روحانی بزرگوں کے واقعات و حکایات – دوسری قسط

روحانی بزرگوں کے ان کہے واقعات و حکایات کے پہلے انتخاب میں ہم نے آپ کو چند حیرت انگیز واقعات سے روشناس کرایا تھا۔ آج کی اس بزم میں، ہم ایک بار پھر آپ کی خدمت میں نئے واقعات کے ساتھ حاضر ہیں، جو کہ روحانیت کے عظیم بزرگوں کی زندگیوں سے منتخب کئے گئے ہیں۔ اس دوسرے انتخاب میں، ہم افلاطون کی قوتِ خیال و قوت تصرف کے حیرت انگیز واقعہ کے ساتھ ساتھ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رح کی مجلس میں ایک روح کی آمد کے بیان کو پیش کریں گے۔ ان واقعات کا انتخاب ہمارے معزز دوست جناب جناب سید اظہر عنایت علی شاہ صاحب نے کیا ہے۔ اُمید ہے کہ روحانی علوم کے شائقین ان کے پہلے انتخاب کی طرح اس دوسرے انتخاب کو بھی دلچسپی و شوق سے پڑھیں گے اور سراہیں گے۔

آئیے، ہم ایک بار پھر روحانی بزرگوں کی دنیا کے ان کہے واقعات و حکایات کے سفر پر نکلتے ہیں، جہاں حکمت و دانائی کے موتی بکھرے پڑے ہیں۔

افلاطون کی قوّتِ خیال و قوّتِ تصرّف کا عجیب واقعہ

ایک بار بادشاہ وقت افلاطون کے پاس آیا اور امتحان کے بعد اس نے بادشاہ کو اپنے پاس آنے کی اجازت

دے دی ۔جب رخصت ہونے لگا تو افلاطون نے کہا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں ۔

بادشاہ نے دل میں کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دنوں تک تنہائ میں رہتے رہتے خبط ہو گیا ہے ۔یہ جنون ہی تو ہے کہ آپ ایسی ٹوٹی پھوٹی حالت اور بادشاہ کی دعوت کرنے کا حوصلہ ؟ اور بادشاہ بھی اس خیال میں معذور تھا ۔

افلاطون نے چاہا تھا کہ بادشاہ کو ایک خاص نفع پہنچاؤں اور دنیا کی حقیقت و بے ثباتی دکھلاؤں ، جس پر اس کو بڑا ناز ہے اس لئے افلاطون نے کہا تھا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چہاتا ہوں ۔

یہ سن کر بادشاہ نے دل میں تو یہی کہا کہ واقعی اس کے دماغ میں خلل معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے پاس ضروری سامان تک نہیں یہ مجھے کھلائے گا کیا ، لیکن زبان سے یہ بات تو ادب کی وجہ سے نہ کہہ سکا اور یہ عذر کیا کہ آپ کو خواہ مخواہ تکیلف ہو گی ۔ افلاطون نے کہا کہ نہیں مجھے تکلیف نہیں ہو گی ۔ میرا جی چاہتا ہے جب اصرار دیکھا تو بادشاہ نے دعوت منظور کر لی اور کہا کہ اچھا آجاؤں گا اور ایک آدھ ہمراہی میرے ساتھ ہو گا ۔ افلاطون نے کہا کہ نہیں ، لشکر ، فوج ، امراء سب کی دعوت ہے ۔ غرض ایک ساتھ دس ہزار کی دعوت کر دی ۔ اور لشکر بھی معمولی نہیں ، خاص شاہی لشکر ۔ بادشاہ نے کہا خیر خبط تو ہے ہی یہ بھی سہی ۔

غرض متعین تاریخ پر بادشاہ مع لشکر اور تمام امراء و وزراء ، افلاطون کے پاس جانے کے لئے شہر سے باہر نکلا تو کئ میل پہلے سے دیکھا کہ چاروں طرف استقبال کا سامان نہایت شان و شوکت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ ہر شخص کے لئے اس کے درجہ کے موافق الگ الگ کمرہ موجود ہے اور دو طرفہ باغ لگے ہوئے ہیں ۔ رات کا وقت تھا ۔ ہزاروں قندیل ، جگہ جگہ ناچ رنگ ، نہریں ، یہ اور وہ ( طرح طرح کے ساز و سامان ) ایک عجیب منظر پیش نظر تھا ۔

