عظیم المرتبت نایاب لوح حضرت سلیمان علیہ السلام

انسان اس دنیا میں تہنا نہیں۔ قدرت نے اس کا رشتہ پوری کائنات سے جوڑا ہے۔ تخلیق کے عناصر سے لے کر ان گنت کہکشاؤں کا ربط کہیں نہ کہیں جا کر انسان سے بنتا ہے۔ ستارے ہمیشہ سے انسانی فطرت کا جزو رہے ہیں۔ کبھی انسان رات کو تاروں کو دیکھنا اپنا مشغلہ بناتا ہے اور کبھی بچوں کو چاند ستاروں میں بسنے والی پریوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ بچپن سے شعور کی منازل طے کرتا یہ انسان ایک لمحہ کے لیے بھی ستاروں سے اپنا تعلق ختم نہیں ہوتے دیتا۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انسان کی پوری زندگی کا دارومدار دو ستاروں سورج اور چاند پر ہے۔ انسان کو ستاروں سے اتنی محبت ہے کہ وہ اپنی جان سے پیارے رشتوں کو بھی ستاروں سے تشبہ دیتا ہے۔ انسانی ادب ، شاعری اور مصوری کا وجود ان ستاروں کے بنا ممکن ہی نہیں۔ ان ستاروں سے انسان کی محبت اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ وہ ان ستاروں کی قربت حاصل کرنے کے لیے نئے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ سائنس ستاروں کے ساتھ انسان کی محبت کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مختلف ستاروں پر بستیاں بسانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔


ایک طرف تو انسان ستاروں کی محبت میں دیوانہ دکھائی دیکھتا ہے لیکن جیسے ہی ان ستاروں سے انسان کے روحانی رشتہ کی بات کی جاتی ہے تو فوراً ایسی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں جیسے یہ رشتہ معاشرہ میں نفرت کا باعث ہے۔ انسانی زندگی کی ترقی کے لیے جب بھی ستاروں میں چھپی قوت اور اس سے مستفید ہونے کے مختلف طریقوں کا ذکر کیا جاتا ہے اکثر لوگ بنا کسی دلیل کے اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔


مغربی معاشرہ میں روحانیت اور ستاروں کے علوم کو اکثر دینا کی پراسرار قوتوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے ایک عام انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں ہے۔ جب کوئی ستاروں سے بنی لوح دیکھی جاتی ہے تو اس کا تعلق اکثر فری میسن اور ایلومیناٹی جیسی تنظیموں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ تنقید کرنے والے ہمیشہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ تنظیمں ایک سے دو سو سال پہلے وجود میں آئیں جبکہ ستاروں کا علم کئی ہزار سال پرانا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ دنیا کی ان تنظیموں نے ستاروں کے انسانی زندگی پر اثرات پر تحقیق کرنے کے بعد ان ستاروں کی مخفی قوتوں کو اپنی ترقی اور دنیا پر اپنے تسلط کے لیے استعمال کیا۔


اسی طرح مسلم معاشرہ ہے جہاں جو چیز ملاں کی سمجھ میں نہ آئے اسے حرام قرار دے دیتا ہے۔ یہ ملاں ہر ماہ کے 28 دن ستاروں اور انسان کے تعلق پر کفر کے فتوے دیتا رہتا ہے اور 29ویں دن دوربین کے پیچھے کھڑے ہو کر ایک ستارہ کے نمودار ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ اپنی زندگی کا اگلا لائحہ عمل ترتیب دے سکے۔ مسلمان معاشرہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے اپنا دین ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے رکھا ہے جو آج تک ”بسم” اور ”باسم” کے فرق کو نہیں سمجھ پایا۔ جہاں انسان کی اپنی پسند ناپسند کا تعلق ہو وہاں وہ فیصلہ اپنی عقل کے مطابق کرتا ہے لیکن اگر کسی بھی معاملہ میں تھوڑا سا عقیدہ یا مذہب کا عنصر شامل ہو جائے تو وہ خود تحقیق کرنے کی بجائے ملاں کی طرف دوڑتا ہے۔


قرآن کریم میں بہت ساری ایسی سورتیں جو ستاروں سے متعلق ہیں جیسے سورہ والشمس، القمر اور النجم شامل ہیں۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ کچھ آیات قرآنی پیش کر رہے ہیں جو ستاروں اور انسانی زندگی کے تعلق کو نمایاں طور پر بیان کرتی ہیں۔
سورہ النحل آیت 12 :”اور اسی نے تمھارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں، سمجھنے والوں کے لیے اس میں نشایناں ہیں”۔ سورہ الانعام آیت 97:”اور وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں میں ان سے راستے معلوم کرو، عقل والوں کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں”۔ اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قدیم زمانوں میں سمندروں، میدانوں اور صحراؤں میں سفر کرنے والے ہمیشہ ستاروں کو اپنا راہبر بنا کر منزل کی طرف سفر کرتے تھے۔ انسان کا یہ طرز عمل قرآن کی ان آیات کے عین مطابق ہے۔ سورہ یونس آیت 5:”وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو، (سب کچھ) اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے، سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے”۔ علم روحانیت میں چاند کو مرکزی مقام حاصل ہے اور چاند کے اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف نقوش اور الواح تیار کی جاتی ہیں۔ سورہ والنجم کی آیات 1-3:”تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے، کہ تمھارا رفیق(محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں، اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں”۔ یہاں خالق کائنات اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت اور عظمت بیان کرنے کے لیے ستارے کی قسم کھا رہا ہے۔ قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کے سامنے نازل ہوا ہمیں کسی کتاب اور تفسیر میں نہیں ملتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھما نے ان آیات کو دیکھ کر کہا ہو کہ انسان کا ستاروں سے کیا تعلق۔ اللہ نے ستارے کی قسم کھا کر بتا دیا کہ انسان کا ستاروں سے گہرا رشتہ ہے۔ جب حکم الہی کے مطابق رشتہ ثابت ہو چکا تو پھر یہ بات بھی طے ہے کہ دوسرے انسان رشتوں کی طرح ستاروں سے رشتہ بھی انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سورہ الواقعہ آیات 75-77:”ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم، اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے، کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے”۔ یہاں رب العالمین نے قرآن کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے ستاروں کی منازل(چالوں) کی قسم کھائی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے جہاں انسان اور ستاروں کا تعلق بیان کیا ہے وہاں یہ بھی واضح کردی ہے کہ قرآن کریم اہل عقل اور ان لوگوں کے لیے ہے جو حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔


