Jinnat ki Haqeeqat | جنات کی حقیقت

فہرست

موجودہ دور میں عاملین حضرات کےپاس ایک فیصد ضرور ایسا شخص آتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ فلاں آدمی یا فلاں عورت پر جن کا سایہ ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ بعض سفلی عامل یا جادوگر دوسروں پر جن دیو بھوت پرت اور چڑیل یا کوئی خبیث بدروح وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں جو مختلف طریقوں سے تکلیف پہنچاتے  رہتے ہیں اور اسی طرح موکل ۔ جن یا ہمزاد وغیرہ کو قابو کر کے ان سے مختلف کام لئے جاتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو کسی ہندو مردہ کی ارتھی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں راستہ میں جہاں کہیں وہ گھڑا توڑتے ہیں تو اس کی ایک ٹھیکری اٹھا لیتے ہیں ۔ جب ہندو لوگ اپنے مردہ کو مرگھٹ میں جلا کر واپس آجاتے ہیں تو وہ عامل منہ میں دودھ کا گھونٹ بھر کر ( جو وہ پہلے سے اپنے ساتھ لے آتا ہے )جلی ہوئی میت پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف جا کر اپنے منہ کے دودھ کی کلی کرکے چند کوئلوں کو بجھا لیتا ہے اور وہ بجھے ہوئے کوئلے اور گھڑے کی ٹھیکری واپس لے کر گھر آجاتا ہے اور اس کوئلہ سے ٹھیکری پر کچھ لکھ کر اپنے مختلف شعبدے دکھاتا ہے اسی طرح بعض سفلی عامل میت کے نہلانے کی تھیلیاں اور روئی وغیرہ حاصل کر کے میت کے ساتھ قبرستان تک جاتے ہیں اور دفن کے بعد قبر پر مردہ کو یہ کہہ کر میں رات کو آؤں گا واپس آجاتے ہیں ۔ اور پھر رات کو چراغ میں تیل ڈال کر مستعملہ روئی کی بتی (فتیلہ ) ڈال کر چراغ جلاتے ہیں اس طرح وہ مردے کے ہمزاد کو تابع کرنے کا عمل کرتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ مَدَّ الظل ۔ ثُمَّ قَبَضۡنٰہ
اور فارسلنا الیہا روحنا(سورہ مریم) والی آیات ہمزاد کے متمثل ہونے پر قوی دلائل ہیں ۔
جنات ، انسانوں اور فرشتوں کی طرح ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں ۔ جس پر قرآن مجید شاہد عدل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ” سورہ صٓ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے مسخر کردیا ہے ۔ ازروئے قرآن مجید شیطان بھی جنوں میں شمار ہوتا ہے اس لئے کہ وہ بھی ناری ہے ۔ بفحوائے قرآن مجید کہ "مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ” سورہ الناس میں بتایا گیا ہے کہ "جنوں اور انسانوں میں سے وہ بھی ہیں جو لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتے ہیں ” ۔ جن اور شیطان حضرت پیغمبر آخر الزماں ص کی بعثت سے قبل آسمانوں پر جا کر فرشتوں سے خبریں سن کر کاہنوں کو بتا دیا کرتے تھے آپ ﷺ کی بعثت کے بعد شیطانوں اور جنوں کو آسمانوںپر جانے سے روک دیا گیا ہے ۔ اگر اب وہ آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو آسمانوں کے محافظ فرشتے انہیں آگ کے دہکتے ہوئے انگارے مارتے ہیں جن کو عوام تارا ٹوٹنا کہتے ہیں ۔ جنوں کے بیّن ثبوت میں قرآن مجید کی سورہ الجن شاہد ہے اس کی پہلی دو آیات کا ترجمہ درج ہے ۔
"اے پیغمبر! لوگوں سے فرمادیجئے کہ میرے پاس وحی آتی ہے بے شک اس کو جنوں کی ایک جماعت نے سنا تو انہوں نے کہا کہ بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم کبھی بھی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بتائیں گے (مزید معلومات کے لئے سورہ الجن کی اگلی آیات کا ترجمہ پڑھیں)۔
سورہ النمل میں ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے "۔ سورہ النمل کے رکوع نمبر ۳ میں ہے "جنات میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس(تخت) کو آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا اور مجھے اس پر قدرت حاصل ہے اور میں امانت دار بھی ہوں (تفصیل کے لئے سورہ النمل کا ترجمہ پڑھیں )۔
سورہ الرحمن کی آیت نمبر ۳۳۔۳۵ میں ہے ” اے جن و انس کے گروہ ! اگر تمہیں طاقت ہے کہ آسمان و زمین کے کناروں سے نکل سکو تو نکل جاؤ اور تم زور کے سوا نہیں نکل سکتے ۔ تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑدیا جائے گا تو پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے "۔ عاملین حضرات نے جنات و شیاطین کو مار بھگانے کے لئے اس آیت نمبر ۳۵ سے استنباط کرتے ہوئے کافر بادشاہوں اور جنات و شیاطین کے ناموں کے فتیلہ بنا کر جن زدہ اور مسحور کو دھونی دینے کا طریقہ رائج کیا ہے وہ فتیلہ یہ ہے

