اردو کہانی – طلسم خانہ فرحانہ

اردو کہانی ۔ طلسم خانہ فرحانہ

ایک ایسی لڑکی کی کہانی جسکی باطنی نگاہ عشق کے سبب روشن ہوئی۔

ہمارے بیشتر قارئین نے بے شمار اردو کہانیاں پڑھی ہوں گی گو کہ موجودہ زمانے میں عوام کا رجحان کتابوں کی جانب بالکل ختم ہوچکا ہے ایک وہ وقت تھا جب لوگ لائبریری پر مختلف اردو ناول کا انتظار کیا کرتے تھے گھنٹوں بیٹھ کر ان ناول کو پڑھنا اور اُس طلسمی دنیا میں کھو جانا ، کہانی کی تحریر کے ساتھ ساتھ اپنے تصور کے گھوڑے کو دہرانا اب بھی یقیناً بیشمار لوگوں کی حسین یادیں اُن ماضی کے لمحوں سے وابستہ ہوں گی ۔ بے شمار لوگوں نے ٹیلی پیتھی کی مشقیں صرف اس وجہ سے شروع کردی تھیں کہ اس دور میں ” سسپنس ڈائجسٹ ” کا مقبول ترین سلسلہ ” دیوتا ” لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا بچوں کے لئے اُس دور میں انسپیکٹر جمشید سیریز ، عمرو عیار کی کہانیاں ، بچوں کی دنیا اور کافی دیگر  مواد تحریر کیا گیا ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ ” بچے ، جوان، مرد و خواتین سب ہی شوق سے پڑھتے ۔ اردو ناول یا اردو کہانی لکھنا کسی اردو ادیب کا ہی کام ہے کہ وہ اپنے تخیل کے گھوڑے پر پرواز کرکے دکھائی دی جانے والی چیزوں کا بغور مشاہدہ کرکے ، لفظوں کی خوبصورت مالا پرو کر الفاظوں کے وہ خطوط کھینچتا ہے کہ پڑھنے والا روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرتے ہوئے مصنف کی قائم کردہ بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے اور وہاں سے واپس آنے کا دل نہیں چاہتا ۔ طلسم خانہ فرحانہ ایک ایسی اردو کہانی ہے جسے کہانی کہنا مناسب نہ ہوگا ۔ طلسم خانہِ فرحانہ وہ حقیقی واقعات ہیں جو فرحانہ کی زندگی میں درپیش آئے ان واقعات کو اردو کہانی کی صورت میں ” بنت حلیمہ ” نے ترتیب دیا ہے ۔ کہانی کے اصل کرداروں کے نام تبدیل کرکے فرضی نام استعمال کئے گئے ہیں ۔ یہ کہانی ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس کا نام ” فرحانہ ” ہے ۔ فرحانہ ، فرحان کی ، تانیث ہے ۔ جس کے معنی خوشی ، شاداں ، سرور ، مطمئن اور آسودہ کے ہیں ۔ لیکن فرحانہ کی زندگی اپنے نام کے بالکل برعکس رہی ۔ اس کہانی میں محبت ، امیری ، غریبی ، سحر ، جادو ، تعویذ ، ٹونے ، ٹوٹکے ، عاملین ، شعبدے بازیاں ، توہم پرستی ، سسپنس اور بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا ۔ 

