Ism-e-A’azam::.اسم اعظم

وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا

فہرست

اور اللہ ہی کے ہیں اچھے اچھے نام سو ان ناموں کے ساتھ اس کو پکارو

سورہ اعراف رکوع ۲۲

اللہ تعالیٰ کے اسماء بے شمار ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسم بہت مقدس و بزرگ اور بڑا بابرکت و منفعت والا ہے اور اس میں بہت سے فوائد و اثرات پنہاں ہیں مگر ان اسماء میں سے ایک اسم ایسا جلیل القدر اور پر عظمت ہے جو دوسرے اسماء سے ممتاز اور ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے اور وہ اسم اعظم کے نام سے مشہور ہے جو عظمت و بزرگی اور قدر و منزلت اس اسم کو حاصل ہے کسی دوسرے اسم کو نہیں ۔ اس اسم میں بے شمار فوائد و برکات مستور ہیں اس کے ذریعہ ہر مشکل و دشوار کام آسانی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے

اسم اعظم کیا ہے ؟

اللہ عز وجل کا سب سے بڑا ، سب سے بزرگ ، سب سے مبارک اور سب سے مقدس ایسا نام جو فیض کا ایک سمندر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور رحمت تامّہ سے ایسے عجیب و غریب اثرات رکھے ہیں کہ اسکا ورد کرنے والا کوئی بندہ فیض الٰہی سے محروم رہتا ہی نہیں ایسا پُر منفعت نام جو دونوں جہاں کی کامیابی کی کنجی ہے ۔ دین و دنیا کا کوئی بھی ایسا کام نہیں جو اسم اعظم کے ذریعہ سے انجام نہ پائے ایسا با برکت نام جو فوائد و برکات کا مخزن ہے جس کے ورد کرنے سے پریشان لوگوں کو اطمینان ، شکستہ دل لوگوں کو تسکین اور مایوس لوگوں کو تسلی نصیب ہوتی ہے ۔ ان کی پریشانیاں اور مصیبتیں دور ہوتی ہیں اور ان کے دامن گوہر ہائے مراد سے ہوجاتے ہیں ایسا کثیر الخیر نام جو بے حد مجرب بہت زود اثر اور نہایت مفید ہے ہر قسم کی دینی و دنیوی روحانی و جسمانی ظاہری و باطنی امور اور ہر مشکل و دشوار کام کے حل کے لئے اکسیر اعظم اور تریاق ہے ۔ نا ممکن بات اس کی بدولت ممکن ہوجاتی ہے اسم اعظم کو مخصوص اندازے سے پڑھنے اور مخصوص طریق پر عمل کرنے سے معجزانہ اثر پیدا ہوتا ہے دنیا بندہ کے قدموں میں آجاتی ہے ہر کام میں کامیابی ہر بات میں سرخروئی اور ہر میدان میں فتح یابی نصیب ہوتی ہے ۔
ہم اس سلسلہ میں سالہا سال کی شبانہ روز جدو جہد کے بعد اس تحریر کو قسط وار صورت میں قلمبند کر رہے ہیں انشاء اللہ یہ سلسلہ بیش بہا گنجینہ اور بے بہا خزینہ ثابت ہوگا۔ خیال رہے کہ کہ اسم اعظم قبولیت دعا کیلئے بے شک اکسیر اعظم کا درجہ رکھتا ہے مگر قبولیت دعا کے لئے چند آداب و شرائط بھی ہیں جب تک وہ آداب و شرائط پورے نہ ہونگے دعا کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ ان قوانین کو بھی وقتاََ فوقتاََ موقع کی مناسبت سے پیش کیا جا تا رہے گا۔

اسم اعظم

اللہ تعالیٰ کا وہ نام جو تمام ناموں میں سب سے بڑا ہے ۔ کہ جب اس کے ساتھ کوئی دعا مانگی جاتی ہے تو وہ قبول ہوجاتی ہے اور جب اس کے ذریعہ سے کوئی سوال کیاجاتا ہے تو بارگاہ الہی میں رد نہیں کیا جاتا۔ جب اس کے واسطہ سے کوئی چیز مانگی جاتی ہے تو عطا کی جاتی ہے ۔ یہ ایسا مبارک نام ہے کہ اس کے طفیل انسان کو منہ مانگی مراد یقینی طور سے مل جاتی ہے ۔ اگر غور کریں تو اسم اعظم عربی زبان کے دو کلموں سے مرکب ہے دراصل عربی زبان میں اسم نام کو کہتےہیں اور اعظم کے معنی ہے بہت بڑا یا سب سے بڑا۔ تو اسم اعظم کے معنی ہوئے بہت بڑا نام

اسم اعظم کی فضیلت اور بزرگی ، عظمت و بڑائی قدر و منزلت اور شرافت و کرامت بہت ہی زیادہ ہیں انسانی قلم میں یہ طاقت ہی نہیں کہ اس فضیلت کو تحریر کر سکے تاہم انسانی بساط کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام اسماء پر فوقیت و برتری حاصل ہے اس کے پڑھنے و ورد کرنے کا بے حد و بے حساب اجر و ثواب ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے کوئی دوسرا اسم اس کے برابر نہیں ۔
جہاں تک خواص اسم اعظم کا تعلق ہے تو بزرگان دین کے مطابق اس کے فوائد و برکات اور اس کے نتائج و ثمرات بے انہتا اور ان گنت ہیں اس کے متعلق روایات حدیث میں بکثرت وارد ہوا ہے کہ آدمی جو دعا اس کے بعد مانگے وہ ضرور قبول ہوتی ہے جو سوال کرے وہ حتمی طور سے منظور ہوتا ہے جو چیز مانگی جائے وہ ضرور مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے طفیل دلی مرادیں اور تمنائیں قلبی  حسرتیں اور آرزوئیں پوری کردیتا ہے ۔
اسم اعظم کا معلوم کرنا اور دعا کے وقت اسم اعظم پڑھ کر دعا مانگنا قبولیت دعا کا ایک بہترین وسیلہ و ذریعہ ہے اس مبارک و مقدس اسم کے طفیل غیر محال اور نا ممکن بات ، خلاف عادت و طبیعت کام اور خلاف عقل امور آسان اور ممکن ہوجاتے ہیں

