حالات جنات

جنات ایک ان دیکھی مخلوق ۔ ج اور ن کا ایک جگہ اجماع عربی قوانین کے مطابق ویسے بھی حیرت انگیز ہے ۔ ج اور ن جہاں مل جائے اس چیز کا وجود ہوتا ہے لیکن نظر نہیں آتا ۔ مثلاً جنت ہے لیکن نظر نہیں آتی ۔ جنون ہوتا ہے لیکن نظر نہیں آتا ۔ جنین ہے لیکن آنکھیں دیکھنے سے قاصر ۔ اسی طرح جن ہے لیکن دکھائی نہیں دیتے ۔ جنات کا وجود قرآن سے ثابت ہے تاہم آپ کی معلومات کے لئے وہ مقامات درج کر دوں جہاں قرآن میں ان کا تذکرہ آیا ہے ۔
سورہ انعام کی ۴ آیات میں ، اعراف کی ۲، ہود کی ایک ، حجر کی ایک ، اسراء کی ایک ، کہف کی ایک ، نمل کی ۲ ، سجدہ کی ایک ، سباء کی ۳، صافات کی ایک ، فصلت کی ایک ، احقاف کی ۲، ذاریات کی ایک ، رحمن کی ۵ ، جن کی ۶ ، ناس کی ایک ، شوریٰ کی ایک ، زخرف کی ۳ ، محمد کی ایک ، نجم کی ۲ ، تحریم کی ایک ، الحاقہ کی ایک ، المعارج کی ایک ، فجر کی ایک اور سورہ قدر کی ایک

یاد رکھیں کہ ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اس میں بہرحال غلطی کا امکان موجود ہے لیکن وحی الہی اور نبی برحق کی بتائی ہوئی باتیں ، ان میں ہر گز شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔ جنات کو صرف اس وجہ سے مخلوق ماننے سے انکار کردینا کہ وہ نظر نہیں آتے کسی طور عقل مندی نہیں ۔ جبکہ روشنی ، بجلی اور قوت مقناطیسی کے وجود سے کون بے وقوف شخص انکار کر سکتا ہے لیکن ان چیزوں کا بھی وجود علامات اور آثار کے ذریعہ ہی ہوتا ہے ۔

جناتوں کا انسانوں پر قابض ہوجانا ، تکلیف و ایذا دینا وغیرہ ہم آئندہ مختلف واقعات ، تاریخ ، اقوال معتبرہ وغیرہ کی روشنی میں پیش کریں گے لیکن سردست ایک بات یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک نجی چینل پر ایک مفتی صاحب تشریف فرما تھے جن کے بقول انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے کوئی جن اس پر قابض ہو ہی نہیں سکتا ۔ مجھے مفتی صاحب کی یہ منطق سمجھ نہیں آئی کہ جنات کا انسان پر قابض ہونا یا اسے تکلیف و ایذا دینا صرف اس وجہ سے نا قابل قبول ہو سکتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر کبھی بھی حضرت انسان زمین پر رینگنے والے ایک معمولی کیڑے(سانپ) کے ڈسنے سے ہلاک نہ ہوتا ، گندگی میں پیدا ہونے والا زہریلا بچھو انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے کی موت کا سبب بن جاتا ہے ، آج کل تو ایک معمولی مچھر انسان کی موت کا سبب بنا ہوا ہے ۔ لیکن ہمارے مفتی صاحب ہے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے سبب جنات جیسی طاقتور مخلوق کو حقیر سمجھتے ہوئے انسان پر قابض ہونے کے انکاری ہیں۔
یہاں مجھے امام غزالی کی ایک لطیف بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "احیاء العلوم” میں درج فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اس لئے بنایا کہ اس میں معرفت ربانی کے حصول اور تجلیات الہی کے مشاہدہ کی صلاحیت ہے ۔ اسی صلاحیت کے ذریعے وہ مقام قرب الہی تک جا پہنچتا ہے اور اگر وہ اس صلاحیت کو ضائع کردے یعنی کھانے پینے ، جماع کرنے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کو ہی اپنا نصب العین بنالے اور اللہ عزوجل اور اس کے حبیبﷺ کے احکامات کا باغی و نافرمان ہوجائے تو ایسے انسان کو اشرف المخلوقات کہنا قرآنی تعلیمات کے منافی ہوگا۔

