اسماء الحسنیٰ کے فوائد و برکات

اَلۡمُتکبّر

اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں ایک اسم متکبر بھی ہے جس کے معنی ہیں بڑی عظمت والا یا حد سے زیادہ بزرگی والا باالفاظ دیگر وہ ذات جو تمام مخلوقات ظاہری وباطنی کے مقابلے میں سب سے عظیم تر ہو اور کل مخلوقات اس کے سامنے ہیچ اور حقیر ہو ۔ اس سے مراد وہ ذات بھی ہے جو کل مخلوقات پر حکمراں بھی ہو اور نگہباں بھی ۔ اور اس کے سامنے کسی کو بھی لب کشائی اور چوں چرا کا کوئی حق نہ ہو اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسی ذات بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس لئےاللہ کے سوا کسی کو بھی اظہار بڑائی اور اظہار تکبر کا کوئی حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے حدیث قدسی میں حق تعالیٰ نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے کہ بڑائی میرا تہہ بند اور عظمت میری چادر ہے ۔ جو شخص اسے مجھ سے چھیننا چاہے یعنی جو میرے ہوتے ہوئے خود بڑائی کا اظہار کرنے لگے میں اسے ضرور دوزخ میں ڈالوں گا اس اسم مبارک میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی پوشیدہ ہے جو شخس اللہ تعالیٰ کی عظمت ، رفعت ، جلال اور رتبے کو صحیح معنی میں پہچان لے اور صحیح طور سے ان کی بلندی اور کبریائی کو سمجھ لیگا وہ خود بخود عاجزی اور انکساری والی راہ اختیار کرلے گا۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
رحم اللہ امر ا عرف قدرہ فلم یتعد طورہ ۔یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے اپنی قدر پہچانی اور اپنی حد سے تجاوز نہیں کیا ۔
ہر انسان کے اندر عنصر آتش ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکبر کا مادہ ہوتا ہے اور جب یہ مادہ حد سے زیادہ ہوجاتا ہے تو انسان کے اندر ایک مذموم عادت پیدا ہوجاتی ہے جو اسے سرکشی پر مجبور کرتی ہے اور اسی وقت وہ آپے سے باہر ہو کر صفت خداوندی کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے ۔انسان جو ایک مشت خاک اور ایک حرام نطفہ سے وجود میں آیا ہے اس میں صف خداوندی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے اسے چاہئے کہ اپنی اصلیت اور حیثیت اور اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے وہ اس دنیا میں ترقیوں کے منازل طے کرتا ہوا کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوجائے لیکن خالق کون و مکان کے سامنے اس کی حیثیت ایک ذرے سے زیادہ نہیں ہے صاحب عقل انسان تواضع اور عاجزی کا چلن اختیار کرتا ہے اور یہی چلن اس کو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فرعونیت اور قارونیت کا راستہ اختیار کیا ہے اور شداد جیسا تشدد اور نمرودیت والی راہ پکڑی ہے اللہ نے اسے دنیا ہی میں ذلیل وخوار کیا ہے اور مچھر جیسے حقیر اور بے حیثیت جانوروں کے ذریعہ انہیں ذلت و منکبت عطا کی ہے اور ایسی ذلت عطا کی ہے جو کہ قیامت تک قابل ذکر سمجھی جائے گی ۔ عقل و فہم کا تقاضہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اونچی پروز کے لئے انسان جیتے جی پیوند زمین ہوجائے اور عاجزی و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے پھر دیکھئے کہ اللہ رب العزت اس کو کس طرح عزتین اور عظمتیں عطا کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ مقام اعلیٰ عطا کرتا ہے جو اس کے فضل و کرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نام کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف بنانے کی صور ت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا جائزہ لے اور غور کرے اس کی بساط کیا ہے ؟ اور رحمن و رحیم کے مقابلے میں اس کی حیثیت عرفی کیا ہے ؟ اسے خود اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اختیار رکھتے ہوئے بھی کس قدر مجبور و بے بس ہے اور علم و عقل رکھتے ہوئے بھی کس قدر چھوٹا ہے بری بیماریاں تو بڑی ہوتی ہیں انسان کی اگر ڈاڑھ میں درد ہوجائے تو اسی وقت اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کے اختیارات اور خود اعتباری کی حیثیت کیا اور کتنی ہے ۔ اس لئے اللہ کے تمام صالح بندوں نے خود کو ہمیشہ ذرہ بے حقدار سمجھا اور دنیا کی تمام آسائشوں کو اللہ کے مقابلے میں بے حیثیت گردانا ۔ اور اس صفت اور معرفت کی بنا پر انہیں اللہ تعالیٰ نے رتبہ بلند عطا کیا اور ایسے لوگ مرنے کے بعد بھی اپنی شہرت اور نام و نمود کے لحاظ سے زندہ بھی رہے اور تابندہ بھی ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ، معروف کرخی، حسن بصری ، فضیل ابن عیاض اور بعد کے بزرگوں میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، نظام الدین اولیاء ، داتا گنج ، مخدوم صابر کلیری ، حضرت شاہ ولایت وغیرہ ۔ جیسے حضرات اس دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود آج بھی زندوں سے زیادہ قابل اعتبار ہیں اور قیامت تک عزت و احترام کی دولتیں انہیں عطا ہوتی رہیں گی۔ کیوں کہ ان حضرات اولیاء نے اپنے خود کو پہچان کر اپنے خدا کو پہچان لیا تھا یعنی من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ سے متصف ہو کر وہ من کان للہ کان اللہ لہ کے مصداق بن گئے ۔ اور رضی اللہ عنہم و رضوانہ کا سرفراز نامہ انہیں اس دنیا میں بھی عطا ہوا اور آخرت میں بھی ۔
آج بھی جو بندہ اپنی حیثیت کو پہچان کر سجدہ ریز ہوگا اسے دنیا میں عزت ملے گی اور آخرت میں بھی سرخروئی عطا ہوگی اور جو ابلیس کی طرح تکبر کا مظاہرہ کرکے اپنی گردن کی رگیں پھلائے گا وہ راندہ درگاہ ہو کر انجام کار مخلوق کی تھو تھو کا شکار ہوگا۔اللہ تعالیٰ اس مضمون کے لکھنے والے اور پڑھنے والے سبھی افراد کو تکبر اور غرور سے محفوظ رکھے اور تواضع اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔خیال رہے کہ یہ اسم جلالی ہے اور اس کے مجموعی اعداد ۶۶۲ ہیں
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اس اسم کو بیوی سے صحبت کرنے سے پہلے صرف دس مرتبہ پڑھ تو اللہ تعالیٰ اس کو فرزند صالح عطا کرے گا۔

