نوروز اور معلی ابن خنیس کی روایت

نوروز اور روایات آئمہ معصومین علیہم السلام

فقہاء اور مجتہدین نے عید نوروز کو جس تفصیلی حدیث سے استنباط کیا ہے وہ معلی ابن خنیس کی ہے ۔ قدماء اور متاخرین نے اسے قابل اعتبار جانا ہے ہم یہاں معلیٰ ابن خنیس کی اس روایت کو پیش کر رہے ہیں ۔
معلیٰ ابن خنیس نقل کرتے ہیں کہ میں نوروز پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔
حضرت ؑ نے فرمایا : کیا تم اس روز (نوروز) کو جانتے ہو ؟
معلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ۔ قربان جاؤں کہ آج وہ دن ہے جس کی اہل عجم تعظیم کرتے ہیں اور اس روز ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے ہیں ۔
حضرت ؑ نے فرمایا : میں خانہ کعبہ کے حق کی قسم کھاتا ہوں کہ عجم کا اس دن کی تعظیم کرنا نہیں ہے مگر اس قدیمی امر کے متعلق جو میں تم سے تفصیل سے بیان کرتا ہوں تاکہ تم اس کو سمجھ جاؤ۔
معلیٰ کہتے ہیں کہ اے میرے سید و سردار میرے لئے آپ کی برکت سے اس بات کو جاننا زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمن زندہ ہوجائیں ۔
حضرت ؑ نے فرمایا : اے معلیٰ حقیقت یہ ہے کہ روز ” نوروز ” وہ دن ہے جب حق تعالیٰ نے ” روز الست ” تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا عہد و اقرار لیا اور یہ کہ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں گے ۔ اور عبودیت و عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے اور اس کی جانب سے بھیجے گئے پیغمبروں ؑ اور مخلوق پر اللہ کی حجتوں اور آئمہ معصومین ؑ پر ایمان لائیں گے اور یہ دن ( نوروز ) وہ پہلا دن ہے جب سورج طلوع ہوا ، درختوں کو ثمر آور کرنے والی ہوائیں چلائی گئیں ، اور زمین پر پھول اور کلیاں کھلنے لگیں ، اسی روز حضرت نوح ؑ کی کشتی نے بعد از طوفان کوہِ جودی کے مقام پر قیام پایا ، یہی وہ دن ہے جب حضرت جبرئیلؑ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے اور ان کو تبلیغ دین پر مامور کیا ، یعنی آنحضرت ﷺ کی بعثت اسی دن واقع ہوئی ۔ اس ہی روز حضرت ابراھیم ؑ نے بتوں کو توڑا تھا ، اور یہی وہ دن ہے جب پیغمبر اکرم ﷺ نے حج سے واپسی پر میدان غدیر خم میں ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” فرمایا تھا یعنی اعلان غدیر اسی دن ہو اتھا اور خلافت ظاہری بھی اسی روز پلٹ آئی تھی ۔ اسی روز حضرت علیؑ نے خوارج کے ساتھ جنگ کی تھی اور ان پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کوئی نوروز کا روز ایسا نہیں کہ جب ہم انتظار فرج نہ کرتے ہوں اس دن کو عجمیوں نے حفظ کیا اور اس کی حرمت کی رعایت کی ہے اور تم نے اس کو ضائع کردیا ہے ۔ اکثر حضرات سوال کرتے ہیں کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یاد رکھیں کہ کسی بھی عمل کے شرعی ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کی کوئی آیت ، کوئی حدیث یا کوئی روایت معصومینؑ اس عمل کے شرعی ہونے پر اثبات کرے ۔ نوروز کے سلسلہ میں معلیٰ ابن خنیس کی ہی تفصیلی روایت موجود ہے جس کا تفصیلی متن درج ذیل ہے۔

نوروز اور معلی ابن خنیس کی تفصیلی روایت