ہر نقش اور لوح کا کام ایک رابطہ پیدا کرنے والی چیز جیسا ہے۔ ان کے ذریعے انسان کائنات میں پھیلی عظیم قوتوں سے اپنا ربط جوڑتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتری اور کامیابی کی طرف لے جائے۔


آج ہم تاریخ انسانی میں نمایاں مقام اور اہم کردار رکھنے والے کچھ ستاروں کا ذکر کرنے کے بعد ایک عظیم الشان لوح پیش کر رہے ہیں۔


سات کونوں والا ستارہ:


عدد سات کو عالم روحانیت میں ہمیشہ بلند مقام حاصل رہا ہے۔ اگر ہم کائنات کی تخلیق کو دیکھیں تو اس میں سات کا عدد نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سات آسمان اور سات زمینوں کا تصور، نظام شمسی کے سات اہم سیارے اور مراقبہ کے سات ادوار اس عدد کی اہمیت کو اور اجاگر کرتے ہیں۔ ماہرین علم الاعداد کے نزدیک عدد سات کمال کی بلندی اور معجزاتی عدد ہے۔ اسی عدد کے سبب پوری کائنات میں ایک توازن قائم ہے۔


پانچ اور چھ کونوں والے ستاروں کے ساتھ سات کونوں والا ستارہ بھی انسانی زندگی میں ہمیشہ اہم مقام حاصل کئے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہفتہ کے سات دن اسی ستارے سے منسوب ہیں۔ کیرو کے مطابق اس ستارے میں ایک سے نو تک تمام بنیادی اعداد موجود ہیں جو اس ستارے میں زبردست قوت پیدا کرتے ہیں ۔ مختلف مذاہب اور روحانی گروہوں میں سات کونوں والے ستارے کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی مہر یا نشان سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی علوم روحانیت میں گھڑی کی سوئیوں کی چال کے جانب اگر گنتی شروع کر لی جائے تو پہلی نوک شمس اور مریخ کی علامت ہے جس کے عدد 9 ہیں ۔ اس کے بعد مشتری جس کے 3 عدد ہیں اس کے بعد زحل جس کے 8 عدد ہیں پھر قمر جس کے اعدداد 2 اور 7 ہیں پھر عطارد کے 5 عدد زہرہ کے 6 اور اآخر میں شمس ہے جو کہ ایک اور 4 عدد پر حکمران ہے ۔ یہ لکیر سات زاویہ پر تقسیم ہو کر شمس ، قمر ، مریخ ، مشتری ، عطارد، زہرہ اور زحل کی علامت بنتی ہے ۔ سات کونوں والا ستارہ زندگی کے سات ادوار کی بھی علامت ہے ۔



قوم یہود کے روحانی علم کبالا میں سات کونوں والے ستارے کو زھرہ اور محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ستارہ عیسائی قوم میں تحفظ عطا کرنے اور کالے جادو یا بری مخلوقات سے بچانے والی ایک ڈھال تصور کیا جاتا ہے۔ دینا میں بہت ساری اقوام اور قبائل اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ سات کونوں والا ستارہ اپنے اندر جادوئی اثر رکھتا ہے۔ اسی سبب سے اس ستارہ کو جادو کرنے والوں کے نزدیک ایک خاص مقام حاصل ہے۔


سات کونوں والا ستارہ دنیا کے کئی ممتاز کاروباری اداروں کے ساتھ منسوب ہے۔ اردن کے پرچم پر یہ ستارہ بنا ہوا ہے جبکہ آسٹریلیا کے قومی پرچم پر سات کونوں والے چھ ستارے بنے ہوئے ہیں۔ سات کونوں والے ستارے کو عموماً ”سیل آف سلیمان” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

 



دنیا کی بڑی جہاز راں کمپنی ”ماایرسک” کا کاروباری نشان یہی سات کونوں والا ستارہ ہے۔ اس کمپنی کے ہر بحری جہاز پر یہ ستارہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کمپنی کے مطابق سات کونوں والا ستارہ کو 1886 میں کاروباری نشان کے طور پر اپنایا گیا۔ اس کی ایک دلچسپ وجہ بیان کی جاتی ہے جو یہ کہ کیپٹن پیٹر ماایرسک مولر اپنی اہلیہ آنا مولر کے ساتھ سمندری سفر پر رواں تھے کہ ان کی اہلیہ اس سفر میں سخت بیمار پڑ گئیں۔ اپنی بیوی کی صحت اور شفاء کے کیپٹن ماایرسک مولر نے رات کو عبادت کرنا شروع کر دی۔ دوران عبادت کیپٹن کو بادلوں میں ایک سات کونوں والا ستارہ چمکتا ہوا دکھائی دیا جس نے انہیں امید دلائی کہ ان کی اہلیہ صحت یاب ہو جائیں گی۔