اگر کوئی شخص اس کو ۶۶۲ مرتبہ روزانہ پڑھے تو سرکش دشمن بھی مطیع ہوجاتے ہیں اور پڑھنے والے کا رعب ہر ایک چیز پر قائم ہوجاتا ہے ۔

شیخ بونی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اسم مبارک عالم برزخ میں صفت ہیبت پر مرقوم ہے اور اس اسم کا ذاکر ہمیشہ ہیبت اور رعب والا ہوتا ہے اس اسم مبارک کا خادم خطیائیل ہے جو حجاب ہیبت کے پاس کھڑ ارہتا ہے اس کے تحت پانچ روحانی طاقت والے فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک فرشتہ ۶۶۲ صفوں کا حاکم ہے اور ہر ایک صف میں ۶۶۲ فرشتے صف باندھے کھڑے ہیں ان میں سب کے رنگ سفید ہیں اور لباس سب کا زرد ہے جب ذاکر اس اسم کا ذکر کرتا ہے تو خطیائیل اس کے ذاکر کی باذن اللہ مدد کرتا ہے اور اس کے کام میں آسانیاں فراہم کرنیکی جدوجہد کرتا ہے ۔

اسم”یا متکبر” کا عمل بننے کے تین طریقے عاملین سے منقول ہیں ۔
طریقہ نمبر ۱۔ چالیس دن تک ترک حیوانات کے ساتھ اور پرہیز جلالی کے ساتھ ۱۵۷۰ مرتبہ کوئی ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کر کے اس اسم مبارک کا ورد کرے ۔ کامل تنہائی میں عمل کرے اور دوران عمل حصار کرے ۔ اور دوران عمل زرد رنگ کا لباس پہنے آخری ہفتے میں مختلف ڈراؤنی اشکال دکھائی دیں گی لیکن ذاکر کو ان سے ڈرنا نہیں چاہئے اور عمل کو جاری رکھنا چاہئے یہ بات یاد رہے کہ ۲۱ دن کے بعد اگر عمل کو ترک کردیا جائے جو عمل کی رجعت سے عامل کو مختلف قسم کی پریشانیاں گھیر لیتی ہیں اور عامل کا دل و دماغ دونوں متاثر ہوجاتے ہیں لہٰذا عمل کے ۳ ہفتے گزرجانے کے بعد اگر عامل کسی بڑی بیماری کا شکار ہوجائے تو عمل کو مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہے کہ اب کامیابی کی منزل قریب سے قریب تر ہے ۔

دوسرا طریقہ ۔ پورے ایک سال تک کوئی ایک وقت مقرر کر کے ۶۶۲ مرتبہ روزانہ اس اسم کا ورد کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے بچے انشاء اللہ اس اسم کا عامل بن جائیں گے ۔

تیسرا طریقہ ۔ اس اسم کو اسم ذات کی تعداد کے مطابق ۶۶ مرتبہ روزانہ پرہیز جمالی کے ساتھ اس طرح پڑھے