اسم اعظم کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے اور اس میں پانچ اقوال آئے ہیں
اول : امام ابو جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ ، ابو الحسن اشعری رحمتہ اللہ علیہ ، اور قاضی ابوبکر باقلانی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ جیسے علماء کہتے ہیں کہ
"اسمائے الہی سب کے سب اسم اعظم ہیں ایک دو دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے "۔

چنانچہ انہوں نے جہاں اسم اعظم کا ذکر کیا ہے اس کو اس پر محمول کیا ہے کہ اعظم بمعنی عظیم کے ہے یعنی بڑا۔

دوم: امام ابن حبان کا قول ہے کہ اخبار میں جہاں اعظمّیت کا لفظ وارد ہوا ہے اس کے ذریعہ سے دعا مانگنے والے کیلئے ثواب مراد ہے "۔

یعنی اس کی ذات میں بڑی زیادتی نہیں ۔ بلکہ یہ ایک امر خارج کے اعتبار سے ہے اوراس میں کوئی بحث نہیں

سوم : بعض علماء کہتے ہیں کہ اسمائے حسنی میں سے کوئی اسم مخفی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے علم میں پوشیدہ رکھا ہے اور مخلوق میں سے کسی کو اس پر مطلع نہیں فرمایا جیسے راتوں میں شب قدر۔ اور ساعات میں ساعت جمعہ (یعنی جمعہ کے دن میں دعا قبول ہونے کا خاص وقت ) اور نمازوں میں صلوۃ وسطیٰ وغیرہ کو پوشیدہ و مستور فرمایا ہے

چہارم :حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ بندہ جب دعا میں ایسا مستغرق ہوجائے کہ غیر اللہ کا خیال اس وقت نہ ہو تو کسی اسم سے دعا کرے قبول ہوگی وہی اسم اعظم ہے "۔

پنجم : اور اکثر علمائے کرام و صوفیائے عظام اسم اعظم کے اسم معین ہونے کے قائل ہیں پھر وہ بھی باہم مختلف رائے پیش کرتے ہیں ۔ چونکہ اس کے تعین میں مختلف روایتیں آئی ہیں اس لئے علمائے مفسرین و محدثین اور فقہائے کرام اور والیائے عظام نے اسم اعظم کی تحقیق میں بے حد کوشش کر کے بہت سی روایتیں بیان کی ہیں اور اختلاف کی وجہ یہ ہوئی کہ جس کو جس اسم سے نفع ہوا اسی کو اسم اعظم سمجھ لیا۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے اسم اعظم کی تحقیق میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں وہ تمام اقوال ایک جامع دعا میں بیان کئے گئے ہیں جو تمام بزرگوں سے منقول ہیں۔

امام ابن حبّان اور امام حاکم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک بار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا

اللھم انی اسألک باسمک الطاھر الطیب المبارک الاحب الیک الذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرتے ہوئے سنا ، آپ (ص) نے فرمایا کہ عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ اسم بتایا جسکے ذریعہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے میں نے عرض کیا یا حضرت میں بھی یہ دعا پڑھا کروں آپ (ص) نے فرمایا یہ اسم اعظم عورتوں کے لائق نہیں ۔

یعنی عورتیں کم عقل اور بے صبر ہوتی ہیں ۔ وہ اسم اعظم کا ادب نہ کر سکیں گی اور ان کو بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہوگا۔ کیونکہ اسم اعظم کے لئے بڑے تحمل و بردباری اور صبر و ضبط کی ضرورت ہے

حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں سورہ بقرہ کے فضائل میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعب احبار(رح)نے فرمایا خدا کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ان (دونوں سورتوں ) میں خدا تعالیٰ کا وہ نام ہے کہ جب اس نام کے ساتھ اسے پکارا جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اب وہ شخص (یہ سن کر ) حضرت کعب (رض) سے عرض کرنے لگا کہ حضرت ! مجھے بتلائیے وہ نام کونسا ہے حضرت کعب (رح) نے بتلانے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ
"اگر میں وہ نام بتادوں تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کے ذریعہ سے کوئی ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے "۔

اس ماہ ہم نے اسم اعظم کی مختصر سی تشریح آپ خدمت میں پیش کر دی ہے ۔أئندہ ماہ سے اسم اعظم کے متعلق روایاتِ حدیث اور بزرگان دین کے اقوال پیش کئے جائیں گے اور مفصل و جامع تحریر پیش کی جاتی رہی گی جو چند اقساط پر مشتمل ہوگی ۔ شائقین اسم اعظم کے لئے یہ تحفہ اسم اعظم ہوگا۔ انشاء اللہ

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*