علم رمل حقائق کے آئینہ میں ۔ از قلم ڈاکٹر سید مسرور حسین رضوی

علم و فنون کے چشمے خشک ہوتے ہوئے نظر آنے لگے ۔ نگاہیں تلاش کرتی ہیں ان صاحب علم لوگوں کو جو اس علم کی وساطت سے انسانوں کو قدرت کے راز ہائے سربستہ سے آشنائی کرائیں ۔ علم رمل جو کہ علم کا سمندر ہے یہ علم کتابوں سے نکل کر سینوں میں مقید ہوگیا ۔علم رمل نقطہ اور لکیروں کی سائنس ہے اس علم کا راز اس طرح پنہاں ہے جیسے تل کی اوٹ میں پہاڑ چھپ گیا ہے ۔ رمل کے ایک زائچہ سے انسان کا پورا ماضی ،حال اور مستقبل سامنے آجاتا ہے ۔ ایک ہی ساعت میں پورے ایک سو چوالیس۱۴۴ سوالات کے جوابات ملتے ہیں ۔ زائچہ رمل کی ایک ہی شکل آنے  والے حالات و مہلک حادثات و خطرات کی نشاندہی کردیتی ہے ۔ علم رمل جو ایک حیرت ناک علم ہے اس علم کا ماخذ نقطے اور لکریں ہیں ۔ یہ علم سولہ اشکال پر مشتمل ہے ۔ ان سولہ اشکال میں کل نقطوں کی تعداد بتیس32 اور کل لکیروں کی تعداد بھی 32 ہیں ۔ نقطوں اور لکیروں کی کل تعداد 64ہیں۔میری اس علم سے رغبت اور اس علم کے حصول اور اسکی تلاش کا سبب ایک واقعہ سے ہوا ۔ واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ میرے ایک بہت ہر دلعزیز دوست کی ملاقات ایک صاحب علم شخصیت سے ہوئی ۔ جو کہ علم رمل میں کمال کا علم رکھتے تھے اس شخص نے میرے دوست کی زندگی کے ان واقعات پر رمل کے ذریعے روشنی ڈالی جو کہ صرف اور صرف اسکو معلوم تھے ۔ زندگی کے ان پہلوئوں کی نقاب کشائی کی جسکا تذکرہ میرا دوست کبھی کسے کے سامنے نہیں لایا، صاحب علم شخصیت نے میرے دوست کے گھر کا نمبر معلوم کر کے اس کے گھر کے محل وقوع اس کے گھر کے اند ر کی بناوٹ کی بالکل صحیح تشریح فرمائی ،۔ میرا دوست موٹر سائیکل خریدنے کا خواہشمند تھا کافی عرصے سے وہ اس کوشش میں تھا لیکن موٹر سائیکل نہیں خرید پا رہا تھا دوست نے موٹر سائیکل خریدنے کے سلسلے میں اس صاحب علم شخصیت سے استفسار کیا ۔ اس شخص نے میرے دوست کے ہاتھ میں قرآن مجید دیکر کہا کہ اس کو چار بار کھولو اس کے بعد اس شخص نے زائچہ بنانا شروع کیا اس شخص نے میرے دوست کو بتایا کہ تم انشاء اللہ دو ہفتوں کے درمیان موٹر سائیکل خرید لوگے موٹر سائیکل سرخ رنگ کی ہوگی ، موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ ٹوٹی ہوئی ہوگی ، میرے دوست نے معینہ عرصے کے دوران موٹر سائیکل خرید لی ۔ موٹر سائیکل کا رنگ بھی سرخ تھا لیکن موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ ٹوٹی ہوئی نہیں تھی۔ میرے دوست کی جب اس صاحب علم شخصیت سے ملاقات ہوئی تو دوست نے بتایا کہ آپ کے بتائے ہوئے وقت معینہ کے درمیان موٹر سائیکل خرید لی گئی ہے ۔ موٹر سائیکل کا رنگ بھی سرخ ہے لیکن اسکی ہیڈ لائٹ ٹوٹی ہوئی نہیں تھی ۔ اس صاحب علم شخصیت نے دوبارہ اپنے بتائے ہوئے زائچہ پر غور کیا اور کہا ہو نہیں سکتا کہ موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ ٹوٹی ہوئی نہ ہو ۔ تم ایسا کروکہ جس شخص سے تم نے موٹر سائیکل خریدی ہے اس سے رابطہ کرو اور معلوم کرو کہ اس شخص نے موٹر سائیکل فروخت کرنے سے قبل موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ تبدیل کروائی تھی ۔ میرے دوست کے پاس موٹر سائیکل فروخت کرنے والے کا شناختی کارڈ کی کاپی پر فروخت کرنے والے کا موجودہ پتہ درج تھا ۔ دوست موٹر سائیکل فروخت کرنے والے کے گھر پہنچ گیا۔ اس سے معلوم کیا کہ آیا موٹر سائیکل فروخت کرنے سے قبل اس نے موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ تبدیل کروائی تھی ۔ موٹر سائیکل فروخت کرنے والے شخص نے بتایا کہ موٹر سائیکل فروخت کرنے سے دو ہفتہ قبل اسکی موٹر سائیکل کی ٹکر ہوگئی تھی ۔ اور موٹر سائیکل فروخت کرنے سے ایک ہفتہ قبل اس نے موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ تبدیل کروائی تھی ۔
محترم جناب لاڈلے حسن زیدہ صاحب (جنہیں اب مرحوم لکھتے ہوئے دل کانپتا ہے ) جنہیں علم رمل پر مکمل دسترس حاصل تھی اور اس علم کے جاننے والوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے ۔ اپنے ساتھ گزرے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر انہوں نے اپنی حیات میں کچھ اس طرح کیا ۔
فرمایا کہ 1979نومبر سے1984فروری تک ان کا قیام کوئٹہ میں رہا ۔ پی آئی اے ٹریفک میں ایک صاحب جنکا نام الیاس تھا ملازمت کرتے تھے
اور یہ واقعہ جسکا انہوں نے ذکر کیا تھا1982یا1983کا ہے ۔ الیاس صاحب ، لاڈلے حسن زیدی صاحب کے کمرے میں تشریف لائے اورفرمانے لگے کہ ذرا علم رمل سے معلوم کر کے مجھے بتائیں کہ جہاں میری شادی ہو رہی ہے کیسی رہیگی ۔ محترم جناب لاڈلے حسن صاحب نے موصوف سے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی چار نمبر مجھے بتائو۔ جسکے مطابق میں زائچہ بنائونگا اور تمہیں تمہاری ہونے والی شادی کے بارے میں بتائونگا ۔ لاڈلے صاحب نے زائچہ بنایا اور زائچہ کے احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری شادی ، تمہارے قریبی رشتہ داروں میں ہو رہی ہے ۔ تمام بھائی بہنوں میں تمہاری ہونے والی شریک حیات  سب سے زیادہ ذہین ہے اور تمہارے ہم مزاج بھی ہے ۔ زندگی بہت اچھی گذرے گی آئو تم کو تمہاری شادی کی تاریخ بھی بتا دوں ۔ کہ کب ہوگی ۔ زائچہ رمل کے مطابق تمہاری شادی سات جولائی کو ہوجائیگی۔ یہ سننا تھا کہ بلوچی ، پٹھان زوب کا رہنے والا یک بیک طیش میں آگیا ۔کہنے لگا میری شادی30 جون کو ہو رہی ہے ۔ کارڈ بھی تقسیم ہو گئے ہیں ۔ تمہارا علم بکواس ہے کہتا ہوا چلا گیا رکا بھی نہیں ۔ تین چار دن کے بعد خود ہی بھاگا ہوا آیا کہ غضب ہو گیا میرا سالا کراچی گیا تھا ۔ وہ پولیس کسٹڈی میں ہے سسر کا ٹیلیگرام آیا ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں ۔ دو چار دنوں میں چھوٹ جائے گا ۔ ایسا کرو کہ شادی کی تاریخ بڑھا کر سات جولائی کر دو اور سب کو اطلاع دیدو ۔
مندرجہ بالا زائچہ اور اس کے مطابق بیان کردہ احکامات سے علم رمل کی صداقت کی عکاسی ہوتی نظر آتی ہے

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*