Falsafa-e-Amaliyat::.فلسفہ عملیات

کسی پودے کی نشو ونما ۔ اس کی دیکھ بھال ۔ اس کی تروتازگی کے فلسفہ پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو علم ہوگا کہ اس پودے کے تخم کو زمین قوت نمو دیتی ہے ۔ ہوا ، دھوپ ، سورج ، چاند بارش وغیرہ سب مل کر اس کی تروتازگی اور پرورش کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ مزید غور کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ زمین پودے کی ماں ہے جبکہ دیگر طاقتیں نشو ونما میں اس کی معاون ہیں ۔ اگر پودے کو زمین سے نکال دیا جائے ۔ اگر اسے دیگر معاونین سے یعنی چاند سورچ، وغیرہ سے محروم کر دیا جائے تو پودا یقینا ختم ہوجائے گا ۔ہر ایک جانتا ہے کہ پودے کی پرورش میں ان تمام کا ہونا ضروری ہے ۔
اب ذرا دوسرے زاویہ سے دیکھئے ۔ جب کسی پودے میں قوت نمو اور طاقت کشش باقی نہ رہے تو یہ قوتیں جو کل تک نشوونما میں اس کی معاون تھیں آج اس پودے کو گلانے سڑانے میں مدد کریں گی ۔ کل تک سورج کی کرنیں اس کے لئے حیات و تروتازگی کا سبب تھی ۔ آج وہی دھوپ اس کو خشک کرنے کا فعل انجام دے رہے ہے ۔ کل تک زمین اس پودے کو اپنی آغوش میں لے کر تروتازہ رکھ رہی تھی ۔آج وہی زمین اسے گلا سڑا رہی ہے کل تک اس پودے کو زمین سے علیحڈہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ یہ ختم نہ ہوجائے لیکن آج اس کی لکڑی کو زمین سے بچایا جا رہا ہے تاکہ گلنے اور سڑنے سے محفوظ رہے ۔
اس فلسفہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کل تک جو طاقتیں باعث تروتازگی و قوت حیات کی ضمانت تھیں آج وہی قوتیں نقصان کا موجب ہیں ۔ یہی فلسفہ تمام اجسام تمام حالات پر حاوی ہے اس مثال پر ذرا اور غور کریں تو سمجھ آئے گا کہ وہ پودا جس میں یہ قوت کشش باقی ہے سورج اس کے لئے حیات جاودانی کا مظہر ہے جبکہ وہ پودا جس میں قوت کشش باقی نہیں سورج اس کے لئے نقصان کا موجب۔ حالانکہ سورج وہی ہے ۔ زمین وہی ہے پودا وہی ہے ، تخم وہی ہے ، باغ وہی ہے ۔ یہاں ایک ہی بات سمجھ میں آئے گی کہ خشک ہونے والے پودے سے وہ مادہ ہی ختم ہو چکا ہے جس سے وہ تروتازگی دیگر طاقتوں سے حاصل کر پا رہا تھا ۔اکثر احباب فری روحانی سروس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے سوالات روانہ کرتے ہیں جن میں اکثر سوالات کی نوعیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ ہمارا کاروبار جو اچھا خاصہ چل رہا تھا بند ہوگیا ہے ۔ حالانکہ یہی کام دیگر حضرات بھی کر رہے ہیں اور منافع حاصل کر رہے ہیں ۔ بعض کا سوال ہوتا ہے کہ کل تک جو ہمارے عزیز تھے آج دشمنی پر اتر آئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ ہر کام میں رکاوٹ ہو رہی ہے ہم جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں رکاوٹ ہوتی ہے بلکہ بجائے فائدہ کے نقصان ہوجاتا ہے ۔