ماایرسک کمپنی کے اس کاروباری نشان اور اس واقعہ کے متعلق یہ تمام تفصیل کیپٹن مارسک مولر نے کچھ عرصہ بعد اپنی اہلیہ کو لکھے ایک خط میں بیان کی ہے۔



سات کونوں والے ستارے کو ”ایلون سٹار” اور ”فیری سٹآر” کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ کچھ گروہوں میں اسے مقدس نشان کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ مشہور زمانہ کتاب ”کی آف سالومن” جسےحضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے میں سات کونوں والے ستارے کی ایک لوح پیش کی گئی ہے جو ہم یہاں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے دے رہے ہیں:



پانچ کونوں والا ستارہ:


پانچ کونوں والا ستارہ ہر دور اور ہر تہذیب میں سب سے نمایاں رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس ستارے کے ذکر کے بنا ادھوری لگتی ہے۔ قدیم مایا تہذیب سے لے کر مصر، یونان، ہندوستان اور چین میں پانچ کونوں والا ستارہ انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ قدیم سمیرین تحریروں سے علم ہوتا ہے کہ پانچ کونوں والا ستارہ ان کے ہاں سمت کے تعین اور اس زمانہ میں واضح طور پر نظر آنے والے پانچ ستاروں سے منسوب تھا۔ قدیم ادوار میں اس ستارہ کو زھرہ اور اس کی دیوی کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا۔


پانچ کونوں والے ستارے کو تخلیق کے پانچ عناصر سے بھی جوڑا جاتا ہے جن میں آگ، پانی، ہوا، مٹی اور روح شامل ہیں۔ روحانیت کی دنیا میں پانچ کونوں والے ستارے کو اپنے خالق کے ساتھ روحانی رابطہ اور قربت قائم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کو قرآن کریم میں بہت نمایاں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ روحانیت کی ترقی اور اس علم سے استفادہ حاصل کرنے میں یہ قوم دوسری قوموں سے بہت منفرد اور ممتاز رہی ہے۔ بنی اسرائیل جسے موجودہ دنیا یہودی قوم کے نام سے پکارا جاتا کے علم روحانیت کی بنیاد دو کتابوں پر ہے۔ کتاب موسی اور کتاب ظھر۔ ان دونوں کتب کے اصولوں پر مبنی یہودی قوم نے اپنا روحانی نظام مرتب کیا جسے عرف عام میں ”کبالا” کہا جاتا ہے۔


کتاب موسی میں پانچ کونوں والے ستارے کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس ستارے سے منسوب کئی طلسمات کی افادیت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ دنیاوی مقاصد میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اس پانچ کونوں والے ستارے کو مراقبہ اور اس کائنات میں موجود دوسری طاقتور مخلوقات سے رابطہ کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قارئین کے لیے کتاب موسی میں دئیے گئے پانچ کونوں والا ستارہ کے چند طلسم پیش ہیں:



پانچ کونوں والے ستارے کو عرب اور کچھ مغربی دنیا میں خاتم سلیمانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق خاتم سلیمانی اور اس ستارہ میں فرق ہے۔ دنیا کے تقریباً سبھی مسلمان ممالک میں اس ستارہ کو شرف قبولیت حاصل ہے۔ غالباً یہ واحد ستارہ ہے جس کے خلاف کوئی فتوی سامنے نہیں آیا۔ شیخ بہاو الدین عاملی المعروف شیخ بہائی نے بھی اس سلسلے میں بہت کچھ تحریر کیا ہے جسے وقتا فوقتا قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔ شیخ بہائی کی کتاب سے پانچ کونوں والے ستارے کا ایک طلسم:



اس ستارہ سے منسوب طلسم کے ذریعے انسان اپنی روحانی قوت کو اجاگر کر کے قدرت کے عناصر آگ، ہوا، پانی اور مٹی پر مامور مخلوق پر قادر ہو سکتا ہے اور پھر ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتا ہے۔


مغربی روحانی دنیا میں پانچ کونوں ستارہ سے بہت عمل کیے جاتے ہیں اور اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کتاب ”کی آف سالومن” میں اس ستارہ سے متعلق کئی طلسمات موجود ہیں۔ جن میں سے ایک طلسم کے ذریعہ کائنات پر مامور مختلف قوتوں سے رابطہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس طلسم کا تعلق عطارد سے ہے۔ طلسم یہ ہے:

 



کی آف سالومن میں دئیے گئے پانچ کونے والے ستارہ کے طلسمات کو مستقبل سے متعلق معلومات کے حصول اور عناصر قدرت پر تصرف کے لیے خاص مقام حاصل ہے۔ مغربی روحانی دنیا میں شہرت رکھنے والے مصنف ”اگریپہ” کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کے پاس بھی پانچ کونے والا ستارہ کی مختلف طرز کی الواح تھیں۔


قدیم دور میں پانچ کونوں والے ستارہ کو ارواح، جنات اور دیگر مخلوقات سے رابطہ کرتے وقت بطور حصار بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ اس ستارہ کی الواح اور نقوش کو روحانی ترقی کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا تھا۔ یہ ستارہ انسانوں کے ساتھ ہمیشہ ایک گہرا تعلق بنائے ہوئے ہے۔ بعض روایات میں اس کو حضرت آدم علیہ السلام سے بھی نسبت دی جاتی ہے۔