اَجِبۡ یَا خَطۡیَائِیلُ بِحَقِّ یَا مُتَکَبِّرۡ

اور لگاتار اس کو نوے دن تک پڑھے یہ تینوں طریقے اس اسم مبارک کے عامل بننے کیلئے منقول ہیں اپنی طاقت اور صلاحیت دیکھتے ہوئے جو بھی طریقہ آسان محسوس ہو اس پر عمل کیا جائے انشاء اللہ اس اسم کا عامل بننے کے بعد بے شمار فوائد عامل کو محسوس ہونگے ان سب کا احاطہ تحریر میں لانا نا ممکن ہے ۔

بزرگوں نے فرمایا ہے کہ متکبر کا نقش خواہ حرفی اور خواہ عددی ۔ اگر کوئی شخص خود لکھ کر بشرطیکہ وہ اس کا عامل ہو یا کسی عامل سے لکھوا کر اگر اپنے دائیں بازو پر باندھ لے تو تمام مخلوق پر اس کی ہیبت اور رعب قائم ہوجاتا ہے ۔ اور سرکش سے سرکش انسان بھی اس کے آگے سرجھکانے پر مجبور ہوجاتا ہے
ان نقوش سے فائدہ اٹھانے کیلئے ان کی زکات ادا کرنا ضروری ہے ۔
زکات کا طریقہ یہ ہے کہ جس نقش کی بھی یعنی حرفی یا عددی کی زکات ادا کرنا چاہیں اس کو روزانہ ۶۶۲ مرتبہ ۱۴ دن تک یا ۱۴ نقش ۶۶۲ دن تک لکھ کر آٹے میں گولیاں بنا کر ایسے پانی میں بہائیں جہاں مچھلیاں ہوں دونوں نقوش کی زکات ایک ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہے زکات کی ادائیگی کے بعد انشاء اللہ ان نقوش کا زبردست فائدہ سامنے آئے گا ۔مناسب ہے کہ نوچندی اتوار بوقت طلوع آفتاب ان نقوش کی زکات ادا کرنا شروع کریں لیکن خیال رہے کہ ان دنوں میں قمر درعقرب نہ ہو۔

naqshhurfi

اکابرین نے فرمایا ہے کہ جو شخص تین اسماء الہی "العزیز الجبار المتکبر” تینوں کو ایک ساتھ ۶۶۲ مرتبہ فجر کی نماز کے بعد کسی سے بات کئے بغیر چالیس دن تک پڑھے گا اس کی عزت و عظمت میں اضافہ ہوگا اور اگر وہ شخص مقدمہ میں پھنا ہوا ہوگا اس میں فتح نصیب ہوگی کسی سے جن چل رہی ہوگی تو اس میں کامیابی ملے گی اور اگر قرض اس کے ذمہ ہوگا تو اس کی ادائیگی کے اسباب پیدا ہونگے اور اگر کوئی شخص اس عمل کو عمر بھر کا معمول بنالے تو ایسی ایسی فتوحات ظہور میں آئیں گی کہ جن کا تصور خواب و خیال میں بھی نہیں کیا جا سکتا ہے عین ممکن ہے کہ کوئی ایسا عہدہ و منصب عطا ہوجائے جس کے بارے میں کبھی سوچا تک نہ ہو
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ تینوں اسماء کو ملا کر اس طرح پڑھیں”العزیزُ الجبارُ المتکبرُ”اول و آخر ۱۱ مرتبہ درود شریف پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ ان اسماء الہی کی بدولت دنیا کس طرح آپ کے قدموں میں آتی ہے ۔

بعض اکابرین فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے نو اسماء مبارک کا نقش اس طرح لکھ کر کوئی شخس اپنی ٹوپی یا عمامے میں رکھے یا اپنے دائیں یا بائیں بازو پر باندھے گا تو ہر شخص اطاعت کیلئے اس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگا اور ہر طرف سے عزت و احترام کی ہوائیں چل پڑیں گی انشاء اللہ ۔
نقش یہ ہے ۔۔۔ لیکن خیال رہے کہ اگر بے نمازی اس نقش کو لکھ کر استعمال کرے گا تو بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا۔
9x9شیخ ابوالعباس ابن بونی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان تینوں اسماء الحسنی کے حروف الگ الگ تحریر کرکے اپنے پاس رکھے اور مکرر حروف کو ساقط کردے اور ان کے چاروں طرف قرآن کی آیت انا فتحنالک فتحا مبینا ۔۔۔الیٰ آخر(مکمل سورہ فتح)۔
کا دائرہ کھینچ دے اور اس نقش کو منگل کے دن مریخ کی ساعت میں تیار کرکے اپنے پاس رکھے تو جو بھی اسے دیکھے گا مبہوت ہوگا۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*