Ism-e-A’azam2::.اسم اعظم۲

فہرست

اسم اعظم کے متعلق روایات حدیث اور بزرگان دین کے اقوال

اسم اعظم کے بارے میں مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ کئی احادیث وارد ہوئی ہیں جب تحقیق کی جائے تو علم ہوتا ہے کہ علمائے کرام اور بزرگان دین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں

ہم نے کوشش کی ہے کہ علمائے کرام اور بزرگان دین سے حاصلہ احادیث و اقوال کو شرح و بسط سے قلم بند کریں۔

قول اول

لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین
سورہ انبیاء آیت نمبر۸۷
ترجمہ:نہیں ہے کوئی معبود سوائے تیرے،پاک ہے تو بے شک میں ظالموں میں سے ہوں

اس آیت کو دعائے یونس و آیت کریمہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے ۔ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیہ کریمہ کے سوا اور کوئی دعا نہیں کہ جس کی قبولیت بالیقین قرآن و حدیث و اجماع سے ثابت ہو بہت سے علمائے کرام و بزرگان دین اس بات پر متفق ہیں کہ اسم اعظم یہی دعاہے اس آیہ مبارکہ کے بارے میں ہم ذرا مزید وضاحت کرتے چلیں کہ یہ دعا حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب ہے کہ جس وقت ان کو دریا میں ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور آپ (ع) چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے تو وہاں آپ (ع) نے یہ دعا پڑھی اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے آپ (ع) کو مچھلی کے پیٹ سے صحیح و سالم باہر نکال دیا۔ چنانچہ سورہ الانبیاء میں ارشاد پاک ہے کہ
وذالنون اذ ذھب مغاضبا فظن ان لن نقد رعلیہ فنادی فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔
ترجمہ: اور مچھلی والے(حضرت یونس ع) کو یاد کر جب کہ وہ خفا ہو کر چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم اسے تنگ نہ پکڑیں گے پھر اندھیروں کے اندر پکار اٹھے ،خدایا تیرے سوا کوئی معبود نہیں توپاک ہے ، بے شک میں ظالموں میں ہوگیا۔تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو غم سے نجات دے دی ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچالیا کرتے ہیں۔
مفسر قرآن حافظ ابن کثیر (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان  کی دعا قبول فرمائی اور ان کو غم سے نجات دے دی اور ان اندھیروں سے ان کو نکال دیا اور اسی طرح ہم ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کر ان کی تمام مشکلیں آسان کر دیتے ہیں خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونس کو پڑھیں۔
علامہ ابن جریر طبری (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اسم اللہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب و اذا سئل بہ اعظے دعوۃ یونس بن متّی”۔
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا وہ بڑا نام کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جاءے تو وہ قبول فرمائے اور جب اس کے ذریعہ سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متّٰی علیہ السلام کی دعاہے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟”۔
آپ(ص)نے فرمایا :”ان کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے”۔
کیا تونے قران نہیں پڑھا کہ
فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم و کذلک ننجی المومنین
ترجمہ:ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔ اور ان کو غم سے چھڑایا اوراسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔
پس جو بھی اس دعا کو پڑھے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا ۔
علامہ ابن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اسم اعظم ہے اور اس کے ذریعہ جو دعا کی جائے گی وہ قبول کی جائے گی اور جو خواہش ہوگی وہ پوری کی جائے گی

امام ابن ابی حاتم (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت کثیر بن سعید سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ
"ابو سعید! خداکا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے ، کیا ہے ؟
آپ نے جواب دیا کہ
بھتیجے! کیا تم نے قرآن کریم میں خدا کا یہ فرمان نہیں پڑھا؟
پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں
لا الہ الا انت سبحانک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المومنین
اور فرمایا
بھتیجے! یہی خدا کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے
علامہ جزری(رح) اپنی مشہور کتاب "حصن حصین” میں تحریر فرماتے ہیں کہ
اسم اللہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب وذا سئل بہ اعطی لا الہ الا انت ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا وہ اسم اعظم جس کے ساتھ جب دعا کی جائے تو وہ قبول فرمائے اور جب اسکے ساتھ سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے۔
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ہے
(رواہ الحاکم عن سعد بن ابی وقاص)۔