اس ستارہ کی لوح بناتے وقت ایک کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی ہر نوک اپنے اندر ایک روحانی اثر رکھتی ہے۔ نوک کی کمی بیشی اس لوح کی تاثیر میں فرق پیدا کر دیتی ہے۔ ایسی لوح جس پر اس ستارہ کی پانچوں نوکیں پیمائش میں ایک جیسی ہو وہ اس کے پہننے والے کو بہترین تحفظ عطا کرتی ہے اور اس کے لیے ایک روحانی حصار بنا دیتی ہے۔


گذشتہ چند صدیوں سے پانچ کونوں والے ستارہ کی الٹی شکل کو شر کی قوتوں سے رابطہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی لوح یا نقش میں اس الٹے ستارہ میں بکری کے سر کو بھی بنایا جاتا ہے۔ بکری کے سر کے ساتھ بنے اس ستارہ کے طلسم کو ”سیجل آف بافومیٹ” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔


مشہور زمانہ کتاب ”گریٹر کی آف سالومن” میں مختلف طلسمات دئیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں مختلف سیاروں سے منسوب پانچ کونے والے ستارے کے طلسم بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان طلسمات کا مقصد ان سیاروں کے ساتھ انسان کا روحانی تعلق پیدا کرنا ہے۔


یہودیوں کے روحانی علم کبالا کی روایات میں پانچ کونوں والے ستارے کو ”زندگی کے شجر” کے اوپر والے پانچ حصوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ عیسائی مذہب میں اسے حضرت عیسی علیہ السلام کے تقدس کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ صلیب کے نشان سے پہلے پانچ کونوں والا ستارہ عیسائی مذہب کی شناحت کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ عیسائی اس ستارہ کے پانچ کونوں کو مسیح کے صلیب پر لٹکتے وقت لگے پانچ زخموں سے موسوم کرتے ہیں جن میں دو زخم کلائیوں پر، دو زخم گھٹنوں پر اور ایک زخم پسلیوں پر ہے۔


اگر کسی کو خدشہ ہو کہ کوئی جادو کرنے والا ان کے گھر آتا ہے تو وہ پانچ کونوں ستارہ کی لوح کو اس انداز میں کمرے کی دروازہ میں رکھیں کی ستارہ کی اوپر والی تکون کا رخ کمرے کی طرف ہو اور نیچے والی تکون کا رخ کمرے سے باہر کی طرف ہو تو کوئی بھی جادو کرنے والا اس گھر یا کمرے میں داخل نہیں ہو سکے گا۔


اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت عثمانیہ نے پانچ کونے والے ستارہ کو اپنی پہچان کی علامت کے طور پر اختیار کیا۔ اکثر اسلامی ممالک کے پرچم پر اس ستارہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی دینا میں اس ستارہ کو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پانچ کونوں والے ستارہ کو ہم امریکہ ، یورپین یونین، پاکستان،مراکش، چین اور دیگر کئی ممالک کے پرچم پر دیکھ سکتے ہیں۔


آسٹریلیا کی ممتاز گلوکارہ کائلی مانوگ نے برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے ملاقات کے دوران ایسا لباس زیب تن کیا تھا جس پر صرف پانچ کونوں والے ستارے بنے ہوئے تھے۔

 



امریکہ کا دفاعی ادارہ پینٹاگان کی عمارت کو پانچ کونوں والے ستارے کے اندر تعمیر کیا گیا ہے۔

 



اٹلی کے شہر ویٹیکن کو عیسائی دنیا میں سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس شہر کی تعمیر میں پانچ کونوں والے ستارہ کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔



سواستیکا:


جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے ہیں اور اس میں موجود مختلف نشانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں سواستیکا ایک قدیم نشان کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔


برطانیہ کے عجائب گھر میں موجود ہڑپہ تہذیب کی متعلق رکھی گئی اشیاء میں ایک ایسی تختی بھی ہے جس پر سواستیکا کا نشان بنا ہوا ہے۔

 



ہندوستان کے بعض تاریخ دان یہ دعوی کرتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے سواستیکا کو ہندہ راجا وکرم مادیا نے اختیار کیا۔ اس راجا کا دور سات ہزار قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے۔ یورپ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم تک یہ نشان کسی نہ کسی طور یورپی ممالک میں استعمال ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل ہٹلر کی نازی پارٹی نے اسے اپنے پرچم پر استعمال کیا۔ ہٹلر کی تباہ کاریوں کے باعث جہاں وہ قابل نفرت ٹھہرا وہیں پر سواستیکا کو بھی دنیا اور بالخصوص یورپ میں برائی کی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ ہٹلر کی پارٹی نے اس نشان کی افادیت کی وجہ سے ہی اسے اپنا علامتی نشان بنایا ۔


مغربی ادب میں سواستیکا کو ”گاموڈین کراس” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سواستیکا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اچھی قسمت اور خوشحالی کے ہیں۔


ایران کے صوبہ گیلان سے بھی ایک ہار دریافت ہوا جس پر سواستیکا بنا ہوا ہے۔ یہ ہار تقریباً تین ہزار سال پہلے مارلک تہذیب کے لوگوں نے بنا تھا۔

 



