اثرات حروف

علم الحروف اپنے اندر ایک وسیع کائنات رکھتا ہے اس کے جاننے والے اب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ بعض اصحاب عملیات کا مضحکہ اڑاتے نظر آتے ہیں کوئی اسے بے اثر بتلارہا ہوتا ہے تو کوئی ڈھکوسلہ کہہ رہا ہوتا ہے ۔ یہ وہی اصحاب ہیں جو عملیات اور علم الحروف سے ناآشناہوتے ہیں حالانکہ یہ افراد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حکیم کی دی ہوئی ادویات میں اثر ہے ، لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی حرف میں کوئی خاص تاثیر پیدا کر سکتا ہے ۔ یاد رکھیں کہ دھات ایک ہی ہے مثلاََ چاند ی ، سونا ، لوہا ، تانبہ وغیرہ مگر ایک دھات سے ہزاروں قسم کے زیورات اور برتن او دیگر کارآمد اشیاء بنائی جاتی ہیں ، یہی ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے لیکن اگر یہی دھاتیں ہمیں خام حالت میں دیدی جائیں تو ہم ایک چاندی کاپترہ تک نہیں بنا سکتے ۔ اسی طرح حرف تو ایک ہے مثلاََ الف مگر اس میں قسم قسم کے اثرات پنہاں ہیں ۔ ضرورت ہے صناع اور کاریگری کی ۔ آپ کے اگر ایک لوہے کا ٹکڑا دے دیا جائے تو آپ کے لئے بے کار ثابت ہوگا مگر یہی لوہے کا ٹکڑا اگر ایک کاریگر کو دے دیا جائے تو وہ اس سے ایک کارآمد پرزہ بنا سکتا ہے ۔ اسی طرح حروف آپ کے لئے بے کار ہیں مگر ہمارے متقدمین ان سے کافی کام لیتے رہے ہیں ۔ یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ ہر پرزہ اپنی جگہ پر کام دیتا ہے اور اس کی طاقت اسی جگہ کارآمد ہوتی ہے مثلاََ اگر آپ کو کوئی خوبصورت سا زیور کسی عورت کے لئے بنانا ہے تو لازم ہے کہ دھات نرم ہو یہ نہ ہو کہ لوہے سے آپ وہ زیور تیار کروالیں بجائے زینت کے بدصورتی کی علامت ثابت ہوگا۔ اسی طرح حروف سے کام لیتے وقت یہ علم ہونا چاہئے کہ کونسا حرف کس جگہ کارآمد ہو سکتا ہے ۔
مزید غور کریں تو ایک حرف الف ، جو کہ اپنی جگہ کارآمد اور صاحب قوت ہے مثلاََ اللہ میں پہلے الف ہے لیکن اسی طرح ابلیس میں بھی پہلے الف ہے ۔ مگر اللہ کا الف اپنی جگہ پر اثر دے رہا ہے اور ابلیس کا اپنی جگہ ۔ اب جس طرح کاریگر کو ہر پرزہ کی قوت اور جگہ معلوم ہے اسی طرح ہر حرف کی قوت اور مقام اسی کو معلوم ہے جو "علم الحروف ” سے واقف ہو ۔اس مرتبہ ہم حرف ن جو کہ بہت متبرک اور جیل المرتبہ ہے قرآن میں ایک سورہ کی ابتداء اسی حرف سے شروع ہے یعنی "ن والقلم وما یسطرون”اس آیت مقدسہ میں معانی و مقاصد کا ایک بے پایاں سمندر قدرت نے بند کردیا ہے یہ تو دنیا میں کسی کو قدرت ہی نہیں کہ قرآن پاک کے تمام معنی لکھ سکے لیکن جس حد تک انسانی فہم اور علم کام کر سکتا تھا اس کے مطابق اس کی شرح کی گئی ہے ۔اس حرف کے بارے میں علمائے روحانیات نے یہاں تک لکھا ہے کہ صرف یہی ایک حرف ایسا ہے کہ اگر اس کا عمل کرلیا جائے تو انسان وہ بن جائے کہ جن و انس بلکہ ملائکہ تک اس کے زیر ہوجائیں ۔