"شداد نمرود ہامان فرعون لعین قارون شیطان بلبنا عور "۔
یہ یاد رہے کہ فتیلہ ہمیشہ دائیں طرف سے لپیٹا جائے اور اسی طرف سے روشن کیا جائے ۔

امام بیہقی سے مروی ہے کہ حضورﷺ کے مشہور صحابی حضرت ابودجانہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آپ ﷺ سے عرض کیا کہ رات جب میں سونے کے لئے لیٹا تو گھر میں سے ایک آواز آئی جیسا کہ شہد کی مکھیاں بھنبھناتی ہیں میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک سایہ لٹک رہا ہے میں نے اسے ہاتھ لگایا تو اس نے میری طرف ایک شعلہ سا پھینکا مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں جل رہا ہوں ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ جن ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے قلم دوات منگوا کر حضرت امام علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ کو دی اور فرمایا کہ یہ دعا لکھو (یہ دعا حرز ابودجانہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور ہے ) حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تحریر شدہ کاغذ کو لے آیا اور دوسری رات اس تعویذ کو اپنے سرہانے رکھ کر سو رہا آپ کہتے ہیں کہ میرے گھر سے چیخوں کی آواز آتی تھی کہ”ہائے جلے ہائے جلے ۔ ابودجانہ اس تعویذ کو اپنے سرہانے سے الگ کرلے قسم ہے لات و عزیٰ کی اب ہم تیرے گھر نہیں آئیںگے "۔ حضرت ابودجانہ کہتے ہیں کہ نماز فجر کے وقت میں حضور ﷺ
سے رات کی چیخ و پکار کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب وہ (جن) قیامت تک جلتا رہے گا ۔

مجھے سب سے پہلے شہزادی جنات کا عمل حضرت استاذی المکرم علامہ فیروز الدین علوی فلسفی رام پتنی (ریاست پونچھ) سے ملا تھا اور اخراج جنات کا عمل مولوی غلام مصظفیٰ دسوہنوی مرحوم سے ملا تھا یہ عمل سورہ الجن کا ہے اور تمام کائنات کے جنات اس کے تابع ہیں یہ سورہ جنات کی بادشاہ ہے ۔ عروج ماہ قمری میں آدھی رات کے وقت نہر یا کنویں میں ٹانگیں لٹکا کر شہر سے باہر ۴۱ بار۔ ۴۱ روز تک یہ عمل پڑھا جاتا ہے اس کے بعد میں نے اصراف عامر ۔ عہد سلیمانی ۔ حرز ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ ۔ اور چہل کاف حضرت غوث الاعظم (رح) وغیرہ اعمال کئے جو جنات و شیاطین اور سحر و جادو کے اثرات کے ابطال میں تیر بہدف اور سریع الاثر ہیں ۔
میں نے ایسے مریضوں میں نوے فیصد نوجوان عورتیں اختناق الرحم(ہسٹریا) کی شکار دیکھیں یا پھر ذہنی بیماریوں میں مبتلا پائی گئیں ۔ نو فیصد سحر زدہ اور ایک فیصد جن زدہ تھیں ۔ یہ یاد رہے کہ جن نکالنے والے عامل کے لئے ہر وقت باوضو رہنا لازمی ہے کیونکہ وضو مومن کا ہتھیار ہے اور جن نکالنے سے پہلے اپنے تمام بدن پر سورہ الجن ۔ آیت الکرسی اور ہر چہار قل پڑھ کر دم کرلینا چاہئے ۔
جو لوگ جنات و شیاطین وغیرہ کے وجود کے منکر ہیں وہ دراصل قرآن و حدیث اور خدا اور رسولﷺ کے منکر ہیں ۔ یہ خیال رہے کہ انسان خاکی مخلوق ہے فرشتے نوری مخلوق ہے اور جنات آتشی مخلوق ہیں ۔ جنوں کے متعلق عربی مقولہ ہے کہ الجن جسم ناری یتشکل باشکال المختلفتہ یعنی جن ناری جسم رکھتا ہے اور وہ مختلف شکلیں تبدیل کرلیتا ہے جنات وغیرہ کے اعمال میں جلالی و جمالی پرہیز از حد ضروری ہیں ۔بعض دفعہ ذرا سی کوتاہی پر جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اس لئے عمل ایسی تنہا جگہ پڑھیں جہاں کوئی دوسرا نہ آئے اور مضبوط حصار دیکر عمل شروع کریں اپنے پاس حصار کے اندر پانی کا آفتابہ ضرور رکھیں تاکہ وضو فاسد ہونے پر دوبارہ وضو کرنے میں آسانی رہے عمل کے کمرے میں ایک جانب استنجا اور وضو کی جگہ ہونا ضروری ہے جو عامل حصار سے باہر پانی وغیرہ رکھتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں اکثر اوقات ادھر عامل کا وضو ٹوٹا ادھر اس نے گھڑے سے پانی لینا چاہا تو گھڑا پانی سے خالی پایا جس کا مطلب یہ ہے کہ جن نے گھڑے کا پانی ضائع کردیا اور عامل کو حصار سے باہر نکلنے پر گلے سے آدبوچا۔