ایشاء کی تاریخ میں سواستیکا کا سب سے پہلا نشان تین ہزار قبل مسیح موہنجو دارو ہڑپہ کی تہذیب میں ملتا ہے۔ ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ سواستیکا کا نشان ہٹلر نے سب سے پہلے اختیار کیا اور اپنے پرچم کے لئے منتخب کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سواستیکا نازی جرمنی کی ملکیت نہیں۔ سواستیکا کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں۔ سواستیکا ستارہ کی ایک شکل ہے ۔ دنیا کی تقریباً تمام تہذیبوں میں سواستیکا کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے ۔ چین ، جاپان ، عرب ممالک، ہندوستان ، یورب اور امریکہ سواستیکا کو دیکھا جا سکتا ہے۔


ہندو، بدھ، چین اور جاپان کے ساتھ دیگر ایشائی ممالک میں سواستیکا کو صدیوں سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ موجودہ دور میں بھی یہ نشان ان ممالک میں روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سواستیکا کو قدیم یونان میں مقبولیت حاصل رہی۔ مشہور تاریخی شہر ”ٹرائے” میں بھی چار ہزار قبل اس نشان کے آثار ملتے ہیں۔


مختلف ممالک میں سواستیکا کو الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ چین میں اسے ”وان”، جاپان میں ”منجی”، انگلینڈ میں ”فائل فوٹ”، جرمنی میں ”ھاکنکروز” اور یونان میں ”ٹیٹراگامودین” کے ناموں سے اس نشان کی پہچان ہوتی ہے۔


سواستیکا کا ایک اور معنی مسلسل کامیابی بھی لیا جاتا ہے۔ سواستیکا کو مذکر اور مونث دونوں قوتوں سے استفادہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سواستیکا کی وہ شکل جو کے گھڑی کی سویوں کے سمت کے طرف چلتی ہے کو جنس مذکر اور سیارہ شمس کی قوتوں کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ سواستیکا کو شکل جو گھڑی کی سویوں کی مخالف سمت میں بنائی جاتی ہے کو جنس مونث اور ستارہ قمر کی قوتوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ستارہ شمس کا تعلق انسان کی تخلیقی قوتوں ، خوش بختی اور انسانی قابلیت کی بلند ترین مقام سے ہے۔ ستارہ قمر کا تعلق نسل انسانی میں مونث تعمیری قوتوں سے ہے۔ ستارہ قمر کو نسوانی قوت پیدائش، روحانیت ، وجدان، اور فرمانبرداری سے بھی ہے۔ اس کے ساتھ کچھ محقق ستارہ قمر کو کسی بھی انسان میں علم حاصل کرنے کے رجحان کے ساتھ بھی نسبت دیتے ہیں ۔

 



دنیا کی مشہور ترین مشروب بنانے والی کمپنی کوکا کولا 1920 میں اس نشان کو اچھی قسمت کی علامت کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔

 



دوسری جنگ عظیم سے پہلے سواستیکا کا نشان یورپ کے کچھ ممالک اور امریکہ کی فوج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی ائیر فورس کے کئی جہازوں پر اس نشان کو بنایا گیا۔

 



حالیہ سالوں میں ”گوگل ارتھ” پر امریکی بحری فوج کی کیلیفورنیا میں ایک عمارت کا بہت چرچا رہا ہے۔ اس عمارت کی شکل سواستیکا سے مشابہہ ہے۔

 



چھ کونوں والا ستارہ:


ہماری اس کاوش کا اصل محور و مرکز چھ کونوں والا ستارہ ہے۔ ہم یہاں اس ستارہ سے منسوب ایک ایسی لوح پیش کر رہے ہیں جو شاید آج تک دنیا کی کسی کتاب میں پیش نہیں کی گئی۔


چھ کونوں والے ستارہ سے بنی لوح کوعمومی طور حضرت داؤد علیہ السلام سے نسبت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ”سٹار آف ڈیوڈ” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی متعلق چھ کونے والے ستارہ کی ایک لوح روحانی دنیا میں بہت عظمت اور بلند مقام رکھتی ہے۔


ہم یہاں جو لوح پیش کر رہے ہیں اس کا تعلق حضرت سلیمان علیہ السلام سے ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اپنے لیے ایک ایسی سلطنت مانگی تھی جس کی شان وشوکت نہ دینا میں پہلے کسی نے دیکھی ہو اور نہ بعد میں کوئی دیکھے۔ اکثر حضرت داؤد علیہ السلام کی لوح کو ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی لوح کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ ہماری تحقیق کے مطابق درست نہیں ہے۔ ان دونوں الواح میں بہت فرق ہے ان دونوں الواح کا فرق جلد ہی ایک الگ مضمون میں پیش کیا جائے گا۔ اس وقت صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی لوح میں چھ کونے والا ستارہ دو مثلث پر مشتمل ہے جو کہ ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہوئی ہیں جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی لوح میں چھ کونے والے ستارے کی مثلث کی لکیریں ایک دوسرے کے اوپر نیچے سے گذر رہی ہیں۔


حضرت سلیمان علیہ السلام کی چھ کونوں والے ستارہ کی لوح میں کل بارہ زاویے ہیں۔ ان میں چھ کا تعلق مذکر اور چھ کا مونث قوتوں سے ہے۔ علم نجوم میں تمام بروج کی پیمائش اسی ستارہ سے ہوتی ہے۔ بروج سے تمام معلومات اسی چھ کونے والے ستارہ میں چھپی ہوئی ہیں۔


چھ کونوں والا ستارہ حضرت داود علیہ السلام سے بھی منسوب ہے اور یہودی قوم نے اسے اپنے قومی نشان کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ قدیم کتب میں اس ستارے کو آتش و آب کے متعدل ملاپ کو دکھانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اکثر روایتوں میں اسے فطری مثبت اور منفی قوتوں کے متوازن ہم آہنگی کے طور پر بھی لیا گیا ہے ۔ کئی جگہ اسے متحرک اور ساکن قوت کا ایسا ملاپ بھی کہا گیا ہے جو مکمل توازن ظاہر کرتا ہے اسے اعلیٰ روحانی شعور اور ظلمانی یا حیوانی شعور کے توازن کو ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ۔


