حاضرات کی انوکھی دنیا

فہرست

فسانہ یا حقیقت۔۔۔۔عملی
تجربات و مشا ہدات

حاضرات کیا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔کیوں کی جاتی ہے؟؟؟

میرا بچپن اور حاضرات

یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب میری عمر سات سال تھی۔ اندرون سندھ لسانی فسادات کی آگ بھرک اُٹھی تھی۔ اپنی جان کی حفاظت کے لئے لوگ راتیں جاگ کر گزارتے تھے ۔ نا معلوم کس وقت کوئی حملہ کر دے۔ خون کی ہولی کھیل جائے ۔ ایسے نازک وقت میں لوگوں نے سوچا صاحب ثروت افراد بھی شامل تھے اپنی حفاظت خود احتیاطی کےتحت اسلحہ کا بندوبست کیا جائے۔ صاحب ثروت افراد کے تعاون سے اسلحہ منگوا کر مسجد کے اوپر بنے ہوئے کمرے میں رکھوا دیا گیا تاکہ جب بھی اسکی ضرورت محسوس ہو مسجد سے منگوا کر استعمال کیا جائے۔ پانچ افراد کی کمیٹی تشکیل دی گئی جو اسلحہ کی نگرانی پر معمور تھی ۔ یہ وہی کمیٹی تھی جس نے اسلحہ منگوانے کا بندوبست کیا تھا۔ اسی کمیٹی کے ایک ممبر نے ایک ٹی ٹی نکال لی آسکی نیت میں فتور آگیا تھا جب لوگوں کے علم میں یہ بات آئی کے ٹوکری میں رکھے ہوئے اسلحہ میں سے ایک ٹی ٹی کسی نے غائب کر لی ہے۔ تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کمیٹی کے ہر ممبر سے معلوم کیا گیا کوئی حامی بھرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لوگوں نے باہم متفق ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ اس چوری کے بارے میں حاضرات کرواکر معلومات لی جائیں کہ چوری کس نے کی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب جو بچے پر حاضرات کرواتے تھے اُن سے رابطہ کیا گیا۔ حاضرات کے لئے مجھے منتخب کیا گیا۔ میرے کپڑوں پر خوشبو لگائی گئی۔ ایک آئینہ منگوا کر اُس پر بھی خوشبو لگائی گئی۔ آئینہ پر پڑھائی کی گئی۔ چند منٹ گزرنے کے بعد مجھسے حاضرات کرنے والے نے پوچھا آئینہ میں کچھ نظر آیا میں نے جواب دیا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ حاضرات کرنے والے نے مجھسے کہا کہ اپنی انکھیں بند کرو ۔ میں نے انکھیں بند کر لیں ۔ آس نے مجھ پر پڑھائی کی میرا سر بھاری ہونے  لگا کاندھوں پر بوجھ محسوس ہونے لگا پھر مجھسے پوچھا گیا کچھ آئینے میں نظر آیا اب مجھ پر حاضرات کُھلنے لگی۔ مجھے آئینے میں ایک بادشاہ کا دربار لگا ہوا نظرآیا۔ لوگ نشستوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ حاضرات کرنے والے نے مجھسے پوچھا آئینہ میں کچھ نظر آیا۔ جو کچھ مجھے آئینے میں نظر آرہا تھا میں نے اُنکو بتایا۔ اس سے قبل مجھے بتایا گیا کہ خاکروب نظر آئیگا اُس سے کہو کہ وہ جھاڑو لگائے ۔ اسکے بعد بہشتی نظر آیا جو کاندھے پر مشک ڈالے ہوئے تھا مجھے کہا گیا کہ بہشتی سے کہو کہ وہ پانی چھڑکے۔ بادشاہ کا دربار لگا ہوا نظر آئیگا۔ لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے۔ بادشاہ سے درخواست کرو کہ وہ ٹی ٹی چُرانے والے شخص کو دربار میں پیش ہونے کا بندوبست کریں۔ کچھ لمحوں کے بعد چوری کرنے والے شخص کو دربار میں پیش کیا گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ پہچان کرو یہ کون شخص ہے مجھے اُس شخص کو پہچاننے میں دُشواری محسوس ہورہی تھی۔ میں نہیں پہچان سکا کہ یہ کون شخص ہے۔ حاضرات کروانے والے شخص نے مجھسے کہا کہ کہو تختہ سیاہ منگوانے کا بندوبست کیا جائے۔ کچھ لمحوں کے بعد دربار میں تختہ سیاہ لگوادیا گیا۔ چور کا نام تختہ سیاہ پر لکھوانے کے لئے درخواست کی گئی۔ میں نے تختہ سیاہ پر لکھا ہوا نام پڑھ کر بتایا۔ حاضرات ختم کردی گئی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جو پانچ رکنی کمیٹی اسلحہ کی حفاظت پر معمور تھی اُسی کمیٹی کے ایک ممبر نے وہ ٹی ٹی چوری کی تھی۔ اُسے مہلت دی گئی کہ وہ ٹی ٹی دوبارہ اپنی جگہ پر رکھوا دے۔ اُسکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائیگی۔ ایسا سمجھا جائے گا کہ اُس شخص نے یہ کاروائی کی ہی نہیں۔ دو دن گزرنے کے بعد ٹوکری کے اسلحے کی گنتی کی گئی تو وہ گنتی میں پورا تھا۔