ابن قتیبہ سے منقول ہے کہ کسی شخص نے ان سے بیان کیا کہ میں بصرہ میں خرما کی تجارت کرتا تھا کرایہ پر کوئی گھر نہ ملا صرف ایک گھر ملا جس پر مکڑی نے جالے لگا رکھے تھے میں اسکی وجہ پوچھی لوگوں نے کہا کہ اس میں جن رہتا ہے میں نے مالک سے کرایہ پر مانگا اس نے کہا کہ کیوں اپنی جان کھوتے ہو اس میں بڑا بھاری جن ہے جو شخص اس میں رہتا ہے اس کو مارڈالتا ہے میں کہا کہ مجھے کرایہ پر دو دے اللہ مددگار ہے ۔ اس نے مجھے کرایہ پر دے دیا میں اس مکان میں ٹھہر گیا جب رات ہوئی ایک شخص سیاہ فام جس کی آنکھیں آتشیں شعلہ کی مثال روشن تھیں آیا میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کی وہ بھی میرے ساتھ برابر پڑھتا رہا جب میں ولا یودہ حفظہما وھوالعلی العظیم پر پہنچا تو وہ یہ الفاظ نہ کہہ سکا میں نے بار بار اسی کو کہنا شروع کیا بس وہ تاریکی سی جاتی رہیہ اور میں رات بر آرام سے رہا جب صبح ہوئی اس جگہ جلنے کا نشان اور راکھ دیکھی اور ایک کہنے والی کی آواز سنی کہ تونے بڑے بھاری (موذی) جن کو جلا دیا ۔ میں نے پوچھا کس چیز سے جل گیا جواب دیا کہ اس کلمہ سے ولا یودہ حفظہما وھو العلیم العظیم۔

میرے ایک دوست حافظ عبدالسلام لدھیانوی کو جنات کے اعمال کرنے کا بڑا شوق تھا ۔ وہ مجھے بے شمار سفلی اور علوی عاملیں کے ہاں لئے پھرتا رہا اور ہر ایک سے کہتا کہ میں نے رات کی تاریکی میں قبرستان میں عمل کئے ۔ دریاؤں اور نہروں میں وظائف پڑھے لیکن مجھے تو کبھی چوہیا بھی نظر نہ آئی اور نہ ہی کبھی جن یا چڑیل وغیرہ دکھائی دی ۔ خدا جانے اس نے کہاں سے کوئی عمل سیکھ لیا اور اپنے گھر کے ایک کمرے کے اندر سے بند کر کے پڑھنا شروع کیا ۔ اکتالیسویں دن رات کا واقعہ ہے کہ اس کی بیوی اور اکلوتی بیٹی نے ساتھ والے کمرے سے خوفناک آوازیں سنیں اور پھر شور و غوغا ، ہائے میں مرگیا ہائے مرگیا۔ پڑوسیوں کو اکٹھا کر کے دروازہ توڑ کر دیکھا گیا تو حافظ صاحب کو مردہ پایا گیا اور بدن پر خونی نشانات تھے ۔

انتباہ : مسلمان کو ازروئے شرع کبھی بھی سفلی عملیات نہیں کرنے چاہئے کیونکہ قرآن مجید نے ان کی افادیت سے انکار کیا ہے اور ایسے غیر مشروع اعمال کو محض نقصان دہ اور ضرر دہندہ قرار دیا ہے جو انسانی زندگی کے لئے کبھی بھی خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*