ایسے تمام حضرات مندرجہ بالا پودے کی مثال پر غور کر کے نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کاروبار میں نفع کا مادہ ختم نہیں ہوا۔ آپ کے عزیز و اقارب جلاد و ستمگر ہرگز نہیں بن گئے ہیں ۔ یہ تمام پریشانی صرف اسی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے کہ خود آپ کی اپنی تقدیر گردش میں ہے آپ کے سیارگان آپ پر نحوست ظاہر کر رہے ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ موجودہ وقت آپ کے خلاف ہے ۔ جس طرح ہماری بیان کر دہ مثال میں پودے میں قوت کشش باقی نہیں رہی یہی حال آپ کا بھی ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ زمانہ نہیں بدلا بلکہ ہم بدل گئے ہیں ۔ زمانہ ہم سے ہے نا کہ ہم زمانے سے ۔ جو چیزیں یا انسان ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں ان میں اب بھی خیر کی قوت موجود ہے اور دوسرے لوگ اب بھی ان سے نفع حاصل کر رہے ہیں لیکن ہماری گردش نے ہم میں سے اس قوت کا خاتمہ کر دیا ہے۔
اب ذرا اس فلسفہ کا تسیرا رخ بھی ملاحظہ کیجئے ۔ مالی نے ایک پودے کو مرجھایا ہوا دیکھا اس پودے کی پژمردگی دورکرنے کی تدابیر اختیار کرنے لگا۔ اردگرد کی گھاس صاف کی ۔ زمین کو نرم کیا ۔ اسے کھاد دیا ۔ پانی دیا ۔ مرجھائی ہوئی شاخیں کاٹ دیں۔مالی کی حسن تدبیر نے مردہ پودے کو حیات نو بخش دی اب پھر وہی پودا لہلہانے لگا پھر وہی قوتویں جو اسے پژمردہ کر رہے تھیں تروتازہ کرنے لگیں۔ انسان کی پریشانیاں اور بے سروسامانی دور کرنے والا مالی خدا کا مقدس کلام ہے جس کے اثرات سے وہ قوتیں جو ہمیں پریہشان کرنے پر تلی ہوئی تھیں اب سامان جمعیت بن رہی ہیں ۔ جس طرح مالی پودے کو تروتازہ کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کرتا ہے اس طرح عملیات کے ذریعے مختلف تدبیریں کی جاتی ہیں تاکہ پریشانی سے نجات حاصل ہو کر راحت کا حصول ممکن ہو۔ اب اس فلسفہ کا چوتھا رخ ملاحظہ کیجئے ۔۔۔ پودا مرجھا رہا ہے ۔ مالی تروتازہ کرنے کی سعی کر رہا ہے ۔ لیکن پودے کی طاقت نشو ونما ختم ہو چکی ہے کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو پا رہی ہے ۔ باوجود ہمہ کوشش کے پودا روزبروز مرجھایا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے ۔ مالی کو پہلے علم نہ تھا اور نہ ہی قدرت نے یہ علم دیا ہے اگر مالی سمجھ لے کہ ہر پژمردہ ہونے والا پودا بالآخر فنا ہوجائے گاتو ہزاروں درخت قبل از وقت خشک ہوجاتے ۔ حالانکہ مالی کی سعی و تدبیر تمام پودوں کو پژمردگی سے محفوظ رکھ سکتی تو آج کسی باغ میں سوکھے ہوئے درختوں کا پتّہ تک نہ ہوتا۔ یہ درخت سرسبز ہوگا یا نہیں ۔۔۔ یہ نتیجہ ِ تدبیر ہے ۔ یہی حال عملیات و تعویذ ات کا ہے ۔ کسی کو کچھ علم نہیں کہ اس عمل کا کیا نتیجہ ہوگا۔بس تقاضائے دانش یہی ہے کہ ہم پریشانی ، صعوبت، اور ہر تشویش کو عارضی سمجھتے ہوئے اس کے دور کرنے کی کوشش کریں ۔
میرا اپنا تجربہ ہے کہ بعض اوقات کسی سائل کے سلسلہ میں کی گئی معمولی سی تدبیر حصول راحت کا باعث بنتی ہے ۔ لیکن بعض اوقات تمام کی تمام تدابیر کا نتیجہ صفر رہتا ہے ۔
مضمون کے اختتام پر ایک اہم بات کرنا چاہوں گا کہ اکثر حضرات کو تدبیر کے طور پر کوئی عمل بتایا جاتا ہے یا وہ رسالہ میں شائع ہونے والے عمل کو کرنا چاہتے ہیں ، اکثر حضرات فری روحانی سروس کے تحت سوال کرتے ہیں کہ عمل کا نتیجہ کیا ہوگا؟؟ میرے نزدیک یہ انتہائی فضول ترین سوال ہے ۔۔۔۔۔۔
