مستحصلہ اظہار جواب ۔ ایک خود ناطق جفری قاعدہ

مستحصلہ اظہار جواب

علم جفر کی تعریف میں اس سے قبل بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، جن پاک ہستیوں سے اس علم کو منسوب کیا جاتا ہے یہ سب کچھ کتابوں میں عام درج ملتا ہے باتوں کو دہرانا اصل مقصد سے دوری کا سبب بنتا ہے لیکن گاہے بگاہے اب تک برصغیر پاک و ہند میں اس علم پر جو کچھ شائع کیا گیا ہم اپنے قارئین تک پہنچانے کی سعی کریں گے ۔
علم جفر کی تعریف یہ ہے کہ بات کا جواب بات میں یوں ملتا ہے جیسے کسی غیبی ہستی سے دوبدو باتیں کی جا رہی ہوں پھر علمائے جفر کے مطابق دنیا کی جس زبان میں سوال کیا جائے جواب اسی زبان میں برآمد ہوگا۔ یہی تعریف کتب جفر میں ہمیں پڑھائی گئی بلکہ سیکھائی گئی یا پھر ہمارے ذہنوں میں ڈالنے کی ایک کوشش کی گئی ۔
علم جفر کی بے شمار اقسام بیان کی جاتی رہیں جیسے جفر ابیض ، جفر الجامع ، مصحف فاطمہ (بقول علامہ شاد گیلانی اس کا تہائی حصہ بھی کسی کو حاصل ہوجائے تو وہ غوث یا قطب بن جاتا ہے ) وغیرہ۔۔۔۔۔
دنیا میں ہر علم کی کوئی نہ کوئی سند ضرور ہوتی ہے اگر کسی فارمولہ کو اختراع بھی کیا گیا ہے تو قوانین کیا لاگو کئے گئے یہ ضرور دیکھا جاتا ہے البتہ قوانین میں ترمیم وقت کے ساتھ ساتھ ہوتی رہی ۔ لیکن اگر ہم یہ قانون علم جفر پر لاگو کرنے کی کوشش کریں تو درست نہ ہوگا وجہ یہ ہے کہ اس علم کے متعلق جفار حضرات یہی لکھتے رہے کہ اس کے مسلمہ اصول رب کی جانب سے نازل کئے گئے ہیں ۔ علمائے جفر کے مطابق اس علم میں رمل و نجوم کی طرح قیاس و ظن کو عمل دخل نہیں ہے ۔ اس جملہ سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ یہ علم ٹو دی پوائنٹ بات کرتا ہے کسی قسم کا قیاس و ظن اگر شامل ہو تو پھر وہ حروف کا الجبراء یا حیرت انگیز الجبراء تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقی جفر قطعی نہیں ۔
میں کافی عرصہ سے اس موضوع پر خاموشی سے احباب کی تحاریر کا مطالعہ کر رہا تھا اور مجبوراً کئی مقامات پر خاموشی بھی اختیار کئے بیٹھا رہا میری یہ خاموشی مصلحتاً بھی تھی اور شاید میں اس موضوع پر کوئی بحث و مباحثہ نہیں چاہتا تھا ، لیکن اب عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک نیا قاعدہ اختراع کیا جاتا ہے اور اسے نام دے دیا جاتا ہے حقیقی جفر کا پھر منسوب کر دیا جاتا ہے آئمہ معصومین علیہم السلام سے ۔
کیا دنیا میں دیگر علوم نہیں نام و شہرت کمانے کے لئے ؟
ضروری ہے کہ خاندان ِ رسالت کا نام استعمال کرتے ہوئے نہ صرف علم کی بدنامی کا باعث بنیں بلکہ اپنی بھی عاقبت کو خراب کریں؟
میں اب وقتاً فوقتاً بہت کچھ اس موضوع پر لکھتا رہوں گا کیوںکہ میں جانتا ہوں کہ یہ موضوع انتہائی حساس ہے اور اتنا مختصر نہیں کہ اسے چند الفاظ میں سمیٹا جا سکے ۔ یہ حقائق آپ احباب تک پہنچانے کے لئے قریباً ماضی کے ستر ، اسی سال پرانے شائع ہونے والے قواعد جفر کو بھی بیان کرنا ہوگا ، ماضی میں کیا کچھ اس سلسلہ میں لکھا گیا کب لکھا گیا جواباً کچھ لکھا گیا یا نہیں؟ کوشش کروں گا کہ حسب قوت و طاقت آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا رہوں۔
ہمارے پاکستان میں جب علم الجفر کا نام آئے تو چند نام واضح طور پر ذہن کی اسکرین پر روشن ہوجاتے ہیں جیسے علامہ شاد گیلانی مرحوم ، بابر سلطان قادری مرحوم ، حکیم سرفراز احمد زاہد مرحوم ،غلام عباس اعوان صاحب ، لیاقت اللہ قریشی صاحب و دیگر ۔۔۔۔۔
ان حضرات نے درحقیقت علم جفر کے بے شمار قواعد کو مجھ جیسے جاہل مطلق انسانوں کے لئے شائع کروایا ۔ ان قواعد سے بالیقین میں نے از خود بہت استفادہ کیا بلکہ کئی حیران کن جوابات اخذ کرکے ایک دنیا کو عالم حیرت میں ڈال چکا ہوں ۔ میرے پاس وہ تمام سوالات و جوابات کا ریکارڈ موجود ہے ۔ ماضی میں کچھ منجم حضرات میرے جفری جوابات پر اپنے زائچہ سازی کرتے رہے اور احکام لگاتے رہے میں نام لینا مناسب نہیں سمجھتا ۔ بہرحال بات ہو رہی ہے جفر کی
وہ جفر جس میں قیاس و ظن نہیں ۔وہ جفر جس کے متعلق شاد گیلانی فرماتے ہیں کہ علم ۔ علم ہے اور جو علم مجہول کو معلوم کر سکے اس کے سامنے باقی تمام علوم ہیچ ہیں ۔
میں آپ احباب کی خدمت میں اب گاہے بگاہے قواعد جفر پیش کرتا رہوںگا واضح کر دوں کہ یہ قواعد میں نے اختراع نہیں کئے بلکہ میں نے تو انہیں صرف مختلف سوالات کی کسوٹی پر پرکھا ہے ، اگر آپ جفر میں ذوق و شوق فرماتے ہیں تو مستقل وزٹ کرتے رہئے ، میں وہ وہ قواعد پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں جن کے صفحات اب ان میگزین کے مالکان کے پاس بھی موجود نہ ہوں گے جہاں سے وہ شائع ہوئے تھے ۔