انسان میں یہ دونوں قوتیں ہمہ وقت باہم متصادم رہتی ہیں اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ لہٰذا اس ستارے کا لاکٹ یا طلسم گلے میں ڈالنے سے ان دونوں قوتوں میں اعتدال پیدا ہوجاتا ہے ۔


چھ کونے والے ستارہ کی لوح یا اس کے نقش کو مخفی قوتوں سے رابطہ اور ان سے کام لینے کےلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض ماہرین روحانیت نے اس چھ کونے والے ستارہ کی لوح کو سیارہ زحل سے منسوب کیا ہے۔ چھ کونوں والا ستارہ مادی اور روحانی دنیا میں میلاپ اور ترقی کے لیے بھی بہت شہرت کا حامل ہے۔


موجودہ دنیا میں چھ کونوں والے ستارہ کو اسرائیل اور یہودی قوم کی وجہ سے بہت شہرت نصیب ہوئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نشان صرف یہودی قوم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عیسائی، ہندو، بدھ، جین اور مسلمانوں میں بھی چھ کونوں والا ستارہ ممتاز مقام کا حامل ہے۔ اس ستارہ کو ہم اسرائیل کے پرچم پر دیکھ سکتے ہیں۔ اسرائیل کے پرچم پر بنا چھ کونوں والا ستارہ حضرت داؤد علیہ السلام سے نبست رکھتا ہے۔


یہودی قوم نے چھ کونوں والے اس ستارہ کو اپنے ہاں رائج روحانی علم کبالا سے لیا۔ علم کبالا میں یہ ستارہ عرب تہذیب سے لیا گیا۔ اس ستارہ کو کبالا میں تخفظ کے طور پر ایک طلسم کی صورت میں استعمال کیا گیا۔ اس طلسم کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کیا گیا۔ اس کو ”سیل آف سالومن” اور خاتم سلیمانی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔


عیسائی دنیا میں چھ کونوں والے ستارہ کو اکثر چرچ میں لگے شیشہ اور دیگر چیزوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ رومن کیتھولک چرچ میں یہ نشان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بنی تکون کو نظریہ تثلیث سے جوڑا جاتا ہے۔ مشہور پوپ جان پال مذہبی تقاریب کے دوران ایسی ٹوپی پہنتے تھے جس پر چھ کونوں والی لوح سلیمانی بنی ہوئی تھی۔



ہندو مذہب میں چھ کونوں والے ستارے کو ”شت کون” یعنی چھ کونوں والا کہا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں اوپر کی طرف رخ کی ہوئی تکون کو مرد سے جبکہ نیچے رخ کی ہوئی تکون کو عورت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس طرح ان دونوں کے میلاپ سے چھ کونے والا نشان بنتا ہے۔ اس نشان کو ہندو مذہب میں بہت ساری عبادات اور مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندو مذہب میں ”نتراج” کی مورتی کو چھ کونوں والے ستارے سے نسبت دی جاتی ہے۔

 



اسی طرح بدھ اور جین مذہب میں بھی چھ کونوں والے ستارے کو بہت اہممیت حاصل ہے۔ بدھ مذہب میں ”ایشتا” دیوی کو ناگہانی موت اور روحانی دنیا میں بلندی کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس میں کچھ کونوں والے ستارہ کے اندر اس دیوی کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ بدھ مذہب کے ساتھ اسے جین مذہب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 



ہندوستان پر مغل حکمرانوں نے کئی سو سال تک اپنا اقتدار بنائے رکھا۔ مغل طرز تعمیر میں بھی ہمیں چھ کونوں والا ستارہ جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کے مقبرہ میں ہمیں چھ کونوں والا ستارہ اکثر مقامات پر دکھائی دیتا ہے۔ ہمایوں کو علم نجوم سے خاص دلچسپی تھی۔ ہمایوں کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے جلال الدین اکبر نے اپنے باپ کا مقبرہ تعمیر کروایا جس میں اس ستارہ کو بنایا گیا۔ جو عروج مغل بادشاہ اکبر کو حاصل ہوا وہ کسی اور مغل بادشاہ کو نصیب نہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے باپ ہمایوں کی طرح اکبر کو بھی علم نجوم میں بہت دلچسپنی تھی اور اکبر اپنے ساتھ ایسا جھنڈا رکھتا تھا جس پر ایک چھ کونوں والا ستارہ بنا ہوتا تھا۔ اسی طرح اکبر کے دربار میں بھی یہ ستارہ موجود تھا۔ ماہرین نجوم کی رائے ہے کہ اسی ستارہ کی بدولت اکبر کا جاہ و جلال اور عظمت و شوکت دوسرے مغل بادشاہوں سے زیادہ تھی۔

 



مغل حکمرانوں کے علاوہ دیگر کئی اسلامی ممالک میں بھی چھ کونوں والا ستارہ مساجد اور دیگر مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کرایمریا کے مسلمان حکمران نے جو مسجد تعمیر کروائی اس کے محراب عبادت پر چھ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ اس مسجد کو ”چھوٹے خان کی مسجد” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کرایمریا پر حکمرانی کرنے والا مسلمان خاندان خود کو خان کہلواتا تھا۔ یہ مسجد سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد میں بنے اس ستارہ کو لوح سلیمانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔

 



اسلامی دینا میں کئی حکمرانوں کے ساتھ علم روحانیت میں بھی چھ کونوں والا ستارہ بہت اہم رہا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسی الواح ملتی ہیں جن پر یہ ستارہ بنایا گیا۔

 



کہا جاتا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر چھ کونوں والا ستارہ بنا ہو اپنے اندر بہت تاثیر رکھتی ہے اس کی وجہ اس ستارہ میں موجود بارہ تکونوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ بارہ کا عدد اپنے اندر بہت جادوئی اثر رکھتا ہے۔


عرب دینا میں ایسے کئی مسلمان حکمران گذرے ہیں جن کے دور اقتدار میں چھ کونے والا ستارہ سکوں پر کندہ کیا جاتا رہا۔ یہاں پر چند حکمرانوں کے نام اور ان کے سکے دئیے جا رہے ہیں۔ پہلا سکہ مصر کے مملوک سلطان الاشرف سیف الدین برسبی کا ہے۔

 



مسلمان خلیفہ ناصر الیوسف کے دور حکومت میں رائج سکہ:

 



یہ سکہ عرب مسلمان بادشاہ الظاھر الغازی کے دور حکومت میں رائج تھا۔

 



ھاورڈ یونیورسٹی میں ایک کتاب انعامی شریف کا ایک نسخہ رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب ترکی میں خلافت عثمانیہ کے زمانہ میں لکھی گئی۔ کتاب ترکی اور عربی دونوں زبانوں میں ہے۔ اس کتاب سے لوح سلیمانی علیہ السلام کی ایک لوح کا عکس قارئین کے خدمت میں پیش ہے:

 



ہم نے اس خاص لوح کے لیے سورہ الدھر جسے سورہ الانسان اور ھل اتی بھی کہا جاتا ہے سے روحانی مدد لی ہے۔ اس لوح میں اس مکمل سورہ کے اعداد کو ایک مخصوص طریقہ سے لیا گیا ہے جو کسی دیگر لوح یا نقش کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے۔


مفسرین قرآن کریم نے سورہ الدھر کو اہل بیت عیلھما السلام سے منسوب کیا ہے۔ سنی شیعہ دونوں فرقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ مکمل سورہ یا کچھ روایات میں اس سورہ کا کچھ حصہ حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین عیلہ السلام اور صحابیہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آل رسولؑ کی خدمت گذار فضہ رضی اللہ کی شان میں نازل ہوا۔


اس سورہ کا مختصر شان نزول یہ ہے کہ جب نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں نواسے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام بیمار ہوئے تو حضرت علی عیلہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ نے منت مانی کہ ان دونوں بچوں کو اللہ صحت عطا فرمائیں تو وہ منت کے تین روزے رکھیں گے۔ جب دونوں بچے بیماری سے صحت یاب ہوئے تو حضرت علی عیلہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ نے منت کے روزوں کی تیاری شروع کی۔ جب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو والدین کی اس منت کا علم ہوا تو انھوں نے بھی کہا کہ ہم بھی روزے رکھیں گے۔ اسی طرح گھر کی خادمہ بی بی فضہ رضی اللہ نے بھی یہ تین روزے رکھنے کا ارادہ کیا۔ تینوں دن جب افطاری کا وقت آتا کو کوئی نہ کوئی سائل بھوک کی تکلیف اور کھانے کی خواہش کی صدا بلند کرتا۔ یہ تمام ہستیاں اپنا تمام کھانا اس سائل کو دی دیتیں اور خود نمک سے روزہ افطار کر لیتے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالی نے سورہ الدھر کی آیت 7 سے 9 میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ” یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس دن کی سختی پھیل رہی ہو گی خوف رکھتے ہیں۔ اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش(حاجت) ہوتی ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص اللہ کے لیے کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے عوض سے خواستگار ہیں نہ شکر گذاری کے(طلب گار)”۔


بعد کی آیات میں اللہ تعالی ان ہستیوں کے اس عمل اور جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں اور آیت 22 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ” یہ تمھارا صلہ ہے اور تمھاری کوشش (اللہ کے ہاں) مقبول ہوئی ”۔


اہل سنت میں اس پورا واقعہ کو امام رازی، علامہ زمخشری، علامہ نظام الدین نیشا پوری، علی بن احمد الوحدی کے علاوہ اور کئی کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ اہل تشیع میں تقریباً تمام مفسرین قرآن اس سورہ کا یہی شان نزول بیان کرتے ہیں۔ اس سورہ کا اہل بیت علیہھا السلام کی شان میں نازل ہونے سے متعلق اہل سنت کی کتب الدر المنثور علامہ جلال الدین سیوطی، البحر المحیط ابو حیان الاندلسی اور ینابع المودۃ حافظ سلیمان قندوزی الحنفی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔


اس لوح کے لیے سورہ الدھر کا انتخاب دیگر وجوہات کے ساتھ اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ اس سورہ میں اللہ تعالی نے انسان کی کوشش اور اس کے عوض جنت کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ جنت مکمل کمال کا نام ہے۔ اس لوح کی برکت سے انسان کی زندگی کی سختییاں دور ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالی اس انسان کے دامن کو اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے بھر دیتے ہیں۔