اب بادشاہ نہایت حیران کہ یا اللہ یہاں تو کبھی ایسا تھا نہیں ۔ غرض ہر شخص کو مختلف کمروں میں اتارا گیا اور ہر جگہ نہایت اعلیٰ درجہ کا سامان فرش فروش ، جھاڑ فانوس ، افلاطون نے خود آکر مدارات کی اور بادشاہ کا نہایت شکریہ ادا کیا ۔ ایک بہت بڑا مکان تھا اس میں سب کو جمع کرکے

کھانا کھلایا گیا ۔ کھانے ایسے لذیذ کہ عمر بھر کبھی نصیب نہ ہوئے تھے ۔ بادشاہ کو بڑی حیرت کہ معلوم نہیں کہ اس شخص نے اس قدر جلد یہ انتظامات کہاں سے کر لئے بظاہر اس کے پاس  کچھ پونجی بھی نہیں معلوم ہوتی ۔ یہاں تک کہ جب سب کھا پی چکے تو عیش و طرب ( مستی ) کا سامان ہوا ۔ ہر شخص کو ایک الگ کمرہ سونے کو دیا ۔ جو ہر قسم کے ساز و سامان سے آراستہ پیراستہ تھا ۔ اندر گئے تو دیکھا کہ عیش کی تکمیل کے لئے ایک ایک حسین عورت بھی ہر جگہ موجود ہے ۔ غرض سارے سامان عیش کے موجود تھے ۔ خیر وہ کوئ متقی پرہیز گار تو تھے نہیں ، بلکہ خواہ مخواہ کے آدمی تھے مرد آدمی مہمانی کا یہ رنگ دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور رات بھر بڑے عیش اڑائے کیوں کہ ایسی رات انہیں پھر کہاں نصیب ہوتی یہاں تک کہ سو گئے ۔

جب صبح آنکھ کھلی تو دیکھتے کیا ہیں کہ نہ باغ ہے ، نہ درخت ہیں بلکہ پتھریلا علاقہ ہے اور ایک ایک پولا سب کی بغل میں ہے اور پاجامہ خراب ہے یہ عورتیں تھیں ، سب لوگ بڑے شرمندہ ہوئے کہ لا حول ولا قوۃ ، یہ کیا قصّہ ہے ۔ بادشاہ کی بھی یہی حالت تھی ۔

افلاطون نے بادشاہ سے کہا تم نے دیکھا یہ ساری دنیا جس پر تمہیں اتنا ناز ہے ایک خیال کا عالم ہے ۔

اور اسکی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔

افلاطون کے خیال کا اس قدر قوی تصرف تھا کہ اس نے خیال جما لیا کہ ان سب کے متخیلہ ( یعنی دل و دماغ ) میں یہ ساری چیزیں موجود ہوجائیں ، بس سب کو وہی نظر آنے لگیں ۔ جب وہ لوگ سو گئے اس نے اپنے خیال کو ہٹا لیا ۔ بھر صبح اٹھ کر جو انہوں نے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ۔

افلاطون ریاضت و مجاہدہ بہت کئے ہوئے تھا ۔ اس لئے یہ قوت اس کے خیال میں پیدا ہو گئ تھی ۔

یہ تصوف نہیں بلکہ تصرّف ہے یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز ہے ۔

افلاطون نے کہا  جیسے تمہیں ان چیزوں میں مزہ آتا ہے مجھے بالکل نہیں آتا کیوں کہ مجھے ان کی حقیقت معلوم ہے ۔ تو واقعی جو کچھ نظر آیا وہ عالم خیال تھا ۔ ( عملیات و تعویذات کے شرعی احکام ، ص ۱۳۲، بحوالہ آثار المربع ، التبلیغ )

علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی مجلس میں ایک رُوح کی آمد کا حیرت انگیز واقعہ

اس واقعہ کے راوی ڈاکٹر قیس مینائ ہیں اور یہ ان کی آپ بیتی ہے ، وہ علامہ تاجور نجیب آبادی مرحوم کے ہموطن اور دوست تھے ۔ انکے متعلق چرچا کہ انہیں روحانیت میں بڑا ورک حاصل ہے ۔

یہ بات جب علامہ اقبال کو پہنچی تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ، اس کے بعد کیا ہوا ؟ یہ آپ خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں سنئے ۔ ان کی یہ روائداد ابتداء مجلّہ حمایت اسلام لاہور کی ۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں ہوئ تھی ۔

یہ ۱۹۳۵ء کی بات ہے مینائ صاحب نے کہا ” ایک روز ڈاکٹر اقبال صاحب کا پیغام پہنچا کہ جلد