ایران کے شہر قم میں موجود شخص کی حاضرات
دُنیائے خطابت کے بے تاج بادشاہ کی قدم بوسی کے لئے اُنکی رہائش گا ہ پر حاضر ہوا۔ حاضرات کے سلسلے میں گفتگو ہونے لگی۔ فرمانے لگےکہ میں ایسے شخص سے واقف ہوں جسکی حاضرات بچوں پر ہی نہیں بڑوں پر بھی کُھلتی ہے۔ دنیائے حاضرات میں شادونادر ہی کوئی شخص ہوگا جسکی حاضرات بڑوں پر بھی کُھلتی ہو۔ حاضرات سے متعلق ایک مشاہدہ /عملی تجربہ بیاں کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ گورنمنٹ آف ایران کی دعوت خصوصی پر ایران تشریف لے گئے۔ معلوم ہوا کہ قم میں ایک شخص موجود ہے۔ جسکی حاضرات خود اُس پر اور بڑوں پر کُھلتی ہے۔ اُس شخص کی حاضرات کو آزمائشی طور پر آزمایا گیا۔ اُس شخص کی خدمت میں حاضر ہوئے پوچھا گیا کہ وہ حاضرات کے ذریعے ہمارے گھر کے اندر موجود اشخاص کے بارے میں ہمیں بتائے گا کہ وہ لوگ اس وقت کس حالت میں ہیں۔ اُس شخص نے جواب دیا کہ میں حاضرات کے ذریعے آپکے گھر کی اندرونی بناوٹ کمروں کی تعداد آپکے گھر کا اندرونی نقشہ بتاوں گا ۔ کیا آپکی اجازت مجھے حاصل ہوگی کہ میں آپکے گھر میں آپکی اجازت سے داخل ہو سکوں۔ قبلہ نے فرمایا کہ میری طرف سے آپکو اجازت ہے کہ آپ میرے گھر میں داخل ہو جائیں۔ وہ حاضرات اُس شخص نے اپنے اُوپر کُھلوائی۔ بیان کرنا شروع کیا لوہے کا سفیدرنگ گیٹ جو قدآدم کے قد کے برابر ہے وہ مجھے نظر آرہا ہے۔ گیٹ کے ساتھ ہی ایک جیپ اور ایک کار کھڑی ہوئی نظر آرہی ہے اس سے آگے ٹوائلٹ نظر آرہا ہے۔ جسکا دروازہ کُھلا ہوا ہے۔ اسکے ساتھ ہی گول زینہ اوپر لائبریری ہے۔ اسکے گزرنے کے بعد ایک کمرہ نظر آرہا ہے جس میں صوفے اور کمپیوٹر رکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ علامہ صاحب کا ڈرائنگ روم ہےجسکی نقشہ کشی کی گئی۔ ڈرائنگ روم کے دروازے کے عقب میں واٹر کولر لگا ہوا نظرآرہا ہے۔ اب مجھے اجازت درکار ہے اندر شاید اپکے اہل حانہ موجود ہیں کوئی خاتون نماز پڑھنے میں مصروف ہیں۔ علامہ صاحب نے فورا اپنے گھر پاکستان رابطہ کیا۔ کال اُنکے بیٹے نے اٹینڈ کی۔ علامہ صاحب نے فرمایا والدہ سے بات کراؤ بیٹے نے جواب دیا والدہ نماز پڑھ رہی ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جو دنیائے حاضرات میں اپنی حاضرات کی خصوصی خصوصیات کی وجہ سے ایک اعلی مقام پر فائز ہے۔ جسکی حاضرات ٹی وی کی اسکرین پر چلتی ہوئی فلم کے مانند ہے۔

