حضرت سید عبداللہ شاہ غازی(رح)۔

حضرت سید عبداللہ شاہ غازی(رح)جن کا مزار پُر انوار کلفٹن کراچی میں واقع ہے زیارت گاہ ہر خاص و عام ہے ۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ ابتداء زمانہ کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی روایتیں مشہور ہوتی رہتی ہیں اس لئے بالاختصار وہ ممکنہ صحیح تاریخی حالات پیش کئے جاتے ہیں جو بمشکل تمام مل سکے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ زیادہ تفصیل پیش کی جاتی مگر امتداد زمانہ کے تہہ بہ تہہ پردوں نے ہماری آنکھوں سے بہت کچھ چھپا رکھا ہے ۔
حضرت کا اسم مبارک مع نسب نامہ یہ ہے "ابو محمد عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن حسن المتمنی بن حسن السبط بن علی بن ابی طالب علیہ السلام "۔ ۱۳۸ھجری میں جب ان کے والد بزرگوار محمد بن عبداللہ نے عباسی خلفا کے خلاف خروج کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کو بصرہ بھیجا اور خود مدینہ منورہ میں رہ کر خلافت کی دعوت مختلف قبائل کو معتمد حلیہ رفقاء کے ذریعہ روانہ کی۔ اپنے فرزند حضرت عبداللہ بن محمد کو جو اپنےبوجھل پپوٹوں کی وجہ سے الاشتر(الٹے پلک والا)کہلاتے ہیں خفیہ طور پر سندھ جانے کی ہدایت کی ۔
عبداللہ ایک دیندار بہادر صاحب الرائے جوان تھے ۔ عمر چالیس سال کے قریب تھی ۔ انہوں نے کوفہ سے اعلیٰ قسم کے کچھ گھوڑے خریدے اور دس بارہ قابل اعتماد رفقاء کے ساتھ بذریعہ سفر کرکے سندھ پہنچے اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ گھوڑوں کے تاجر ہیں ۔ اس زمانہ میں عباسیانِ بغداد کی طرف عمر بن حصص سندھ کا والی تھا اور درپردہ سادات علویہ کا طرفدار تھا ۔ دو چار مہینوں کے بعد یہ راز عبداللہ کے ایک ساتھی نے عمر بن حصص کو بتایا کہ گھوڑوں کی تجارت تو یہاں آنے اور آپ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ تھا درحقیقت مقصد تو دعوت ہے ۔ عمر بن حصص نے اس دعوت کو قبول کرلیا اور آہستہ آہستہ زمین ہموار کرنے لگا یہاں تک کہ دو تین سال کی مساعی سے کامیابی کے آثار ظاہر ہوئے اور ایک تاریخی جمعرات کا دن اسی کام کے لئے مقرر کر دیا گیا کہ اس دن حضرت عبداللہ ایک خطبہ دیں اور محمد بن عبداللہ کے لئے بیعت خلافت عام کی جائے ۔
ابھی وہ تاریخ نہیں آئی تھی کہ بغداد سے اطلاع آئی ، محمد بن عبداللہ مدینہ میں اور ابراہیم بن عبداللہ نے بصرہ میں خلافت عباسی کے خلاف خروج کیا اور مختلف خونی معرکوں کے بعد دونوں قتل کردئیے گئے بہت سے لوگ طرفداران سادات میدان میں کام آگئے ۔
اس اطلاع کے بعد عمر بن حصص نے عبداللہ بن محمد کو مع چار سو رفقاء کے ایک ساحلی ریات میں بھیج دیا ۔ راجہ نے ان کی تعظیم وتکریم کی اور آرام سے اپنا مہمان کیا ۔ یہ وہاں رہ کر تبلیغ دین اسلامی اور اپنی دعوت کا کام کرتے رہے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*