پہنچئے ! ڈرائیور غالباً ڈاکٹر صاحب موصوف کا ہی تھا میں بعد نماز مغرب کوٹھی پر پہنچا ، تو دس گیارہ حضرات تشریف فرما تھے ، علامہ تاجور بھی موجود تھے ، علیک سلیک کے بعد فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ، کہ آپ کو روحانیت سے بھی شغف ہے ، اس کے بعد ایک صاحب سے تعارف کرایا اور کہا کہ یہ صاحب لندن سے تشریف لائے ہیں ، اور ان کا بیان ہے کہ وہاں ایک شخص کی جائیداد کا اہم کاغذ گم گیا ہو گیا تھا جو چھ ماہ کی تلاش و بسیار کے باجود جب نہ ملا ، تو ایک عالم روحانیات سے رجوع کیا گیا  تو عامل نے کسی روح کو بلا کر دریافت کیا ، تو معلوم ہوا کہ وہ کاغذ اس کے گھر میں بڑے بکس کے نیچے فرش پر پڑا ہے ۔ چنانچہ وہ اسی جگہ سے مل گیا ، اس پر آپ کے وطن کے یہ نوجوان کہنے لگے ، کہ ڈاکٹر قیس مینائ ہمارے وطن نجیب آباد کے ہیں ، ڈیرہ دون میں کرنپورہ محلّہ میں قاضی کے محمد اکرم صاحب انسپکٹر پولیس کے بنگلہ پر انہوں نے بھی ایک روح کو بلا کر ایک پوشیدہ راز معلوم کر کے بتلایا تھا ۔ اس پر علامہ تاجور صاحب نے فرمایا ، کہ قیس مینائ ہمارے ہم وطن اور ہم محلّہ ہیں ، مگر مجھے تو ان کے اس ’’ علم ‘‘ کا علم نہیں ، اور وہ آج کل ڈاکٹر مسعود قریشی ہومیو پیتھ کے بالکل قریب پریکٹس کرتے ہیں ، اسی لئے آپ کو تکلیف دی گئ ہے کہ اس کے متعلق کچھ معلومات حاصل ہوسکیں ۔

( اس کے بعد قیس مینائ صاحب نے لکھا ہے کہ ) خاکسار نے دل میں سوچا ، کہ اگر ابھی صاف کہہ دوں کہ یہ سب دھوکہ بازی ہے ، کوئ روح وغیرہ نہیں آتی تو تفریح کیا ہوئ ؟ سو میں نے عرض کیا کہ آخر روح بلا کر آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ ڈاکٹر اقبال صاحب نے فرمایا کہ مولانا تاجور کو نیند نہیں آتی ، بے خوابی کا مرض لاحق ہے ، اس لئے کسی بڑے طبیب کی روح کو بلوا کر کوئ نسخہ معلوم کریں ۔

 میں نے عرض کیا کہ خاندان شریفی کے کسی طبیب مثلاً حکیم محمود خان دہلوی کی روح کو بلا دوں ؟ فرمایا مناسب ہے !

چنانچہ میں نے عرض کیا ، کہ ایک قد آدم آئینہ اور ایک گلاس پانی منگا دیجئے ! ڈاکٹر اقبال صاحب

نے فرمایا کہ اگر قد آدم آئینہ نہ ہو ، نصف قد ہو تو ؟ مین نے کہا وہی سہی ! چنانچہ ایک سنگار میز آ گئ اور کمرے کے ایک کونے میں میز پر وہ آئینہ اور اس کے آگے پانی کا گلاس رکھ دیا گیا ، اور میں اس کے عین دوسرے کنارے پر ایک کرسی پر بیٹھ گیا ، اور حاضرین سے کہا کہ آپ آئینہ کی طرف دیکھتے رہیں ، تھوڑی دیر بعد پانی کے گلاس میں سے تولہ بھر بھاپ بن کر اڑا ، اور آئینہ کو دھندلا گیا اور اس پر ایک شبیہ ( تصویر ) نمودار ہوئ ، اور آواز آئ ’’ السلام علیکم ‘‘ محمود خان حاضر ہے !