ہائے یہ بے بسی 

گرمیوں کا موسم تیز  کڑکتی دھوپ فرحانہ  پسینے سے شرابورتھکن سے نڈھال  اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور سیڑھیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اللہ اللہ کر کے چھٹی منزل پر پہنچی اوراپنے گھر کے دروازے پر دستک دی فرحانہ کی چھوٹی بہن عریشہ نے دروازہ کھولا جو اپنے سر پر دوپٹہ باندھے ہوئے کسی بیمار سر درد کی مریضہ سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ فرحانہ تھکن سے نڈھال اس کمرے میں چلی گئی جو کے اسکی آرام گاہ بھی تھا اورساتھ ہی مہمانو ں کے لئے بطور ڈرائنگ روم  بھی استعمال ہوتا ۔فرحانہ کا گھر دو کمروں پر مشتمل  کراچی کی ایک عمارت کے  چھٹی منزل پرواقع  تھا اس گھر میں اب چار افراد رہتے تھے فرحانہ اُسکی بہن عریشہ ایک بڑا بھائی کمال جو کہ غالباً اب نارمل لوگوں میں شمار نہیں ہوتا تھا اور انکی والدہ فریدہ جبکہ  فرحانہ کا ایک بھائی اب اس دنیا میں نہیں تھا کینسر کا مرض لاحق ہونے کی وجہ سے اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکا تھا ۔ فرحانہ گھر کا گزارا چلانے کے لئے ایک نجی اسکول میں بطو ر ٹیچر ملازمت کرتی اور شام کے اوقات میں اپنے گھر پر چند بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی ۔ فرحانہ کی چھوٹی بہن عریشہ بچپن سے ہی پڑھائی کے معاملہ میں کُند مغز ثابت ہوئی اور پھر گھر کے مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اُسے زبردستی اسکول بھیجنے کی بجائے گھر ہی بٹھا لیا گیا گھر بیٹھ کر عریشہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھ لیا اور اس کام میں اتنی مہارت حاصل کر لی کے اب وہ آرڈر پر خواتین اور بچوں کے کپڑے سیتی اور اتنے پیسے کما لیتی کہ ذاتی اخراجات پورے ہو جاتے لیکن گھر کا سارا بوجھ فرحانہ کے کاندھوں پر تھا جو کے فرحانہ کڑی محنت کے بعد بڑی مشکل سے پورا کرپاتی۔ ان کے والد محترم عرصہ قبل ہی انتقال فرما گئے تھے کچھ جائیداد ان مرحوم کے نام تو ضرور تھی مگربد قسمتی سے انکے ورثا کو مل نہ سکی اور والد مرحوم کے دیگر رشتے داروں نے ہتھیالی۔