اس مرتبہ استاد الجفارین بابر سلطان قادری مرحوم کا ایک قاعدہ جو انہوں نے اپنی پہلی کتاب ” تحقیق جفر”نامی کتاب میں پیش کیا قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ تحقیق جفر کے متعلق علامہ شاد گیلانی مرحوم کے کیا الفاظ تھے خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
AllamaShadGilaani_Tareef_Bara_e_Babar_Sultan_Marhoom

کتاب ہٰذا میں ہی صاحب کتاب صفحہ نمبر ۳ پر فرماتے ہیں کہ آج ہم علم اخبار الجفر کے مختلف مستحصلات آپ کے مطالعے میں لائیں گے ان قواعد کو اس سے پہلے کسی قسمت والے نے ہی دیکھا ہوگا ۔ یہ بہت نایاب اور قابل قدر ہیں انہیں جان سے بھی زیادہ عزیز رکھیں ۔ یہ مستحصلات قدیم کتابوں اور استادان فن سے ہزار وقتوں کا سامنا کرنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔
مزید کیا لکھتے ہیں بجائے اس کے کہ میں اپنے لفظوں میں درج کروں متعلقہ صفحات کو یہاں پیش کردیتا ہوں ۔
tareef e jufr tareef e jufr2

اگر ان مندرجات پر غور کیا جائے تو جفر اخبار کو بابر سلطان قادری مرحوم نے تین حصوں پر تقسیم کیا ۔
جواب کو بنانا پڑتا ہے بابر مرحوم اسے قباحت بھی لکھتے ہیں اور درحقیقت یہ قباحت ہی ہے ۔
دوسرا حصہ جس کا تذکرہ کیا گیا گویا وہ استخارہ کی طرح ہے کہ آیا یہ کام کیا جائے یا نہ
اور تیسرا حصہ جسے جفر حقیقی کا نام دے سکتے ہیں کہ جس میں تمام حروفات ناطقہ سامنے آجاتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے جواب بھی تفصیل سے حاصل ہوتا ہے غالباً یہ جفر الجامع کے قاعدہ سے ممکن تھا یا ہے بہرحال یہ وہ تحریر ہے جو بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے پیش کر دی گئی ۔
یہی وہ جفر ہے جس کی تلاش ہر نگاہ کو ہے ہر شخص جس نے علم جفر اخبار کی تعریف سن رکھی ہے وہ کچھ اسی قسم کے قواعد کی آرزو رکھے ہوئے ہوتا ہے
بہرحال یہ موضوع ہم بعد میں زیر بحث لائیں گے سردست ایک مستحصلہ اسی کتاب سے آپ کے لئے پیش کر رہے ہیں ۔

مستحصلہ اظہار جواب

میں اس قاعدہ کے صفحات بھی آپ احباب کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
Mustehsila Izhar_e_Jawab1 Mustehsila Izhar_e_Jawab2 Mustehsila Izhar_e_Jawab3

یعنی یہ ایک خود ناطق قاعدہ ہے کسی حرف یا حروف کی مدد نہیں لینی پڑتی صرف ترتیب مقصود ہوتی ہے ۔
اب کس حد تک یہ قاعدہ جوابات دیتا ہے اس سلسلے میں آپ کے لئے یہاں اسی قاعدہ کا سوفٹوئیر پیش کیا جا رہا ہے
کوئی مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ دوسری مثال میں اللہ دتے بن محمد سعید ( والد کا نام ) کیوں استعمال کیا گیا ؟ جبکہ قواعد جفریہ میں ہر وہ شخص جو اس علم میں ذوق رکھتا  ہے بخوبی واقف ہے کہ نام بمعہ نام والدہ سائل یا پھر تخصیص کے لئے سکنہ وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے ۔
مستحصلہ ہٰذا کا سوفٹوئیر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں ۔

[wpdm_all_packages]

اگر کسی سبب مندرجہ بالا لنک سے سوفٹوئیر ڈاؤن لوڈ کرنے سے قاصر رہیں تو درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کریں۔

https://www.dropbox.com/s/84d4m112qv6csy6/IzhareJawabSetup.rar

2 Comments

  1. بابر سلطان اور شاد گیلانی کو خد ہی علم جفر نہیں اتا تھا، یہ لوگ بھی ادھر ادھر سے عربی و فارسی کتب پڑھ کر اردو میں نقل کرتے رہے۔ خاصکر بابر سلطان کی کتابیں تو جھوٹ کا پلندہ ہے، اور سب قوائد من گھڑت لکھ کر مصفف بن گئے، جب لوگوں سے قائدہ حل نہیں ہوتا تو کہتے ہیں یہ نا ایل ہے۔ اس طرح غضب کا علمی فراڑ پاکستان میں ہی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*