میں نے کہا حکیم صاحب ! ہمارے مولانا تاجور صاحب کو سہر کا مرض ہے نیند نہیں آتی ، کوئ نسخہ تجویز فرمادیجئے ۔  آواز آئ قیس صاحب ! وہ جو آپ کا مجوزہ نسخہ ’’ خواب راحت ‘‘ ہے وہی استعمال کرائیں ۔ انشاء اللہ شفاء کلی حاصل ہو گی ، پھر آواز آئ ، ایک گلاس پانی کا تو پلائیے ! میں نے عرض کیا ’’ بھلا روحوں کو بھی پیاس لگتی ہے ؟ ‘‘جواب ملا ’’ آپ کی دنیا میں جو آگئے ‘‘ چنانچہ گلاس اٹھا اور شبیہ کے منہ سے جا لگا ، پھر چھت کو چھو کر آہستہ سے میز پر آکر ٹھر گیا ۔

 اور آواز آئ ’’ الحمد للہ جزاک اللہ ‘‘ اور تصویر غائب ! تمام حاضرین مجلس کی حیرت و استعجاب کی حد نہ تھی ۔  دوستوں نے مجھے گھیر لیا ، اور علامہ اقبال اور تاجور بڑی حیرت سے مجھے لپٹ گئے ، تاجور نے فرمایا کہ اب زرا اس علم پر روشنی بھی ڈال دیں ۔ مزید ڈاکٹر صاحب اور دیگر حضرات نے بھی اصرار کیا ، تو میں نے عرض کیا کہ مولانا کے مجوزہ علاج کے بعد انشا ء اللہ مجھے یقین ہے کہ ہفتہ عشرہ میں ہی مکمل شفاء ہو جائے گی ۔ فی الحال میں انھیں دوا دے رہا ہوں ۔

اس کے اسعمال کے بعد بات کریں گے ، چنانچہ میں نے شوگر آف ملک میں یونہی کوئ دوائ ملائ ، اور اسے مولانا تاجور صاحب کو دے دی ۔

تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا ، تو علامہ صاحب کی جانب سے پیغام آیا ، کہ آئیندہ اتوار کی شام کھانا ہمارے یہاں کھائیے ۔ چنانچہ اتوار کو میں وہاں حاضر ہوا ۔ حاضرین قالینوں پر بیٹھے تھے ، گاؤ تکئیے لگے ہوئے تھے اور پیچوان چل رہا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ یاد دلایا ، تو میں نے عرض کیا پہلے

تو مجھے یہ بتائیں ، کی اس روز کی مجلس کے کتنے حاضرین یہاں موجود ہیں ؟ بتایا گیا بشمول دونوں علاماؤں کے نو حضرات وہی سابقہ افراد ہیں ، صرف دو غیر حاضر تھے ، میں نے کہا ٹھیک ہے اکثریت وہی موجود ہے ۔ پھر میں نے پوچھا علامہ تاجور صاحب ! آپ نے وہ دوائ استعمال کی یا نہیں ؟ اگر کی ہے تو اس کا کیا اثر ہوا ؟ تاجور صاحب نے فرمایا ’’ پہلی ہی رات چار گھنٹے پھر بتدریج پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے ، حتی کہ رات کو آٹھ گھنٹہ روزانہ سو کر میری نیند اب بالکل نارمل ہوگئ ہے ۔ اب میں روزانہ چھ گھنٹے سوتا ہوں ، میری نیند تو پوری ہو گئ ، مزید دماغ کو عجیب سکون اور قلب کو بڑی فرحت محسوس ہوتی ہے ۔ تب میں نے عرض کیا حضرت ! کیا آپ نے حکیم محمود خان دہلوی کی روح کو اپنی روح کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ! سب نے جواب دیا ہاں ہم نے دیکھا ! پھر میں نے پوچھا کیا آپ نے روح کی آواز سنی ؟ کہا جی ہاں ! بلکہ روح کو پانی پیتے بھی دیکھا ، اس کے بعد میں نے عرض کیا حضرات ! ذرا غور فرما ئیے ، قرآن حکیم کے مطالعہ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے ، کہ عالم برزخ کے دو درجات ہیں ’’ عِلِّيِّيْن ‘‘ اور ’’ سِجِّيْن ‘‘ اور یوم نشور سے قبل روح کو اپنے اس مقام سے مفر نہیں ۔ ابرار کی ارواح بطور ویٹنگ روم ’’ عِلِّيِّيْن ‘‘ میں اور فجّار ( بروں ) کی ارواح بطور حوالات ’’ سِجِّيْن ‘‘ میں موجود ہیں ، اور روحیں وہاں سے کسی اور جگہ آجا نہیں سکتی ،’’ وَمِنْ وَّرَآئِهِـمْ بَـرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ‘‘( سُورہ المومنون پ ۱۸، آیت ۱۰۰) ترجمہ : اور ان کے قیامت تک ایک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ مگر آپ حضرات فرماتے ہیں ، کہ ہم نے روح کو اچھی طرح دیکھا اور اس کی آواز بھی سنی ہے ، لہٰذا اب آپ حضرات یہ فرمائیے ، کہ آپ کا مشاہدہ غلط ہے یا نعوذ باللہ قرآنی نظریہ غلط ہے ؟