اندیا والے عامل صاحب کا کراماتی لڈُۤو 

فرحانہ کی ایک اور بہن جو کے بھائی بہنوں کی گنتی میں سب سے بڑی تھی پانچ سال کی عمر سے ہی اپنی پھوپھی جان کو سونپ دی گئی کیونکہ پھوپھی جان بے اولاد تھیں اس لئے پھوپھی جان نے فرحانہ کی بڑی بہن کو گود لے لیا اور اب وہ شادی شدہ دو بچوں کی ما ں تھی کیونکہ اس بہن کی پرورش پھوپھی جان کے پاس  بہت ہی زیادہ لاڈ پیار میں ہوئی اس لئے اس کا ماحول رہن سہن مختلف تھا ۔ مگر کچھ چیزیں جیسے وہم ، توہم پرستی وغیرہ بطور خاندانی وراثت کے طور پر اسے بھی ملی جسکا اندازہ بر وقت نہ ہو پایا ۔ اب ذرا فرحانہ کے بھائی کے بارے میں جانتے ہیں جو کہ کئی سالوں سے نارمل لوگوں میں شمار نہیں ہوتا۔ پیشہ کے اعتبار سے تو یہ ایک کامیاب الیکٹریشن اور ٹیکنیشن تھا عرصہ قبل جب ایڈوانس چیزوں کا دور نہ تھا فرحانہ کا بھائی کمال اپنے اندر کمال رکھتا تھا عجیب و غریب  ٹیکنیکل چیزیں ایجاد و اختراع کرنا اس کا پنسدیدہ مشغلہ تھا اپنے شعبہ کے حوالہ سے پورے شہر میں مانا جاتا تھا الیکٹریشن کا پیشہ ہونے کے باعث رات دیر تک  مختلف عمارتوں کی چھتوں پر کام کرتا رہتا تھا  کمائی بھی ٹھیک ٹھاک ہو جاتی اور گھر کا گزربسر بھی اچھے سے ہو جاتا کہ اچانک طبیعت خراب رہنے لگی کام کم ہونے لگا عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے بقول کمال کے کچھ ایسے لوگ اُسے نظر آنے لگے جو کہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ گھر والوں کو لگا دیر رات تک مختلف عمارتوں کی چھتوں پر کام کرنے کی وجہ سے کوئی سایہ لگ گیا ہے چونکہ اُس وقت فرحانہ کا دوسرا بھائی حیات تھا اپنے بڑے بھائی کو لےکر مختلف قسم کی درگاہوں عاملوں کے پاس جاتا ہر عامل کا اپنا الگ تجزیہ ہوتا کوئی کہتا کسی چڑیل کی پکڑ میں ہے تو کوئی کہتا کہ ایک پری عاشق ہو گئی ہے کوئی کہتا  بہت بھاری جادو کا اثر ہے تو کوئی کہتا کہ کسی نے دشمنی میں بندش کروادی ہے پھر سب اپنے اپنے فن کے نمونے پیش کرتے اور اپنی مہارت کا یقین دلاتے یوں تو کمال کو بہت سے عاملوں کے پاس  لے جایا گیامگر ایک عامل جس کے بارے میں کمال کے بھائی کو کسی نے بتایا تھا کہ یہ بہت پہنچے ہوئے عامل ہیں کمال کو انکے پاس لے جاؤ یہ ضرور کمال کو ٹھیک کردیں گے وہ عامل صاحب اصل میں بھارت سے تعلق رکھتے تھے اور سال میں دو سے تین بار پاکستان آتے انکا آستانہ کراچی کے ہی کسی علاقہ میں تھا اور عامل صاحب ” انڈیا والے عامل ” کے نام سے مشہور تھے انکی مشہوری کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سب کے سامنے اپنی خالی بند ہتھیلی جب کھولتے تو اندر سے لڈو نکلتا اور پھر یہی لڈو وہ آئے ہوئے سائل کو کھانے کے لئے یہ کہہ کر دے دیتے کہ اسے کھالو، ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی گویا جیسے وہ کوئی عام حلوائی کی دکان سے خریدا گیا لڈو نہ ہو بلکہ ایک خاص جادوئی قسم کا لڈو معلوم ہوتا۔ جب کمال کو انکے پاس لے جایا گیا تو اس لڈو کی سنی سنائی بات کو خود اپنی آنکھوں سے کسی کرامت  کے طور پر دیکھ کر پختہ یقین آگیا کہ جو کچھ ان عامل صاحب کے بارے میں سنا تھا بالکل صحیح سنا تھا کمال کے ساتھ بھی عامل صاحب نے ایسا ہی کیا اپنا خالی ہاتھ سب کو دکھایا پھر ہتھیلی بند کی اور زور سے اوپر کی طرف لے گئے اور پھر ہاتھ کو نیچے لاتے ہوئے ہتھیلی کھول دی جوں ہی ہتھیلی کھولی ہتھیلی پر زرد رنگ کا تازہ لڈو نظر آیا۔ عامل صاحب نے یہ لڈو کمال کو کھانے کے لئے دے دیا  اور کمال کے بھائی سے کہا کہ فکر نہ کرے اور سمجھ لے کہ یہ بالکل ٹھیک ہوگیا ہے اور ساتھ ہی روزانہ پینے کے لئے دم کیا پانی جلانے کے لئے کچھ اگربتیاں بھی دیں اور کچھ صدقات و خیرات کرنے کو کہا نذرانہ کے طور پر کچھ رقم بھی طلب کی گئی۔ انڈیا والے عامل صاحب نے جو جو کہا تھا سب کچھ ویسا ہی کیا گیا مگر کمال کی حالت میں کوئی بہتری نہ آئی جب پندرہ دن بعد کمال کو واپس ان عامل صاحب کے پاس لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ عامل صاحب تو کچھ روز قبل ہی انڈیا واپس جا چکے ہیں انڈیا والے عامل صاحب تو ملے نہیں لہذا دوسرے عامل کی تلاش شروع کردی  اگر مختصر کہا جائے تو سب  الگ الگ حل بتاتے اوراپنی دُکان چمکانے میں لگے تھے لیکن کمال کی حالت میں فرق نہیں آرہا تھا۔