اس کائنات میں کوئی بھی چیز بنا مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ اس زمین پر موجود ہر شے انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ انسانی عقل کی ترقی نے ان اشیاء میں موجود قوتوں کو کھوج نکالا اور ان سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے۔ مختلف قسم کے پتھر ہمیشہ انسان کی دلچسپی کا مرکز رہے ہیں۔ باشاہوں کے تاج اور امراء کے گھروں کی زینت ہونے کے ساتھ یہ اقتدار کو مضبوطی اور طوالت کا ذریعہ بھی ہیں اسی طرح یہ نگینے رزق، مال و دولت اور کامیابیوں کو اپنی طرف لانے میں تاریخ انسانی میں اپنا مقام منوا چکے ہیں۔


اس لوح کے لیے مختلف نگینوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ نگینے اس لوح میں خوبصورتی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان نگینوں کا اس لوح سے ایک خاص تعلق ہے جو قدرت کے عظیم رازوں میں سے ایک ہے۔ اس لوح میں جو نگینے استعمال کیے گئے ہیں ان کا نہایت ہی مختصر سا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ کیٹس ائی جسے لہسنیا بھی کہا جاتا ہے اپنے اندر یہ روحانی تاثیر رکھتا ہے کہ یہ اس کے پہننے والے کو ہر طرح کے آسیب، جنات اور جادو، نظر بد کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ بچہ کی پیدائش کے وقت اگر در لہسنیا کو حاملہ عورت کے بازو یا جسم کے کسی بھی حصہ خاص طور پر بالوں میں باندھ دیا جائے تو وضع حمل بہت آسانی رہتی ہے۔ کیٹس ائی کو پہننے والا معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کے دل جیتنے اور محبت کے معاملات میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس پتھر کو دشمن پر فتح پانے میں بہت اعلی مقام حاصل ہے۔ جنگوں میں فوج کی قیادت کرنے والے اسے اپنے گلے یا انگوٹھی پہنتے تھے جس کی وجہ سے ان کے دشمن ان کے سامنے زیر ہو جاتے تھے۔


مروارید زبان عام میں ”پرل” کے نام سے مشہور ہے۔ عربی میں اسے لولو کہا جاتا ہے۔ اس کو زیادہ شہرت موتی کے نام ملی ہے۔ مروارید کے ساتھ بادشاہوں کو ہمیشہ ایک خاص لگاؤ رہا ہے۔ ہندوستان کے مغل حکمران ہوں یا یورپ کی بادشاہ یا ایرانی شہنشاہ ہر ایک نے مروارید کو اپنے لیے لازم قرار دیا۔ یہ نگینہ زندگی میں استحکام اور خوشیاں لانے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے پہننے والی کی شادی شدہ زندگی بہت شاندار بسر ہوتی ہے۔ یہ انسان کی روحانی کیفیات کو جذب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہ دل کو اطمینان اور سکون بخشتا ہے۔


دودھیا کو انگریزی زبان میں ”اوپل” کہا جاتا ہے اور یہی نام عام بول چال میں رائچ ہے۔ اوپل کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ فقیر کو بھی بادشاہ بنا دیتا ہے۔ اوپل کو تاریخ میں ہیرے سے بھی ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔ اوپل بدنصیبی کو ختم کر کے زندگی میں خوش بختی کے دروازے کھولتا ہے اس کے ساتھ یہ پیار و محبت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔ اس نگینہ کو روحانیت کی دینا میں ایک منفرد رجہ حاصل ہے۔


فیروزہ کو اسلامی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔ ہمیں لاتعداد ایسی روایات ملتی ہیں کہ جہاں آئمہ اہل بیت علیہ السلام نے اس نگینہ کو انگوٹھی میں پہنا۔ فیروزہ موذی جاتوروں، زمینی اور آسمانی آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ نظر بد میں بھی بہت کارگر ہے۔ یہ دل کو قوت دیتا ہے۔ غصہ کو قابو کرتا ہے اور دشمنوں پر قابو عطا کرتا ہے۔ وہ لوگ جو مختلف اقسام کی دوڑ یا ریس کے شائق ہیں ان کے لیے یہ نگینہ بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔


پکھراج زندگی کے الھجے ہوئے معاملات اور ناکامیوں میں حالات کو سازگار بناتا ہے۔ کاروبار کرنے والے لوگوں کے لیے پکھراج بہت مفید ہے۔ یہ بے راہ روی اور بے وفائی کو ختم کرتا جس سے محبت اور شادی شدہ زندگی میں بہت خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ یہ رشتوں میں دوری اور جدائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ حصول دولت کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہے۔ اعلی حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں میں پکھراج کے پہننے والی کو بہت عزت اور مقام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


سنگ ماہی کو سنگ سر ماہی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مچھلی کے سر کی پیشانی کے مقام پر پیدا ہونے والا ایک پتھر ہے۔ اس پتھر کو سیارہ مشتری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شرف مشتری کے دوران اس پتھر سے متعلقہ ایک عمل کیا جاتا ہے جو حصول دولت کے لیے ہے۔


یاقوت کے بارے میں درج ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جو انگوٹھیاں پہنتے تھے ان میں ایک یاقوت کی انگوٹھی بھی شامل تھی۔ اہل بیت علیہ السلام سے منسوب روایات سے علم ہوتا ہے کہ یاقوت کے پہننے سے مالی پریشانیوں کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ یاقوت روزگار کے حصول میں بہت معاون ہے۔ یہ بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور دشمن پر غلبہ دیتا ہے۔ یہ دل میں جوش و جذبہ اور خوشی پیدا کرتا ہے۔ انسان کو سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ یہ اعلی عہدوں پر فائز اور معاشرہ میں اہم مقام رکھنے والے لوگوں سے تعلقات بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ دل سے ہر طرح خدشات کو دور کرتا ہے۔

6 STAR LOH JPG GEMS

3 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*