Har Qaum Pukaray Gi Humaray Hain Hussain A.S | ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

دینا کا ہر مذہب اور عقیدہ ہمیشہ اچھائی اور برائی ، حق و باطل کی دو قوتوں سے برسرپیکار نظر آتا ہے۔ ہر مذہب و عقیدہ اپنی بقا کے لیے حق کے ایسے اصولوں کا متلاشی رہتا ہے کہ جن کی بدولت وہ باطل قوتوں کے شر سے کو خود کو مخفوظ رکھنے کے ساتھ پروان بھی چڑھا سکے۔ مذہب اور عقیدہ فقط ایک تحریری دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ اپنے معاشرہ میں ایسے کردار متعارف کرواتا ہے کہ جو اس مذہب و عقیدہ کے اصولوں کی جیتی جاگتی مثال کے طور پر معاشرہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہ ہستیاں اپنے قول و فعل میں اس قدر حق پر ہوتی ہیں کہ دنیا کبھی انہیں ”امین” اور کبھی ”صادق” کہہ کر پکارنے لگتی ہے۔


انسان عقلِ ناقص کا مالک ہے۔ تمام تر مادی علم کے باوجود وہ معاشرہ کو لاحق مسائل کا مکمل حل پیش کرنے کے قابل نہیں۔ ایسی تاریکی میں انسانی عقل کسی ایسے کردار کی تلاش میں رہتی ہے جو اسے ہر مسئلہ کا حل پیش کر دے۔ انسانی معاشرہ کے ہر دور میں دو ہی رخ رہے ہیں اور رہیں گے۔ پہلا یہ کہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچائے یعنی اچھائی یا اچھائی پر ڈٹے رہنے والی حق کی راہ کا رخ۔ دوسرا رخ ان لوگوں کا ہے جو ہر دور میں دنیاوی فوائد کے لیے انسانیت کی تذلیل اور قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وقتی طور پر دوسرے رخ یعنی باطل قوتوں والے بہت طاقتور نظر آتے ہیں اور اچھائی یا راہ حق پر چلنے والے تعداد میں کم اور کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ جب معاشرہ میں ظلم کی تاریکی چھا جاتی ہے تو کچھ افراد اس ظلم سے معاشرہ کو نجات دلانے کے لیے ایسی مثالیں دینا میں قائم کر جاتے ہیں کہ ہر دور کا انسان ان مثالوں کو اپنا راہنما مان کر ہر دور کی باطل قوتوں سے ٹکرا جائے۔


ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے انصار اور رشتہ داروں کی جو قربانی دی وہ خالصتاً اسلامی معاشرہ سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ ہر مذہب کا انسان جب بھی حق و باطل کی تمیز کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنا معیار امام حسین علیہ السلام کی ذات کو قرار دیتا ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی ذات کو انسانی بقا کے طور پر پیش کرتے رہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے عمل سے معاشرہ کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ جب معاشرہ بھٹک جائے تو اسے فوری طور پر میرے دو نواسوں کو دیکھ لینا چاہیے کیونکہ حق ہمیشہ انہی کے ساتھ ہو گا ۔ اسی لیے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ کے سامنے اپنے ان دونوں نواسوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے کہ جب بھی معاشرہ سچائی اور حق کی راہ پر چلنا چاہے تو امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے قربت اختیار کر لے تاکہ وہ معاشرہ گمراہی ، تباہی اور اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے۔ کبھی نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ کہہ اپنے نواسوں کا تعارف کرواتے کہ ”حسن(علیہ السلام) اور حسین(علیہ السلام) جوانان جنت کے سردار ہیں” اور کبھی اپنی وحی والی زبان مبارک سے ارشاد فرماتے کہ ”حسین(علیہ السلام) مجھ (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ہے اور میں(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) حسین(علیہ السلام) سے ہوں”۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ دو ارشادات ہر دور میں مسلمان امت کی راہنمائی اور بقا کے لیے واضح پیغام ہیں۔


اسلامی معاشرہ کے ساتھ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر دور میں امام حسین علیہ السلام کی ذات اقدس ہی واحد راہنمائی ہے۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ دنیا کی چند مشہور شخصیات کے اقوال درج کر رہے ہیں جو ان کی امام حسین علیہ السلام کی ذات سے عقیدت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کو اپنی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔


شاعر مشرق علامہ اقبال اہل بیت رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ ان کا اردو اور خاص طور پر فارسی میں اہل بیت علیہما السلام کی شان میں لکھا گیا کلام کسی صحیفہ سے کم نہیں۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں کہ:

