کامیابی یا ناکامی

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ تاکہ وہ محنت اور کوشش کرکے اپنے دونوں جہانوں کی زندگی کو کامیاب بنا لے انسان خود بھی محنت کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی انسان سے محنت ہی کا مطالبہ ہے انسان اپنی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت اور کوشش کا راستہ اختیار کرتا ہے اور خالق کائنات بھی انسان کی کامیابی کے لئے اسکی محنت اور کوشش پر خوش ہوتے ہیں ۔
غرض خالق و مخلوق اس بات پر متفق ہیں کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے محنت ضروری ہے فرق صرف حقیقی کامیابی کو سمجھنے اور اس کے وسائل اختیار کرنے میں ہے ۔ حقیقی کامیابی کو سمجھنے کے لئے چند چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جس کامیابی کو حقیقی سمجھا جا رہا ہے وہ اعلیٰ و قیمتی ہےیا ادنیٰ و حقیر ، قوی و طاقتوری ہے یا کمزور یا ضعیف ، مستقل و پائیدار ہے یا فانی و ناپائیدار۔ اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ انسان جس کامیابی کے لئے محنت کرے وہ غیر فانی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اعلیٰ ہو ادنیٰ نہ ہو ۔ قیمتی ہو حقیر نہ ہو۔ پائیدار ہو جلد مٹنے والی نہ ہو۔
چونکہ انسان کم عقل ہے اس کی نظر کی وسعت قلیل ہے اس کا ظرف چھوٹا ہے اس لئے وہ سراب ہی کو دریا سمجھ لیتا ہے اور عارضی نفع کی خاطر ہمیشہ کا فائدہ چھوڑ دیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی عزت و حکومت ، مال و دولت ، سونا چاندی ، لباس و ظروف و اشیاء کی بہتات ہی کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
اسی جہل و نادانی کی بناء پر کوئی مال ودولت کے لئے جان کھپاتا ہے ، کوئی حکومت حاصل کرنے کے لئے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جان و مال سے کھیلتا ہے ، کوئی عہدہ و اقتدار کی لالچ میں اپنا ضمیر بیچتا اور اپنے جیسے حقیر انسانوں کی خوش آمد کرتا ہے کوئی لوہے پر محنت کرکے موٹر ، ریل ، ہوائی جہاز ، اور دوسری قسم کی مشینیں بناتااور فخر کرتا ہے ، کوئی ذرہ پر محنت کرتا ہے اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنالیتا ہے جن کو ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جانیں لینے پر استعمال کرتا ہے ۔
اس قسم کی محنت کرنے والوں کو بھی رب العزت بالکل ناکام نہیں کرتا بلکہ اپنی مشیت کے مطابق جس قدر چاہتا ہے اس کے بقدر کامیابی عطا فرما دیتا ہے اور انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس نے اپنے مقصد کو پا لیا ۔ لیکن خالق کائنات یا تو ان نعمتوں کو اس ہی کی زندگی میں اس کے لئے مصیبت و پریشانی کا باعث بنا دیتا ہے یا بالفرض یہ نعمتیں اس کے پاس زندگی بھر بھی رہیں تو ایک دن موت کا فرشتہ ان سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیتا ہے اور پھر ایسے انسان کو ہمیشہ کی ناکامی اور نا مرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،قبر میں دردناک عذاب سے سابقہ پڑتا ہے ۔ حشر کے دن ندامت و شرمندگی اور ذلت و خواری ہوتی ہے اور آخر کار منہ کے بل جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔
اس کے برعکس جو عقل مند انسان اللہ رب العزت کے احکامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے محنت کرتا ہے اور خدائے قدوس کے احکام کو اپنی زندگی میں قائم کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں اپنے جان و مال کی بازی لگا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو محبوب بنا لیتا ہے اور بے سر و سامانی اور فقر و فاقہ کی حالت میں بھی کامیاب کرکے بتا دیتے ہیں ایسے انسان کے لئے دنیاوی راحت و آرام اور امن و سکون کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ حکومتوں کی باگ دوڑ اس کے اختیار میں دے دی جاتی ہے مال و دولت اس کے قدموں میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو ان کا تقسیم کرنے والا بنا دیا جاتا ہے ۔ مرنے کے بعد رحمت کے فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں آرام کے ساتھ اس کو حشر کے دن تک سلا دیا جاتا ہے ۔ باری تعالیٰ کے دربار میں سرخروئی نصیب ہوتی ہے ، نور کے منبروں پر بٹھایا جاتا ہے ، عرض کا سایہ رحمت عطا کیا جاتا ہے ، حوض کوثر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے آنکھوں کو سرور و فرحت میسر نصیب ہوتی ہے اور انجام کار جنت کی غیر فانی نعمتوں اور لازوال راحتوں میں داخل کر دیا جاتا ہے ۔