کسی عدالت میں کسی مقدمہ کی بناء پر سزا سنا دی گئی ۔ اب حاکم اعلیٰ کو رحم کی درخواست دی گئی ۔ یہ رحم کی
درخواست کسی قانون کے ماتحت پیش نہیں ہوتی ۔
عمل کیا ہے ؟؟ بارگاہ احکم الحاکمین میں رحم کی درخواست۔۔ دنیوی علم کی تگ و پو سے خدائے رب ذوالجلال کی ذات اقدس بالا تر ہے ۔ تو پھر آپ ہی بتائیے کہ وہ کونسا علم ہے جو خدائے پاک کے ارادوں کو معلوم کر سکے ۔
نجوم ۔ رمل ۔ جفر ۔ ساعات وغیرہ سے وجہ گردش معلوم ہو سکتی ہے کہ یہ علوم بمنزلہ عدالتوں کا درجہ رکھتے ہیں ۔ جہاں قانون اور واقعات پر بحث کی جاتی ہے لیکن عمل اور اس کی قوت ان تمام علوم کی حد سے باہر ہے عمل کا تعلق عدالت احکم الحاکمین سے ہے اور وہی اپنے ارادوں اور احکام کو خود ہی خوب جانتا ہے ۔ ہم اور ہمارے محدود علوم اس کی ذات تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔
عدالت احکم الحاکمین سے ایک حکم جاری ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ مجھ سے دعا کرو۔ میں قبول کروں گا۔
یہ اعلان سچا ہے حق ہے ۔ یہ حق ہر مانگنے والے کو دیا جاتا ہے ۔ تا قیامت اس کے آئین میں ترمیم نہیں ہوگی ۔ ہر عمل کا اثر مرتب ہوتا ہے بعض اوقات اثر ظاہر ہونے میں دیر ہوتی ہے کیوں؟؟ ۔۔۔ اس فلسفہ کو شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں
پدر را عسل بسیار است۔ولیکن مزاج پسر گرمی داراست اس فقرہ میں تمام کائنات کا فلسفہ سمیٹ لیا گیا ہے اگر مزاج میں گرمی نہیں تو شہد فوراََ دے دیا جاتا ہے ۔ اگر گرمی ہے تو گرمی جب تک دور نہیں ہوجاتی ملتوی کیا جاتا ہے لیکن ملے گا ضرور۔عملیاتی تجربہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ بہت سے احباب قانون عمل کا پاس نہیں کرتے ۔ بہت سے عمل کا صحیح استعمال نہیں کر تے ۔شوق تو بے شمار اصحاب کو ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ سواری مستقل مزاجی سے وہ اصحاب نہیں کرتے۔

لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ عمل کا مطلب ہے کہ دو تین روز کسی عمل کو کیا اور حسب منشاء کامیاب ہوگئے ۔ حالانکہ عمل ایک ایس مشکل شاہراہ ہے جس پر چل کر کامیابی کی حدتک پہنچنا آسان کام نہیں ۔ جس طرح آپ دنیا کے کام کرتے ہیں پھر ثمر ملتا ہے اسی طرح عملیات میں بھی سخت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ عمل سر غیب ہے ۔ اور ہرگز ہرگز اثر سے خالی نہیں ہے ۔ ہاں اس کے قواعد ضرور ہیں ۔ بے قاعدہ کوئی بھی عمل اثر نہیں کرتا ۔بعض کہتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا آسان عمل دیا جائے جو دو دن میں نتیجہ برآمد کر دے ۔ عمل آسان ہو کیونکہ میں بیرون ملک مقیم ہوں ۔۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ برادرم آپ بیرون ملک مقیم ہو کر پیٹ کا ایندھن بجھانے کے لئے سب سے مشکل کام کر سکتے ہیں اور عمل میں آسانی کے طلب گا رہیں ۔ کیا آپ جس جگہ ملازمت کررہے ہو ان سے یہ کہو ، کہ مجھ سے مہینے بھر کا کام دو دن میں لے لو اور مجھے تنخواہ ایک ماہ کی دے دو ۔ جب آپ یہ معاہدہ اپنے مقرر کردہ کام میں کرنے میں کامیاب ہوجائو تو میں بھی 24گھنٹے میں اثر کرنے والا عمل بتا دوں گا۔۔۔۔۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*