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر


ترجمہ: اللہ اللہ امام حسین علیہ السلام وہ ہیں کہ جن کا باپ(علی علیہ السلام) ‘بسم اللہ’ کی ‘ب’ کا نقطہ ہے اور امام حسین علیہ السلام نے قربانی دے کر قرآن کی آیت ذبح عظیم کی تفسیر یا معنی پیش کر دئیے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے امام حسین علیہ السلام کی عظمت کے بارے میں فرمایا کہ” دینا امام حسین علیہ السلام جتنی عمدہ اور روشن مثال کو پیش کرنے میں ناکام ہے۔ وہ(امام حسین علیہ السلام) محبت کی زندہ مثال ہیں، وہ قربانی اور وفا کی عظمت ہیں۔ ہر مسلمان بالخصوص اپنی زندگی میں ان (امام حسین علیہ السلام) سے راہنمائی حاصل کرے”۔

مہاتما گاندھی جن کو ہندوستان کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ان الفاظ میں امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ”میں نے امام حسین علیہ السلام سے سیکھا کہ تمام تر مشکل حالات میں کامیابی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ اسلام کی ترقی مسلمانوں کی تلواروں سے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہندوستان ایک عظیم ملک بننا چاہتا ہے تو اسے امام حسین علیہ السلام کو مثال بنا کر چلنا ہو گا۔ اگر میرے پاس امام حسین علیہ السلام کی طرح کے 72 ساتھی ہوتے تو میں ہندوستان کو چوبیس گھنٹوں میں آزاد کروا لیتا”۔

 اسی طرح ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا کہ ” امام حسین علیہ السلام کی قربانی پوری دنیا کے لیے ہے۔ یہ حق کے راستے پر چلنے کی ایک صحیح مثال ہے”۔

مشہور انگلش تاریخ دان ایڈورڈ گیبن اپنی کتاب ”ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر” میں لکھتے ہیں کہ ” عمر کے اس حصہ ، موسم کی سختی اور حسین(علیہ السلام) کی موت کے مناظر بے رحم انسان کے دل کو بھی متاثر کر دیتے ہیں”۔

بھارت سے تعلق رکھنے مشہور ادیب رابندر ناتھ ٹیگور جن کو ادب کا نوبل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا انسانی معاشرہ کی حالت اور امام حسین علیہ السلام کے کردرا کو مدنظر رکھ کر تحریر کرتے ہیں کہ ”انصاف اور سچائی کو زندہ رکھنے کے لیے فوج اور ہتھیاروں کی بجائے قربانی دی جائے ویسی ہی قربانی جو امام حسین علیہ السلام نے دی۔ امام حسین علیہ السلام پوری انسانیت کے راہنما ہیں”۔

مشہور ہندو پنڈت سوامی شنکرآچاریہ کہتے ہیں کہ ” یہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی ہے جس نے اسلام کو دینا میں زندہ رکھا ہے اگر یہ قربانی نہ ہوتی تو آج دینا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا”۔

اسکاٹ لینڈ کے معروف تاریخ نویس تھامس کارلائل کہتے ہیں کہ ”کربلا کے سانحہ سے ملنے والا سب سے اہم سبق حسین(علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا اللہ پر پختہ یقین ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ معرکہ حق و باطل میں تعداد کی کثرت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کم تعداد ہونے کے باوجود حسین(علیہ السلام) کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے”۔

اسی عنوان پر علامہ اقبال نے کہا کہ:

دشمناں چو ریگ صحرا لاتعداد
دوستان او بہ یزداں ہم عدد


ترجمہ: دشمن کا لشکر لاتعداد تھا مگر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ 72 افراد تھے اور یہ 72 کا عدد اللہ کے اسم یزداں کے برابر ہے۔

انگلش ناول نویس چارلز ڈیکنز لکھتا ہے کہ ” اگر حسین(علیہ السلام) کی یہ جنگ دنیاوی مقاصد کے لیے تھی تو پھر اس میں ان کی بہن، بیوی اور بچوں کا ساتھ ہونا میری فہم سے باہر ہے۔ یہ ایک ہی دلیل پیش کرتی ہے کہ اس قربانی کا مقصد صرف دین اسلام تھا”۔

 
برصغیر کے نامور شاعر جوش ملیح آبادی ان الفاظ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ:

 انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین


شاعر مشرق علامہ اقبال اس شعر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنا رشتہ یوں بیان کرتے ہیں کہ :

 رونے والا ہوں شہید کربلا کی یاد میں
کیا درِ مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے


علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے اسرار مسلمان قوم پر عیاں ہو جائیں تو وہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ اقدس کو اپنا قبلہ بنا لیں:

بیاں سرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*