کسی نے کوئ جواب نہ دیا ، تو میں نے مولانا تاجور صاحب سے درخواست کی تو انھوں نے فرمایا ، ہم نے اسی کے لئے تو آپ کو تکلیف دی ہے کہ آپ ہی مسئلہ پر روشنی ڈالیں ۔

میں نے عرض کیا ماشاء اللہ آپ فاضل دیوبند ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے فاضل بھی ، لہٰذا  میں قرآنی علوم کے متعلق آپ سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں ؟  فرمانے لگے اچھا ! زیادہ نخرے نہ دکھا ۔

پھر میں علامہ اقبال کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا ، آپ ہی کچھ فرمائیے ، کہنے لگے ، قرآن بھی سچا اور ہمارا مشاہدہ بھی سچا ، صرف ہمارا فہم سچا نہیں ، اس لئے ہم آپ کے تجربہ اور نظریات کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔  تب میں نے بطور قول فیصل یہ عرض کیا ، کہ حضرات ! قرآن ہی سچا ہے اور آپ کا مشاہدہ غلط ! کیونکہ وہ کسی کی روح نہ تھی بلکہ میرے ذہن میں میرے استاد سید شبیر علی صاحب کی صُورت کا جو تصور موجود تھا ، وہ میں نے علم توجہ کے اثر سے پانی کی بھاپ اڑا کر آئینہ دھند لا کر وہ تصویر آپ کو دکھائ اور وہ آواز بھی میری اپنی آواز تھی ۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتا تھا اور میری آنکھوں سے باریک سی شعائیں نکل

رہی تھیں ، اس پر ایک نوجوان اور علامہ اقبال نے ان شعاعوں کو دیکھنے کی تصدیق کی تو میں نے کہا بس یہ سارا گورکھ دھندا انہی شعاعوں کا تھا ، کہ وہ شعائیں مقناطیسی اور ایٹمی قوتیں ہیں ۔

غرض یہ مختصر سی تقریر ختم ہوئ ، تو بعض حضرات نے اصرار کیا ہم تو اس مجلس میں موجود نہ تھے ، لہٰذا ہمیں بھی کچھ مشاہدہ کروا دیجئے ۔ ایک صاحب نے اپنی جیب سے اپنی دھوپ کی عینک نکالی ، دوسرے نے اپنی انگوٹھی میز پر رکھ دی ، میں نے کہا ایک قلم بھی لائیے ، تو ایک صاحب نے اپنا فونٹین پین میز پر رکھ دیا ۔ تب یہ تماشہ شروع ہو گیا کہ عینک اٹھی اور اس صاحب کی آنکھوں پر جا لگی ، پھر انگوٹھی حرکت میں آئ اور پین کی طرف چلی ، پین نے چند قدم آگے چل کر انگوٹھی کا استقبال کیا اور انگوٹھی میں سے گزر میری طرف بڑھا اور میری شعاع نظر نے قلم کو سرفرازی بخشی اور قلم نے سر جھکا کر سب حاضریں کو سلام کیا اور پھر چاروں طرف رقص کرنے

لگا ۔ حاضرین نے تالیوں سے داد دی اور قلم پرواز کرکے میرے ہاتھوں میں تھا ۔ ‘‘

یہ سب داکٹر صاحب کی قوت ارادی کے کرشمے تھے اور یہ ان کی دیانتداری تھی کہ انھوں نے اسے روحانیت کے مقدس لبادہ میں لپیٹ کر پیش نہیں کیا ۔

 ۱۹۶۵ء میں ٹائفائیڈ ، اعصابی کمزوری اور موتیا بند ہو گیا جس سے وہ صرف ایک دو تولہ اشیاء کو متحرک کرنے تک آگئے ورنہ پہلے وہ ایک دو پاؤنڈ اشیاء بھی اپنے اشارہ چشم سے باآسانی رقصاں کرلیتے تھے ۔ ( جادُو ۔ جنات ۔ اسلام اور جدید سائنس بحوالہ ماہنامہ رفتار زمانہ لاہور مارچ ۱۹۷۳ء )