دست غیب

چند ماہ قبل ہمارے ایک معزز قاری نے دست غیب پر کوئی مضمون پیش کرنے کا اپنا مفید مشورہ دیا ۔ جسے اپنی مصروفیات کے باعث پورا نہ کر سکا۔ قدیم کتب میں کئی کتب ایسی ہیں جن میں دست غیب کا تذکرہ ملتا ہے ، جب بزرگوں کی کتابوں میں ہے اور دنیا میں مشہور بھی تو اس کا وجود بھی ضرور ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ محنت اور تلاش سے مل سکتا ہے مگر اب ہماری طبائع نازک اور سہولت پسند ہوچکی ہیں ۔ پرہیز اور ریاضت اب ہم سے نہیں ہوسکتے ، ہم دنیاوی طوراتنے مادہ پرست ہوچکے ہیں کہ ہماری نمازیں بھی دنیاوی خیالات سے پُرہیں ۔ ہم وہ سختیاں برداشت نہیں کر سکتے جو ریاضت کے دوران ضروری ہیں ۔
اکثر بزرگان دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسم اعظم "یا حئیُ یا قیومُ” "دست غیب ہے ۔
یاد رکھیں کہ ” نہ بزاری نہ بزور و نہ بزر می آید”۔  یعنی نہ رونے اور چیخنے چلانے سے آتا ہے اور نہ قوت اور طاقت سے آتا ہے نہ دولت خرچ کرنے سے آتا ہے جس پر خدائے کریم کا فضل ہوجائے اسی کو ہی غیب سے عطا ہوتا ہے ۔ اس سلسلہ میں جو عمل لکھا جا رہا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اسم اعظم کا کام دیگا یا نہیں ، دست غیب حاصل ہوگا یا نہیں ؟ لیکن اس عمل کا اس قدر فائدہ ضرور ہوگا کہ آپ کسی کے محتاج نہ ہوں گے غیب سے ہر کام کی تکمیل ہوتی رہے گی ۔
طریقہ عمل : سفید لٹھے کی بغیر سلی دو چادر بنوالیں ۔
ایک کو بطور تہمت باندھنے کے لئے استعمال کریں دوسری کو کاندھے پر اوڑھ لیں سر پر نہ ڈالیں ۔
قبل از نماز فجر تنہائی میں بیٹھ کر روزانہ ۵۰۰ مرتبہ اسم اعظم "یاحئیُ یا قیومُ” پڑھیں اول آخر پانچ پانچ مرتبہ درود شریف ۔ انشاء اللہ اکیس دن میں اس کے خاص اثرات معلوم ہونگے عمل ختم کرنے کے بعد نماز صبح پڑھیں ۔
جو صاحب نماز نہیں پڑھتے یا کسی دیگر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ طلوع آفتاب سے پہلے یہ اسم متذکرہ تعداد کے مطابق پڑھ لیا کریں ۔
اگر کوئی صاحب قبل از طلوع آفتاب نہیں پڑھ سکتے ہوں تو دن رات میں کوئی وقت فرصت کا مقرر کرکے پڑھیں
یہ بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا ہاں اصل وقت قبل از نماز فجر ہی ہے ۔ عمل ختم کرنے کے بعد اپنے کپڑے پہن لیا کریں کوئی پرہیز اس عمل میں نہیں ہے ۔ انشاء اللہ اکیس دن میں آپ اس عمل کا خاص اثر دیکھیں گے اور پھر ذوق تماشہ آپ کو مجبور کردے گا کہ آپ اس عمل کو ہمیشہ کرتے ہیں ۔
کوئی مہینہ کوئی دن ، تاریخ وغیرہ شروع کرنے کے لئے مقرر نہیں ہے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*