یہ ان دیکھی مخلوقات

وقت گزرتا گیا اور حالت صحیح ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتی چلی گئی بقول کمال کے اب کمال کو باقائدہ طور پر ان دیکھی مخلوقات نظر آتی گویا کمال کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے تین یا چار عورتیں اب ہر وقت کمال کے ساتھ رہتی ہیں جو کہ کمال کے علاوہ اور کسی کو نظر نہیں آتیں۔ کما ل انکے نام بھی بتاتا کبھی کسی کا نام فردوسہ بتاتا تو کبھی کسی کا نام شبانہ بتاتا جب کمال کو کھانے پینے کے لئے کوئی چیز دی جاتی تو کمال کہتا تمہیں نظر نہیں آرہا فردوسہ بھی ساتھ بیٹھی ہے میرے، اسے بھی کھانا دو اسے بھی پانی و مشروبات پلاؤ۔ وہ ان دیکھی مخلوق کمال کی جیتی جاگتی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اور جس طرح سے کمال کامل یقین کے ساتھ ان سے بات کرتا انکا ذکر کسی سے بھی کرتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے حقیقت میں کمال کے ساتھ کوئی اور بھی موجود ہے مگر سوائے کمال کےاور کوئی نہیں دیکھ پارہا ہے اور پھر ہوتا وہی ہے جو کہ اللہ کو منظور ہوتا ہے اپنے بڑے بھائی کا علاج کرواتے کرواتے چھوٹے بھائی کی طبیعت خراب ہونے لگی درد شکم کی تکلیف نے شدت اختیار کی اور کچھ دن بعد ہی ڈاکٹروں نے مرض کی تشخیص کر لی اور بتایا کے کینسر کا آخری اسٹیج ہے بس دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی دنوں میں فرحانہ کا چھوٹا بھائی انتقال کر گیا ۔ اب تو جیسے مشکلات نے فرحانہ کا گھر ہی دیکھ لیا تھا فرحانہ کے سر سارے گھر کی ذمداری کے ساتھ ساتھ کمال جو کے پوری طرح پاگل ہوچکا تھا اُسکی بھی ذمہ داری آگئی ۔ کچھ قریبی رشتہ داروں نے کمال کو پاگل خانے منتقل کروانے کا مشورہ دیا مگر اُس پر عمل نہ ہو سکا ۔ فرحانہ نے تین بار اپنے رشتے داروں کی مدد سے یہ کوشش کی کہ کسی طرح کمال کو پاگل خانہ بھیج دیا جائے مگر کمال جانے کو راضی نہ ہوتا اور بلآخر فرحانہ عورت ذات تھی کس قدر کوشش کرتی ؟۔ اس لئے کمال کو گھر ہی میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسکے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

