوابوں میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ خیالی دنیا میں دیکھنے کے بجائے آپ انہیں اپنے ہاتھ سے قلمبند کرتے ہیں ۔ مگر دونوں حالتوں میں آپ کی با خبری بحالت خواب یعنی ما تحت با خبری ہی سے ان پیغامات یا خیالا ت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔

بعض حالتوں میں سلسلہ وار صاف اور با معنی پیغامات تحریر ہوتے ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ یہ معمولی پیغامات سے زیادہ خائق ہوں اور خواب کی مانند یہ پیغامات بھی ٹیلی پیتھی (فاصلہ سے حالات دریافت کرنے کا علم ) الہام یا روحانی رسل و رسا۴ل کی شہادت دیتے ہیں ۔ اکثر عاملان کو ان کے پیغامات براہ راست از خود نویسی کے ذریعہ حاصل ہوجاتے ہیں

دنیائے روحانیت کے اکثر عاملان کی حالت از خود نوسی کے وقت مراقبہ کی گہرائی میں پہنچ جاتی ہے اور ان کو تھامنے کے لئے گدی یا تکئے کام میں لائے جاتے ہیں مگر آپ کے لئے شروع شروع میں ایسی مراقبہ کی حالت کو پہنچ جانا نا ممکن ہے خواہ آپ کی طبعیت میں ایسا کرنے کا رجحان بھی کیوں نہ موجود ہو اور لکھتے وقت آپ پر نیند کا غلبہ ہوجائے یا اونگھنے لگیں تو آپ اس حالت کو قبول کرلیں یعنی نیند معلوم ہوتی ہو تو فوراً سوجائیں محویت طاری ہوجانے دیں بے خودی کی حالت میں پہنچ جائیں ایسی حالت میں متعدد اچھے اچھے پیغامات موصول ہوتے ہیں ۔

مگر مناسب یہ ہے کہ شروع میں یہ حالت کسی تجربہ کار وسیلے یعنی روحانی عامل کے سامنے طاری کی جائے جو اس مراقبہ کی کیفیت میں آپ کے سامنے موجود ہو اور جو سوال کرے گا جس کا جواب آپ کے ہاتھ سے تحریر ہوگا۔

از خود نویسی کے شغل کے وقت نیند کا اکثر غلبہ ہوتا ہے ۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص پر اس کا غلبہ ہو بہت سے عالموں کو جنھیں معرکہ آرا پیغامات اس طریقہ سے موصول ہوتے ہیں کبھی استغراق کی حالت سے گزرنا نہیں پڑا۔ اور نہ ہی وہ اس حالت سے گزرنا چاہتے ہیں وہ از خود نویسی کے وقت شروع سے آخر تک معمولی حالت میں رہتے ہیں

جب آپ از خود نویسی کا شغل اختیار کریں گے تو آپ کے ہاتھ اور بازو میں بے حسی کی علامات نمایاں ہونے لگیں گی یعنی اس کی قوت احساس زائل ہوجائے گی ۔ اور اس میں درد وغیرہ کسی چیز کا ذرا بھی احساس نہ ہوگا۔ یہ بیرونی اثرات سے بالکل بے خبر ہوجائے گاآپ کو شاید بات کی خبر بھی نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دفعتہً کبھی اس کا حال معلوم ہوجائے

ایک نہایت عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ایک دوست کو اپنے پاس بٹھا لیں جو ااپ کی طرف سے اس کی حالت کا مشاہد کرتا رہے گا۔

جب آپ از خود نویسی کا شغل کرنے لگیں تو آنکھیں بند کرلیں اور اپنا سر جھکنے دیں اس کے بعد اپنے دوست کو بلا کر اس سے کہیں کہ آپ کے ہاتھ اور بازو میں آہستہ آہستہ سوئی چھبوئے اور دیکھئے کہ آپ کو اس کی تکلیف محسوس ہوتی ہے یا نہیں ۔ آپ کو واقعی سوئی چھبنے کا احساس نہ ہوگا خواہ کتنی ہی زور سے چھبوئی جائے ذرا بھی خبر نہ ہوگی مگر یہ سن کر آپ کو تعجب ہوگا کہ سوئی چھبنے کی خبر ااپ کے ما تحت بے خبری والے دل کو ہوجائے گی کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں قلم خود بخود لکھ دیتا ہے کہ تم مجھے تکلیف دے رہے ہو ۔ یا تم نے میری تیسری انگلی میں سوئی چھبوئی یا اس قسم کی اور باتیں تحریر میں آجائیں گی ۔ جبکہ دوسری طرف آپ بذات خود جہاں تک کسی قسم کی با خبری کا تعلق ہے اس سے بالکل بے بہرہ ہونگے ۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس قسم کے دوسرے پیغاموں کی طرح از خود نویسی کو بھی اسی قدر قبولیت دینا چاہئے جو فی الواقع اس کیلئے موزوں ہے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*