روحانی بزرگوں کے واقعات و حکایات

روحانی بزرگوں کے ان کہے واقعات و حکایات انتخاب سید اظہر عنایت شاہ – کوہاٹ شہر

روحانی بزرگوں کے واقعات و حکایات پر مبنی کئی قصے کہانیاں آپ نے بھی پڑھے ہوں گے آج کی اس بزم میں کچھ ایسے واقعات کو تحریر کیا جا رہا ہے جو کہ مشہور شخصیات سے منسلک حیران کن ہیں۔ ان واقعات کا انتخاب ہمارے نہایت محترم دوست جناب سید اظہر عنایت علی شاہ صاحب نے کیا ہے ۔ امید ہے کہ روحانی علوم کے قارئین ان کی اس کاوش کو پسند فرمائیں گے ۔

مولانا حالی کے نواسے کی مرگی اور سُورہ مزمل کا عامل

مولانا الطاف حسین حالی مرحوم کی اکثر و بیشتر پانی پت سے دہلی آمد و رفت رہتی تھی ۔

ایک مرتبہ جب خواجہ حسن نظامی مرحوم حاضر خدمت ہُوئے تو حالی فرمانے لگے کہ میرے نواسے کو مرگی ہے ۔ حکیم و ڈاکٹر آزما لئے ، کچھ نفع نہ ہُوا ۔ خواجہ صاحب کوئ صاحب نظر بتاؤ جو کوئ تعویذ یا دعا کرے اور اس بیماری سے شفا ہو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ راولپنڈی میں ایک صاحب ہیں جو سُورہ مزمل کے عامل ہیں ۔ دم کرتے ہیں اور مریض شفایاب ہو جاتے ہیں ۔مولانا حالی فرمانے لگے کہ راولپنڈی میں تو میرے بیٹے مولانا سجاد حسین انسپکٹر تعلیمات ہیں ان کو لکھتا ہُوں ۔ چنانچہ تحریر کیا گیا اور مولانا سجاد صاحب اس عامل سے جا کر ملے اور اپنے بھانجے کی بیماری کی تفصیلات گوش گزار کیں ۔ ان عامل صاحب نے اپنی نشست بدلی اور چہرہ پانی پت کی طرف کر کے ایک مرتبہ سُورہ مزمل پڑھ کر پھونک دی ۔ مولانا حالی مرحوم کے نواسے کی مرگی ختم ہو گئ اور مولانا حالی اس عامل کے اخلاص کے بہت قائل ہُوئے ۔ ( ریزہ الماس ، صفحہ 427 )

نظرِ بد کا جان لیوا اثر

جونپور میں ایک مشاعرہ ہو رہا تھا ، وہاں ایک مصرع طرح دیا گیا ؎

کوئ نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے

یہ مصرع طرح دیا گیا ، اسی پر شاعر اپنا اپنا شعر بنا کر لائے ۔ ایک نوجوان نے اس کا جو مصرع بنایا تو اتنا غضب کا تھا کہ اس کو نظر لگ گئ اور تین دن کے بعد اس کا انتقال ہو گیا ، ایسا غضب کا مصرع اس نے لگایا ؎

کوئ نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے

اے سیلِ اَشک تو ہی بہادے اُدھر مجھے

یعنی اتنا رونا آئے کہ مجھے بہا کر میرے محبوب تک پہنچا دے ۔ ( مواعظ اختر ، نمبر ۵۸ ،ص ۵۷)

سُورہ توبہ کی آخری آیت مبارکہ کی تاثیر کا عجیب واقعہ

حضرت محمد ابن کعب سے روایت ہے کہ ایک سریّہ روم کی طرف روانہ ہُوا ، ( سریّہ اسے کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے جہاد کے لئے لشکر روانہ فرمایا ہو اور خود شریک نہ ہُوئے ہوں ، جس میں خود شریک ہوں اسے غزوہ کہتے ہیں ) ایک صحابی کی ٹانگ ٹوٹ گئ ۔ صحابہ نے گھوڑے کو ایک درخت کے نیچے باندھ دیا اور صحابی کے پاس ان کا توشہ چھوڑ کر جہاد میں آگے بڑھ گئے ۔ ایک غیبی آدمی آیا ، اس نے کہا بھئ تم کیسے پڑے ہو ؟ کہا میری ٹانگ ٹوٹ گئ ۔

 کہا اچھا وہاں پر اپنا ہاتھ رکھو اور پڑھو ﴿ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾ سات مرتبہ جیسے پڑھا ، سب تکلیف ختم ، ایک دم ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی ہوئ جُڑ گئ اور گھوڑے پر کود کے چڑھے اور صحابہ سے مل گئے ۔ ( مواعظ اختر ، ۵۸ ، ص ۷۱ ، بحوالہ رُوح المعانی )