اب اگر مفتی صاحب کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو ایک آیت پیش کروں ، اللہ تعالیٰ سورہ اسراء آیت نمبر ۷۰میں فرماتے ہیں کہ
ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا ھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفصیلا ۔
یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔
اگر "بہت سی ” پر غور فرمائیں تو بہت سی باتیں سمجھ آئیں گی ۔ یہاں تمام مخلوق کا تذکرہ نہیں فرمایا ہے بلکہ آیہ پاک کے مطابق بہت سی مخلوق پر فضیلت کی بات ہو رہی ہے ۔

پھر یہی مفتی صاحب آگے چل کر ایک آیت پیش کرتے ہیں اور استدال قائم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ انسان کو خلافت اللہ کی جانب سے عطا ہوئی ہے کیا یہ فضیلت کم ہے ؟
میں معذرت چاہوں گا لیکن جہاں تک قرآنی آیات کے مفہوم میں غلط بیانی کا تعلق ہے اس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ عوام گمراہ نہ ہوں
قرآن کریم میں آیہ استخلاف جو موجود ہے وہ پ۱۸ سورہ نور میں ہے کہ

وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے ۔ البتہ ان کو زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو خلیفہ کر چکا ہے اور محکم کرے گا ان کے واسطے ان کا وہ دین جو ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کے بعد ان کو امن میں بدل دے گا وہ خلفاء میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے جو لوگ اس کے بعد انکار کریں پس وہی لوگ فاسق ہیں ۔
اس انسان سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ تمام انسان منصب کلافت پر فائز ہوگئے ؟ اس آیت پر غور فرمائیں تو سب کچھ عیاں ہوجائے گا اگر مفتی صاحب کی بات مان لی جائے تو دنیا کا ہر انسان خلیفہ کہلائے گا خیر اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔ اب آئیے ذرا جنات کے وجود پر نظر ڈالیں۔

عبدالواحد مفتی نے عجائب القصص میں جنات کے متعلق لکھا ہے کہ جنات کی پیدائش کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک آگ پیدا فرمائی تھی اس آگ میں نور بھی تھا اور ظلمت بھی نور سے فرشتے پیدا کئے اور دھوئیں سے دیو(شیاطین)اور آگ سے جنات کو پیدا فرمایا چونکہ فرشتے نور سے پیدا ہوئے تھے ۔ لہٰذا وہ بالطبع طاعت الٰھی میں مصروف ہوگئے ۔ دیو(شیاطین) چونکہ ظلمت سے پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ اضطراری طور پر کفر نا شکری ، تمرد اور سرکشی میں پڑگئے ۔ جنات کے مادہ میں چونکہ نور اور ظلمت دونوں چیزیں تھیں اس لئے ان میں سے بعض ایمان کے نور سے مشرف ہوئے اور بعض حکم الہی سے کفر و گمراہی میں مبتلا ہوگئے ۔

قاضی مجید الدین حنبلی نے تاریخ قدس و الخلیل میں "والجان خلقناہ من نار السموم” کی تفسیر حضرت وہب بن منبہ کی روایت نقل کرتے ہوئے یوں تحریر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نار سموم کو پیدا کیا اوریہ وہ آگ تھی جس میں دھواں نہ تھا ۔ اس آگ سے اللہ تعالیٰ نے جن کو پیدا کیا اللہ تعالیٰ کے اس قول "والجان خلقناہ من نارالسموم” کے یہی معنی ہیں اللہ نے اس جان سے ایک عظیم مخلوق پیدا فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس جان کا نام مارج رکھا اور اس کے لئے ایک بیوی مرجہ نام کی پیدا کی اس جوڑے سے جنات کی نسل بڑھی اور ان کے بہت سے قبیلے پیدا ہوگئے ۔
ان روایات کے علاوہ جنات کی پیدائش کے متعلق تذکرہ مختلف کتب میں پایا جاتا ہے جنہیں بخوف طوالت درج نہیں کیا جا رہا ہے ۔

تاریخ کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ جنات کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ۸۰۰ رسول بھیجے مگر جنات نے کسی ایک رسول کی بھی صحیح طور پر اطاعت نہ کی حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنات میں سب سے پہلے جس نبی کو ہدایت کے لئے بھیجا تھا ان کا نام عامر بن عمیر بن الجان تھا ۔ جنات نے ان کو قتل کر دیا ان کے بعد صاعق بن ماعق بن مارد بن الجان کو مبعوث فرمایا ، وہ بھی جنات کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔ مزید حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے جنات کی بدکرداری کو دیکھتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے ۸۰۰ سال میں ۸۰۰ نبی بھیجے ہر سال ایک نبی آتا رہا اور جنات اسے قتل کرتے رہے ۔
۔                                                                                                                                                     جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*