شمسی ترتیب کے لحاظ سے یہ پچیسواں حرف ہے اور ترقی کا حرف چہارم ہے ۔ شمسی حساب سے مشتری سے تعلق ہے ۔ بعض اساتذہ فن نے اسے قمر سے متعلق بھی بیان فرمایا ہے اور ہماری تحقیق بھی یہی ہ کہ حرف نون کا تعلق قمر سے ہے ۔ اس کا مزاج مرتبہ ہفتم پر آتشی ہے عدد بحساب مکتوبی سات سو ہیں اس کا مثلث آتشی چال ہے مگر ہمیں یہاں مثلث خالی البطن سے کام لینا ہے لہٰذا یہاں مثلث خالی البطن ہی لکھا جاتا ہے ۔

یہ عمل دراصل آرام طلب انسانوں کے لئے نہیں ہے ۔ اگر آپ واقعی محنت سے نہیں گھبراتے تو آئیے ذرا اس کی ترکیب پر دھیان دیجئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ دولت دین کے ساتھ ساتھ دنیا کا حصول بھی ہوگا۔
اس نقش معظم کوروزانہ دو سو سترہ (۲۱۷)مرتبہ تحریر کرنا ہے اکیس یوم۔ جبکہ بائیسویں دن دو سو سترہ کی بجائے دو سو پینتیس (۲۳۵) مرتبہ لکھنا ہوگا۔ کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے جو وقت بھی آپ کی سہولت کے مطابق ہو اسے مقرر کرلیں مگر شرط یہ ہے کہ روزانہ ایک ہی نشست میں یہ تعداد ختم کرنا ہے اور جو وقت مقرر کیا گیا ہو اس میں تبدیلی واقع نہ ہو ہاں دو پانچ منٹ سے کوئی مضائقہ نہیں۔ تمام نقوش باوضو ہو کر زعفران سے تیار کردہ سیاہی سے تحریر کئے جائیں گے ۔ لکھے ہوئے نقوش آٹے کی گولیاں بنا کر اور آٹے میں لپیٹ کر ایسے پانی میں بہانا ہے جہاں مچھلیاں ہوں ۔ خواہ دریا ہو یا سمندر یا کوئی جھیل وغیرہ ۔ ایک بات اور بھی ذہن نشین رکھ لیں کہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ نقوش روز کے روز پانی میں بہائے جائیں ، دو چاردن کے اکٹھا جمع کرکے بھی بہائے جا سکتے ہیں ۔باوجود کوشش کے بھی پانی میں بہانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں کسی جنگل وغیرہ میں دفن کردیں ۔احتیاط و پرہیز۔ ان بائیس دنوں میں ترک حیوانات کریں گوشت ہمہ قسم ، دہی ، دودھ ، گھی وغیرہ سے پرہیز کریں۔
نماز کی پابندی ۔ شرعی احکامات پر حتی المقدور عمل پیرا ہونا۔ اکل حلال و صدق مقال جزو عمل ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اول تو ۲۲ دنوں میں اس کے اثرات مشاہدہ میں آجائیں گے ورنہ ۲۲ دنوں کے بعد روزانہ بائیس نقش لکھنا شروع کردیں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے جائز مقصد کے لئے کہیں اور ٹھوکریں کھانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی ۔ پرہیز صرف بائیس دن کا ہوگا۔ جو نقوش مداومت کے طور پر بائیس دنوں کے بعد لکھے جائیں گے ان میں پرہیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک اور بھی بات کا خیال رکھیں کہ یہ عمل ہر جائز مقصد کے لئے کیا جا سکتا ہے نقش کے نیچے اپنا مقصد لکھا کریں کہ مثلاََ روزگار میں ترقی ہو ۔ قرض ادا ہو ۔ صحت حاصل ہو۔ فلاں بن فلاں حاضر ہو وغیرہ وغیرہ ۔ غرض ہر جائز کام کے لئے اس عمل کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*