آیہ کریمہ کے فضائل و خصائص اور خواص و برکات

درحقیقت اس دعائے یونس کے فضائل و خصائص اور خواص و برکات بہت ہی زیادہ ہیں جنہیں انسانی فہم اپنے ادراک میں لانے سے قاصر ہے  یہ دعا نہایت ہی مجرب و آزمودہ ہے اور بڑی سریع التاثیر ہے قبولیت دعا کے لئے اسے اکسیر اعظم کادرجہ حاصل ہے اس دعا کا ورد رکھنے والا ہر قسم کے دینی و دنیوی رنج و غم، حزن و الم، درد و تکلیف،سختی و مصیبت،گھبراہٹ وپریشانی اور مرض و بیماری سے ہمیشہ کے لئے نجات پالیتا ہے علمائے کرام و بزرگان دین نے اس آیہ کریمہ کے بڑے خواص و برکات اور عجیب و غریب فوائد و اثرات بیان کئے ہیں۔
امام احمد (رح) اور امام ترمذی(رح) نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ(ص) فرماتے تھے کہ "بے شک میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اسے کوئی مصیبت زدہ شخص نہ کہے گا گر یہ کہ اس کی مصیبت دور ہوجائے گی ۔ وہ کلمہ میرے ھائی حضرت یونس علیہ السلام کا ہے
"فنادیٰ فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین "۔
علامہ جزری (رح) "حصن حصین” میں اس دعا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی غم یا مصیبت میں مبتلا ہو یہ دعا پڑھے ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح فرماتے ہیں کہ
"بہرحال ہر رنج و غم اور مصیبت میں اس دعا ئے مبارکہ کا پڑھنا انتہائی مفید ہے۔
اس کے مفید و مجرب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ یہ وہ دعا ہے جو قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے "۔
فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبدالقادر جیلانی رح سے اپنی کتاب میں نقل فرمایا ہے کہ جو لوگ غم و الم میں گرفتا ر ہوں تو وہ اس آیت شریفہ کا ورد کریں جو تمام دکھوں کا یقینی علاج ہے حضرت یونس علیہ السلام نے اس آیت کریمہ کی چند روز مداومت کی تو مچھلی کی قید سے نات پائی ۔ اس آیت شریفہ کا ورد رکھنے والا ہر خوف و غم سے ہمیشہ کے لئے نجات پالیتا ہے "۔
حضرت شاہ اہل اللہ قدس سرہ نے ار باب میں فرمایا ہے کہ جو عمل ہر مطلب کے حصول میں جلالی ہو یا جمالی کبریتِ احمر کے حکم میں ہے اور اس کو اسم اعظم شمار کیا جاتا ہے وہ یہ آیت ہے
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دعا ذوالنون یعنی حضرت یونس علیہ السلام کی ہے جو مچھلی کے پیٹ میں فرمائی جو مسلمان جس مطلب کے واسطے اس آیت سے دعا مانگے گا وہ قبول ہوگی ۔اور حق یہ ہے کہ یہ دعا نہایت مجرب التاثیر اور کمال سریع الاثر ہے جس امر میں چاہیں اس آیت سے دعا کریں اور مشائخ اس کی سرعت تاثیر اور عدم تخلف پر اجماع اور اتفاق رکھتے ہیں۔ اور طریقہ دعا کا انہوں نے متعدد طریق پر ذکر فرمایا ہے آسان تر دو طریقے ہیں جنہیں یہاں درج کیا جاتا ہے

پہلا طریقہ:بارہ(۱۲)دن تک بہ نیت حصول مطلب بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) مرتبہ پڑھیں اور اگر اتنا نہ ہوسکے تو بارہ سو(۱۲۰۰) بار روزانہ پڑھے اول و آخر چند بار درود شریف بھی لازمی پڑھیں۔

دوسرا طریقہ:گھر کے چند افراد مل کر یا فرد واحد ایک لاکھ پچیس ہزار (۱۲۵۰۰۰)مرتبہ چند دنوں میں مکمل کرلے مناسب ہے کہ متاثرہ شخص خود ۲۱ دن یا ۴۰ دن میں ایک لاکھ پچیس ہزار کی تعداد مکمل کرے اول و آخر طاق عدد میں درود شریف ضرور پڑھا کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس کی قوت تاثیر میں کچھ شک نہیں اس واسطے کہ اس کے سوا ایسا کوئی عمل نہیں کہ جس کی صحت قرآن مجید سے بھی ثابت ہو اور صحیح حدیث سے بھی اور مشائخ کے اقوال سے بھی

قرآن میں اس کی شان میں وارد ہوا ہے کہ
فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم وکذلک ننجی المومنین
سو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم ایماندار ندوں کو نجات دیا کرتے ہیں

حضرت مولیٰنا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رح نے سورہ نون کی تفسیر میں اس آیت
لو لا ان تدارکہ نعمۃ من ربہ لنبذ بالعراء وھو مذموم
ترجمہ:اگر ان کے پروردگار کا احسان ان کی دستگیری نہ کرتا تو وہ ایک چٹیل میدان میں ڈال دئیے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
کے ذیل میں لکھا ہے کہ
معتبر مشائخ سے منقول ہے کہ ہر غم و اندوہ کے دفع کے واسطے اس آیت کریمہ کا پڑھنا تریاق مجرب ہے
حدائق البیان فی معرف القرآن میں ہے کہ بارہا تجربہ ہوا کہ آیہ کریمہ دعائے یونس علیہ السلام پڑھنے سے مشکلات آسان ہوجاتی ہیں "۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ
میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ جو مبتلا ہو چار مصیبتوں میں وہ کیونکر غافل ہوتاہے چار چیزوں سے
۱۔میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ وہ مبتلا ہو غم میں پس وہ کیوں نہیں کہتا کہ لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔

۲۔اور میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ وہ ڈرتا ہو کسی چیز سے وہ کیوں نہیں کہتا کہ
حسبی اللہ و نعم الوکیل
ترجمہ:کافی ہے مجھے اللہ اور وہی اچھا کار ساز ہے ۔

۳۔میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ وہ ڈرتا ہو لوگوں کے مکروفریب سے اور ایذا رسانی سے وہ کیوں نہیں کہتا کہ
افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد   سورہ مومن رکوع ۵
ترجمہ:میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، بے شک اللہ سب بندوں کا نگران ہے

۴۔میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ وہ جنت میں رغبت رکھتا ہے وہ کیوں نہیں کہتا کہ
ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (سورہ کہف رکوع ۵)۔
ترجمہ:جو الل کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے (اور)بدوں خدا کی مدد کے ، (کسی میں) کوئی قوت نہیں۔
باقی آئندہ

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*