عَنِ الْمُعَلّیٰ بْن ِخُنَیْس عَنْ مَوْلاٰنَا الصَّادِقِ (عَلَیْہِ السَّلٰامِ) فی یَوْمِ النیرُوْزِ، قٰالَ: اِذٰا کَانَ یَوْمُ النیرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیٰابِکَ وَتَطَیَّبْ بِأَطْیَبِ طیْبِکَ وَتَکُوْنُ ذٰلِکَ الیَوْمَ صَائِماً فَاِذٰا صَلَّیْتَ النَّوٰافِلَ وَالظُّھْرَ وَالعَصْرَ فَصَلِّ بَعْدَ ذٰلِکَ اَرْبَعَ رَکَعٰاتٍ تَقْرَائُ فی اَوَّلِ رَکْعَةٍ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ، وَفی الثٰانِیَةِ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ، وَفی الثّٰالِثَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ التَّوْحیْدَ، وَفی الرّٰابِعَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ مُعَوَّذَتَیْن ِوَتَسْجُدُ بَعْدَ فَرٰاغِکَ مِنَ الرَّکَعٰاتِ سَجْدَةَ الشُّکْرِ وَتَدْعُوْا فیھَا، یُغْفَرُ لَکَ ذُنُوْبُ خَمْسینَ سَنَةً’۔ (معلی ابن خنیس، امام جعفر صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امامؑ نے نوروز کے دن کے بارے میں فرمایا: جب نو روز کا دن ہو

  • پس تم غسل کرو اور اپنا پاکیزہ لباس زیب تن کرو
  • اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کرو
  • اس دن روزہ بھی رکھو
  • اور جب نماز فریضہ و نافلہ ظہر و عصر سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے بعد چار رکعت نماز (عید نوروز کی دو دو رکعت کرکے)پڑھو
  • پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ‘اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ’ (سورۂ قدر)
  • دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ ‘قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ’ (سورئہ کافرون) پڑھو
  • تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورہ توحید
  • چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ معوّذتین یعنی سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھو
  • دونوں نمازیں پڑھنے کے بعد سجدہِ شکر بجا لاؤ
  • سجدے میں اللہ رب العزت سے جو چاہو مانگو
  • اس عمل سے تمہارے پچاس سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے
  • بعض نے سجدہ شکر میں مخصوص دعا بھی ذکر فرمائی ہے، جو یہ ہے
  • اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الاَوْصِیٰائِ الْمَرْضِیِیْنَ وَصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ أَنْبِیٰآئِکَ وَرُسُلِکَ بِأَفْضَلِ صَلَوٰاتِکَ وَبٰارِکْ عَلَیْھِمْ بِأَفْضَلِ بَرَکٰاتِکَ وَصَلِّ عَلٰی أَرْوٰاحِھِمْ وَأَجْسَادِھِمْ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبٰارکْ لَنٰا فی یَوْمِنٰا ھٰذٰا الَّذی فَضَّلْتَہ وَکَرَّمْتَہ وَشَرَّفْتَہ وَعَظَّمْتَ خَطْرَہ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ لیْ فِیْمٰا اَنْعَمْتَ بِہ عَلَیَّ حَتّٰی لٰا أَشْکُرَ اَحَداً غَیْرَکَ، وَسِّعْ عَلَیَّ رِزْقی یٰا ذَالْجَلٰالِ وَالاِکْرٰامِ۔ اَللَّھُمَّ مَا غَابَ عَنِّیْ مِنْ شَیْئٍ فَلاٰ تُغَیِّرْ عَنِّی عَوْنَکَ وَحِفْظَکَ وَمَا فَقَدْتُ مِنْ شَیْئٍ فَلٰا تُفْقِدْنیْ عَوْنَکَ عَلَیْہ حَتّٰی لٰا أَتَکَلَّفَ مَا لٰاأَحْتَاجُ اِلَیْہِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ’۔ پھر (ِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ) کی زیادہ تکرار کرو۔
  • روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ تحویل سال کا جو وقت ہو اس وقت ساٹھ مرتبہ یہ دعا پڑھو یٰا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ وَالْأَبْصٰارِ، یٰا مُدَبِّرَ الْلَّیْلِ وَالنَّھٰارِ، یٰا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَالْأَحْوٰالِ، حَوِّلْ حَالَنٰا اِلٰی أَحْسَنِ الْحَالِ ۔
  • بعض روایات میں ساعتِ تحویل اس دعا کے پڑھنے کا کہا گیاہے اَللَّھُمَّ ھٰذِہ سَنَة جَدِیْدَة وَاَنْتَ مَلِک قَدِیْم أَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَمَا فیھَا، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فیھَا، وَأَسْئَلُکَ مَؤُنَتَھَا وَشُغْلَھَا یٰا ذٰاالْجَلاٰلِ وَالاِکْرٰامِ
  • فقہاء اور مجتہدین کا اس حدیث کے مختلف حصوں سے استدلال اس حدیث شریف کے مختلف حصوں سے تقریبا تمام متقدمین و متاخرین فقہاء نے مختلف ابواب فقہ میں استدلال کیا ہے
  • غسل عید نوروز
  • روزہ عید نوروز
  • اور نماز عید نوروز کو اپنی گرانقدر علمی کتابوں میں بیان کیا ہے
  • تمام فقہاء و مجتہدین کی نظر میں اس حدیث شریف کی حیثیت مسلم رہی ہے ،اور انھوں نے استدلال کے طور پر اسی حدیث کو نقل کیا ہے۔غسل عید نوروز پر فقہاء کا استدلال اکثر فقہی کتابوں میں مستحب غسلوں میں عید نو روز کے غسل کا بیان آیا ہے
  • مرحوم محمد ابن الحسن الحرّ العاملی نے اپنی گرانقدر کتاب وسائل الشیعہ میں ایک باب (بَابُ اسْتِحْبَابِ غُسْلِ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ )کے عنوان سے قرار دیا ہے
  • اس باب میں وہی امام جعفر صادق کی روایت معلی ابن خنیس سے نقل کی ہے، اور اس روایت کے اس جملے سے استحباب غسل کو بیان کیا ہے: ‘ اِذَا کٰانَ یَوْمُ النِّیْرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیَابِکَ
  • علامہ حسن ابن یوسف حلی اپنی کتاب القواعد میں فرماتے ہیں:’ یُسْتَحَبُّ الْغُسْلُ لِلْجُمُعَةِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ اِلٰی الزَّوَالِ وَالْغَدِیْرِ وَالْمُبَاہَلَةِ وَعَرَفَةَ وَنِیْرُوْزِالْفُرْسِ وَغُسْلُ الْاِحْرَامِ (روز جمعہ کا غسل طلوع فجر سے لیکر زوال آفتاب تک کرنا مستحب ہے، اور غسل روز عید غدیر، عید مباہلہ،روز عرفہ، اہل فارس کی عید نوروز اور احرام کا غسل مستحب ہے۔
  • شہید اول کی تینوں فقہی کتابوں (بیان ، ذکری اور دروس) میں نوروز کے دن کا غسل مستحب غسلوں کے ذیل میں بیان ہوا ہے
  • بطور تصدیق ہم کتاب دروس کی عبارت پیش کرتے ہیں:’ یُسْتَحَبُّ الغُسْلُ ۔۔۔ یَوْمَ الْمَبْعَثِ وَالْمَوْلِدِ وَالْغَدِیْرِ وَالتَّرْوِیَہ وَعَرَفَةَ وَالدَّحْوِ وَالْمُبَاھَلَةِ وَالنِّیْرُوْزِ لِخَبَرِ الْمُعَلّٰی ‘ (غسل کرنا مستحب ہے ۔۔۔روز بعثت پیغمبر اکرم ۖ 27رجب المرجب
  • روز ولادت پیغمبر اکرم ۖ
  • روز عید غدیر
  • روز ترویہ 8ذوالحجہ
  • روز عرفہ
  • روز دحو الارض 25ذیقعدہ زمین کے بچھائے جانے کے دن
  • روز مباہلہ
  • اور عید نوروز کے دن
  • معلی ابن خنیس کی روایت کی وجہ سے مرحوم شیخ بھاء الدین العاملی صاحب المعروف شیخ بھائی صاحب کتاب "کشکول” جامع عباسی مستحب غسلوں میں سے گیارہواں غسل روز عید نوروز کا بیان فرماتے ہیں۔
  • حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی اپنے رسالہ عملیہ توضیح المسائل کے مسئلہ نمبر 650 میں مستحب غسلوں کو بیان فرماتے ہیں کہ یہ غسل شرع مقدس اسلام میں وارد ہوئے ہیں ،اور پھر مسئلہ نمبر651میں ان مستحب غسلوں کو بیان فرماتے ہیں، جو فقہاء نے اپنی فقہی کتابوں میں اغسال مستحبہ کے عنوان سے بیان فرمائے ہیں،اور حضرت آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی غسل عید نوروز کوبھی اسی دوسری نوع کے غسلوں سے شمارکرتے ہیں ، اور آخر میں فرماتے ہیں ان دوسری نوع کے غسلوں میں احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوبیت کے قصد سے بجالائے جائیں۔
  • صاحب جواہر مرحوم شیخ محمد حسن النجفی کا استدلال قابل ملاحظہ ہے، وہ فرماتے ہیں:’ قُلْتُ وَقَدْ بَقِیَ زِیَادَة عَلٰی مَا ذَکَرْتُہ وَذَکَرَ الْمُصَنِّفُ بَعْضَ الْأَغْسَالِ الزَّمَانِیَّةِ ۔۔۔’ (جو غسل میں نے اور مصنف نے بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کچھ اور غسل بھی باقی ہیں جو معین زمانے کے ساتھ مستحب ہیں جیسے: روز دحو الارض کا غسل، اہل فارس کے نوروز کے دن کا غسل، اور نو ربیع الاول (عید زہراء )کا غسل۔لیکن جو عید نو روز کے دن کا غسل ہے اسکا استحباب علمائے متاخرین کے مشہور قول کی بناء پر ہے، بلکہ میں نے اس بارے میں کسی کو استحباب غسل کو مخالف بھی نہیں پایا ہے، کیونکہ اس بارے میں معلی ابن خنیس کی امام جعفر صادق سے مروی روایت مصباح شیخ طوسی میں موجود ہے،جس کا مختصر یہ ہے کہ جب نوروز کا دن ہو تو تم غسل کرو
  • صاحب جواہر مرحوم شیخ محمد حسن النجفی فرماتے ہیں:’ کَمَا یُسْتَفَادُ مِنَ النَّصُوْصِ ثُبُوتُ التَّأَکُّدِ فِیْ غَیْرِ ذٰلِکَ (أَیْ تَأَکُّدِ الصَّوْمِ) کَالنِّیْرُوْزِ وَأَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ ۔ (جیسا کہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مذکورہ موارد کے علاوہ بھی چند مورد میں روزے کے استحباب کی تاکید کی گئی ہے، جیسے : نو روز کے دن کا روزہ اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کا روزہ وغیرہ
    صاحب مستند مرحوم ملاّ احمد نراقی فرماتے ہیں:’ أَمَّا الْمَنْدُوبُ مِنْہ أَقْسَام : مِنْھَا أَوَّلُ ذِیْ الْحِجَّةِ، مِنْھَا صَوْمُ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ لِلْمَرْوِیِّ فِیْ مِصْبَاحِ ِالْمُتَھَجِّدِ ‘ (روزے کی چار اقسام ]واجب، مستحب، مکروہ اور حرام[ میں سے جو مستحب روزے ہیں، چند قسم کے ہیں، ان میں پہلی ذی الحجّہ کا روزہ ہے اور عید نوروز کے دن کا روزہ ہے، جیسا کہ شیخ طوسی کی مصباح المتھجد میں روایت نقل ہوئی ہے
  • صاحب حدائق مرحوم شیخ یوسف بحرانی بھی اسی انداز سے بیان فرماتے ہیں کہ مستحب روزوں میں سے ایک عید نوروز کے دن کا روزہ ہے کیونکہ اس روزے کو شیخ طوسی نے مصباح المتھجّدمیں معلی ابن خنیس کے سلسلے سے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے۔

مزیدنوروز کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ہم اختصار کو مد نظر رکھ کر اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*