لاڈلے حسن صاحب جس کو مرحوم کہتے ہوئے دل کانپتا ہے۔ میدان علم رمل میں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ علم رمل کا ٹھاٹیں مارتا سمندر۔ مرحوم نےانتقال سے کچھ دن قبل پوری عمر کی محنت بشکل تحریر علم رمل کی نوٹ بُک ڈائری میرے حوالے کرتے ہوئے فرمایا ساری عمر کا حاصل علم رمل سے متعلق ڈائری تمہارے سپرد کررہا ہوں اور تمہیں اسکا اہل پاتا ہوں۔ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیر رکھنا یہ ڈائری تمام عمر تمہارے کام آئے گی۔

ایک مُلاقات میں علامہ صاحب سے لاڈلے حسن صاحب کی قلمی ڈائری کا ذکر ہوا علامہ صاحب نے اس قلمی ڈائری کی فوٹو کاپی اپنی لائبریری کی زینت بنانے کے لئے مجھے حُکم صادر فرمایا۔ ڈائری کی فوٹو کاپی علامہ صاحب کو پیش کر دی گئی۔ ایران کے شہر قم سے ایک صاحب تشریف لائے جو علم رمل میں کافی دسترس رکھتے تھے۔ دوران گفتگو علامہ صاحب نے اُس ڈائری کے متعلق بتایاجو مجھے لاڈلے حسن صاحب نے ازراہ شفقت میرے سپرد کی تھی۔ مہمان نے بھی اُس ڈائری کی فوٹو کاپی مانگی ساتھ ہی علامہ صاحب کی سفارش بھی ۔ حسین اتفاق وہ ڈائری میں اپنی لائبریری میں رکھ کر بھول گیا بڑی کوششوں کے بعد بھی مجھے وہ ڈائری نہیں مل سکی۔ حاضرات کرنے والے صاحب میرے گھر تشریف لائے اور میرے بیٹے سے کہا کہ بیٹا تم ابو کی لائبریری میں جا چکے ہو میرے بیٹے نے جواب دیا ہاں حاضرات کرنے والے شخص نے میرے بچے کو کہا کہ اپنی آنکھیں بند کر لو جب میں کہوں اُس وقت آنکھیں کھولنا میرے بیٹے سے آنکھیں بند کرواکر پڑھائی کی۔ اب میرے بیٹے نے بتایا کہ مجھے کتابوں سے بھرا ہوا کمرہ ہے۔ اُسکو وہ کتاب چمکتی ہوئی نظر آئی۔ اسکی نشاندہی پر ہم اُوپر لائبریری میں گئے اور ہمیں وہ ڈائری مل گئی۔ 

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*