محنت و کامیابی کا راستہ معین کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ کامیابی کا مخزن کیا ہے وہ کہاں سے آتی ہے اور وجود کی شکل کہاں سے چل رہی ہے ۔ دوسرا یہ کہ کامیابی حاصل کرنے اور ناکامی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود انسان کے جسم میں کیا جوہر پوشیدہ کر دئیے ہیں جن کو بروئے کار لا کر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور ہلاکت و تباہی سے بچ سکتا ہے ۔
زمین سے نکلنے والی چیزیں تابع مخلوق ہیں اور اللہ رب العزت ان کے متبوع اور خالق ہیں کوئی تابع اور مخلوق اپنے متبوع اور خالق کے احکام سے سرتابی نہیں کر سکتی چنانچہ ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے اترنے سے پہلے اللہ رب العزت سے اجازت طلب کرتا ہے کہ انسان کو فائدہ پہنچاؤں یا نقصان ۔
اگر اس لقمہ کو نفع پہنچانے کا حکم ملتا ہے تو خون بن جاتا ہے اور تقویت کا باعث ہوتا ہے اور اگر نقصان پہنچانے کا حکم پاتا ہے تو بد نظمی اور دست لانے کا باعث بن جاتا ہے ہیضہ اور دوسری مہلک بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے اسی طرح لباس کو اگر نفع پہنچانے کا حکم ملتا ہے تو زیب و زینت کا باعث ہوجاتا ہے اور اگر ضرر کا حکم پاتا ہے تو آگ پکڑ کر جسم کو جلا دیتا ہے ۔
اسی طرح جب کسی فرد یا قوم کو دولت و حکومت ملتی ہے تو وہ بھی اپنے خالق و مالک سے ایسے انسانوں کے لئے نفع و ضرر کے احکامات حاصل کرتی ہے اگر خدائے قدوس کا منشاء نفع پہنچانے کا معلوم ہوتا ہے تو عیش و آرام ، امن و سکون ، اشیاء کی فراوانی کا باعث ہوجاتی ہے اور اگر حکم اس کے برعکس ملتا ہے تو قتل و غارت گری ، لوٹ مار ، بد امنی ، رشوت ستائی اور چور بازاری کا سبب بن جاتی ہے ۔ہم آپ روزانہ اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ مال و دولت کی لالچ میں فلاں شخص قتل کر دیا گیا ، حکومت کی حرص میں فلاں بادشاہ کو تہہ تیغ کر دیا گیا ۔
غرض کامیاب ہونے و ناکامی سے بچنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ زمین سے نکلنے والی چیزوں میں کامیابی سمجھی جائے اور ان کے حصول کے لئے اپنے جان و مال خرچ کئے جائیں لیکن اس کے نتیجے میں بہت ممکن ہے کہ کامیابی پھر بھی نہ ملے اور اگر مل بھی جائے تو وہ بہت ہی حقیر اور حد درجہ کی ناپائیدار ہوگی ۔
اور دوسرا راستہ انبیاء کرام کا بتایا ہوا ہے کہ کامیابی و ناکامی کا یقین اللہ رب العزت کی ذات اعلیٰ میں رکھا جائے اور ان کی ذات کے لا محدود خزانوں سے کامیابی حاصل کی جائے ایسی کامیابی انسان کے وہم و گمان سے بھی زیادہ اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہوگی ۔
انبیاء کرام کے پاس چیزوں کی بہتات نہیں تھی صرف ہدایت کی دولت تھی لیکن خدائے تعالیٰ نے انہیں کامیاب کرکے بتا دیا ۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے پاس چیزیں تھیں لیکن ہدایت نہیں تھی انہیں ناکام بنا دیا حضرت نوح ع سے لے کر حضور اقدس ص تک تمام انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام کے واقعات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں ۔
حضرت نوح علیہ السلام کے پاس نہ طاقت ہے ، نہ قوت ، نہ حکومت ہے نہ اکثریت ، نہ مال و دولت ہے نہ ہتھیار، نو سو سال کی ایمانی محنت کا سرمایہ صرف چند ساتھی ہیں ۔ قوم پھبتیاں اڑا رہی ہے ۔ فقرے کس رہی ہیں ۔ دیوانہ اور پاگل کا خطاب دے رہی ہیں ۔ بیٹا تک باپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے کشتی تیار کرتے ہیں توقوم مذاق اڑاتی ہے کہ پانی کا کہیں پتہ نہیں اور نوح علیہ السلام کی دیوانگی دیکھو کہ یہ کشتی بنا رہے ہیں لیکن حضرت نوح علیہ السلام ان پھبتیوں اور تکلیفوں کی کچھ پرواہ نہیں ان کو اپنے مولیٰ کے حکم کی تعمیل کرنا ہے اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ قوم اپنی نادانی اور جہالت کی بناء پر غرقاب ہونے والی ہے ، وہی نتیجہ ہوا جو ہونا تھا ۔
حضرت نوح علیہ السلام باوجود بے سر و سامانی کے کامیاب ہوگئے اور ان کی پوری قوم جس نے ان کا کہنا نہ مانا اور مذاق اڑاتی رہی ناکام و نامراد ہو کر پانی کے طوفان میں غرق ہو کر صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوگئی ۔
موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ماننے والے ذلیل سمجھے جا رہے ہیں ان کواپنی جانیں اور مال و عزت بچانا مشکل ہو رہا ہے دوسری طرف فرعون اپنے دبدبہ اور حکومت ، شان و شوکت اور مال و دولت ، اکثر یت و اسلحہ کی بناء پر خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے صلہ سے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو یہ بتلادیا کہ کامیابی و ناکامی صرف انہی کے قبضے میں ہے چنانچہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے لئے سمندر میں خشکی کے راستے بنا دئیے اور جب فرعون اور اس کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا تو ان کو سمندر نے ڈبو دیا ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*