جوگی کے سِحر کا اثر

حضرت رائے پوریؒ کے ایک عقیدت و ارادت مند مولوی عبد الحنان پنجابی تھے ۔ ایک دفعہ سر راہ جوگی کے پاس رک گئے ۔ اس نے سحر کردیا ۔ واپس آئے تو طبیعت پر ہندو ہوجانے کے خیالات کا ہجوم ہو گیا ۔ بھاگم بھاگ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ کے پاس گئے ۔انہوں نے فرمایا کہ فوراً رائے پور چلے جاؤ ۔ حاضر ہوئے ۔ حضرت رائے پوریؒ سے صورت حال عرض کی ۔ آپ نے خدام سے فرمایا کہ اسے سلادو ۔ وہ تین دن سویا رہا ۔ بیدار ہوا تو کہا کہ میں رائے پور سے جاتا ہوں ۔ میرے قلب کی وہی کیفیت ہے ۔ ہندو ہوجانے ، اسلام چھوڑنے اور مرتد ہو جانے پر دل مجبور کرتا ہے ۔ اتنے میں صبح کی سیر سے حضرت رائے پوریؒ واپس تشریف لائے ۔ مولوی عبد الحنان پنجابی نے عرض کی مجھے اجازت ۔ میرے دل کی وہی کیفیت ہے ۔ ہندو ہونا چاہتا ہوں ۔ حضرت رائے پوریؒ  شہادت کی انگلی سے اس کے دل کی طرف ( چبھونے) کا اشارہ کیا اور فرمایا مولوی صاحب اللہ تعالیٰ کے بندے اب بھی ایسے موجود ہیں جو یوں اشارہ کریں تو دل کی دنیا بدل جائے ۔ اشارہ کرتے ہیں ان کے دل کی دنیا بدل گئ اور جوگی کے سحر کا اثر جاتا رہا ۔ ( ماہنامہ لولاک ، فروری 2003ء ، ص 43 )

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی حفاظت

منقول ہے کہ ایک مرتبہ حسن بصریؒ حجاج بن یوسف کے سپاہیوں سے چھپتے ہوئے حضرت حبیب عجمیؒ کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے اور جب سپاہیوں نے حبیب عجمیؒ سے معلومات کیں تو انہوں صاف بتا دیا کہ حسنؒ عبادت گاہ کے اندر ہیں ۔ لیکن پورے عبادت خانہ کی تلاشی کے باوجود بھی حضرت حسن بصریؒ کا سراغ نہ مل سکا اور حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ سات مرتبہ سپاہیوں نے میرے اوپر ہاتھ رکھا لیکن مجھے نہ دیکھ سکے ۔ پھر سپاہیوں نے حضرت حبیب عجمیؒ سے کہا کہ حجاج تم کو دروغ گوئ کی سزا دے گا ۔ آپ نے فرمایا حسنؒ میرے سامنے عبادت گاہ میں داخل ہوئے تھے ۔ لیکن اگر وہ تمھیں نظر نہیں آئے تو اس میں میرا کیا قصور ہے چنانچہ دوبارہ پھر تلاشی لی ، لیکن ان کو نہ پا کر واپس آگئے ۔ حضرت حسنؒ نے باہر نکل کر حضرت حبیبؒ سے کہا کہ آپ نے استادی کا حق بھی کچھ پاس نہیں کیا اور صاف صاف انہیں میرا پتہ بتا دیا انہوں  نے جواب دیا کہ چونکہ میں نے سچ سے کام لیا اس لئے آپ محفوظ رہے اور اگر دروغ گوئ سے کام لیتا تو پھر یقیناً ہم دونوں گرفتار کر لئے جاتے ۔

 یہ سن کر حضرت حسنؒ نے پوچھا کہ آخر تم نے کیا منتر پڑھ دیا تھا کہ جن کی وجہ سے میں سپایوں کو نظر نہ آسکا ۔ آپ نے فرمایا کہ دو مرتبہ آیۃ الکرسی ، دو مرتبہ قل ہو اللہ احد اور دو مرتبہ اٰمن الرسول ( سورہ بقرہ کی آخری دو آیات مبارکہ ) پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ حسنؒ کو تیرے حوالے کیا تو ہی ان کی حفاظت کرنا ۔ ( تذکرۃ الاولیاء ۔ ص ۴۶ ، ۴۷ )

نوٹ : حضرت حسن بصریؒ چار بڑے و افضل تابعین حضرت سعید بن المسیّبؒ ، حضرت سعید بن جبیرؒ اور حضرت اویس قرنیؒ میں سے ایک ہیں ۔ آپؒ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے براہ راست شاگرد ہیں ۔ آپ کے بڑے فضائل و مناقب کتابوں میں ملتے ہیں ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*