اسی دوران عریشہ جو کہ فرحانہ کی چھوٹی بہن تھی اُسکا  ایک اچھی فیملی سے رشتہ آیا  گھر بیٹھے بیٹھے وقت گزر جانے کی وجہ سے سر کے بالوں میں چاندنی تو آنے ہی لگی تھی اس لئے اس بار زیادہ وہم میں نہ پڑتے ہوئے رشتہ طے پا گیا  منگنی کی رسومات ادا کردی گئی اور شادی کے لئے لڑکے والوں سے کچھ مہلت مانگ لی گئی ۔ پہلے ہی فرحانہ پر ذمہ داری کم تھی جو اب عریشہ کی شادی کے اخراجات کی فکر بھی آن پڑی۔اب ذرا فرحانہ کی بڑی بہن  حلیمہ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں ویسے تو حلیمہ اپنے شوہر اور دو پیارے پیارے بچوں  کے ہمراہ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہی تھی اور گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ بیوٹیشن بھی تھی  شوہر بھی نجی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا حلیمہ فطرت کے اعتبار سے بہت حساس و ملنسار طبع کی مالک تھی اور جس حد تک ممکن ہوتا اپنی بہن فرحانہ اور والدہ کی مالی اعتبار سے بھی مدد کردیتی۔ کبھی اپنے شوہر کو بتا کر، تو کبھی اُس سے چُھپ کر۔ ویسے تو سب بظاہر ٹھیک ہی چل رہا تھا مگر جیسا کے اوپر بیا ن کیا گیا کہ کچھ چیزیں حلیمہ کو ورثہ میں ملی جس میں وہم توہم پرستی وغیرہ شامل تھے ۔ حلیمہ کے پڑوس میں ایک عمر رسیدہ عورت آکر رہائش پذیر ہوئی لگ بھگ کچھ ساٹھ سال کی ہوگی  کیونکہ حلیمہ کی طبع میں فیاضی و ہمدردی بدرجہ اتم موجود تھی لہٰذا اُس عورت کو اکیلا دیکھ کر اُسکے تین وقت کے کھانے پینے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور تعلقات بڑھنے لگے ویسے تو اُس عورت کا نام رفیق النساء تھا لیکن "رفیقہ بائی” کے نام سے مشہور تھیں۔ اُسکے اکیلے رہنے کی وجہ اُسکا غیر شادی شدہ ہونا تھا اور شادی نہ کرنے کی وجہ بقول اُسکی اپنی زبانی اُسکے اوپر بڑی بڑی ہستیوں کا ہاتھ ہونا، اُن ہستیوں کی حاضریاں آنا،  جیسے مختلف بزرگان دین و اولیاء اکرام۔  فیملی اپنی کوئی نہ تھی مگر گھر میں ہر وقت لوگوں کا آنا جانا  لگارہتا ہر کوئی اپنا مسئلہ لے کر آتا پھر سب سے پہلے رفیقہ بائی آنے والے کو ایک عدد دودھ کا پیالہ پلاتی آنکھیں بند کرنے کو کہتی اور پھر چند گھڑسواروں کے نظر آنے کا پوچھتی سامنے والا ہاں میں سر ہلاتا اور رفیقہ بائی اُسے اپنے مُرید بن جانے کی نوید سناتی۔ اب یہ مُرید جو کہ پہلے ہی رفیقہ بائی کا معتقد بن چکا ہے، جیسا رفیقہ بائی کرنے کو کہتی یہ کرتا چلا جاتا پھر چاہے بکروں کا چڑھاوا ہو یا تمام گھر کا سامان لاکر رفیقہ بائی کی خدمت میں پیش کرنا ہو کیونکہ رفیقہ بائی کا کہنا ہوتا کے مشکلا ت کی وجہ کسی کی جانب سے کروایا گیا کوئی سحر یا جادو ہے تو ایسی صورت میں اُس دوران میں جتنے بھی تحفے تحائف گھر آئے ہیں وہ سب لے کر آؤ  اُن پر جادو کا اثر ہے اور یہ ماہر عملیات عورت جسے نجانے کتنی بڑی بڑی پاک ہستیوں نے اپنے بیٹی بنایا ہے اُن سب سحر و جادو کے زیر اثر چیزوں کا توڑ کر دے گے حاجت مند سارا سامان لے آتا اور رفیقہ بائی اُسے ایک کمرے میں رکھ دیتی جو کہ آستانہ کہلاتا تھا ۔ رات گئے وہ اپنے موکلوں کی مدد سے اُن سامان پر کئے گئے جادو کا توڑ کرتی اور بقول رفیقہ بائی کے جادو ختم ہوچکا ہوتا ۔ رہا تعلق سامان کا تو وہ رجعت السحر کے دوران سحر کروانے والے کی طرف موکلات ٹکڑے کرکے لے جاتے اور اس کے گھر / آفس کے مختلف مقامات پر دفن کردیتے تاکہ وہ شخص بھی اسی تکلیف میں مبتلا ہوجائے جس نیت سے اس نے جادو کروایا تھا ، سامان کے متعلق یہی کہنا ہوتا تھا رفیقہ بائی کا۔ کوئی بیمار شخص جب آجائے تو سب سے پہلے اُسے پانی پر دم کر کے دیتی اور جب مریض پانی پینے لگتا تو تیز خوشبو پانی کے گلاس میں محسوس ہوتی ایک تری سی پانی پر نظر آتی جیسا کہ عطر ملا دیا گیا ہو پانی میں مگر رفیقہ بائی کے ہاتھ میں نہ تو اُس وقت کوئی عطر کی شیشی نظر آتی نہ ہی یہ خیال کیا جا سکتا کہ پانی کے گلاس میں پہلے سے کچھ موجود تھا کیوں کہ رفیقہ بائی جس بھی گلاس پر دم کردیتی لازماً اس گلاس میں عطر کی تری تیرتے ہوئے نظر آتی رفیقہ بائی کا پانی کے گلاس پر دم کرنے کا یہ طریقہ ان کی وجہ شہرت کا باعث بھی تھا چاہے گلاس ہو یا پانی کی بوتل بس کچھ پڑھائی اور ایک پھونک پانی کو خوشبودار بنادیتے ۔ 

” طلسم خانہ فرحانہ ” میں مزید رفیقہ بائی کی کرامات ، پراسرار واقعات اور فرحانہ کی خاموش محبت جاننے کے لئے ہم سے جڑے رہیں ۔ 

 

جاری ہے ۔۔۔

 

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*