عید میلاد النبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم

سب الحمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے کہ جس کی قدرت کے مظاہر پوری کائنات میں ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ تمام حمد و ثناء ہے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے کہ جن کو اللہ نے رحمت عالمین بنایا۔


کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانا ہمیشہ سے میرے لیے انتہائی دشوار رہا ہے اور یہ مشکل اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے جب بات نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ان کی آل پاک علیھما السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ کی ہو۔ 12 ربیع الاول کے موقع پر اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں۔ میری یہ تحریر ان لوگوں کی بھی ترجمانی کرتی ہے کہ جو عشق رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سر بسجود ہیں لیکن ہمارے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں۔


12 ربیع الاول آتے ہی مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ مسلمان نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یوم ولادت کیوں مناتا ہے۔ یہ اعتراض کرنے والوں میں کچھ جاہل عالموں کی طرح معاشرہ کا ایک مخصوص پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے کہ جو مغرب اور غیر مسلم کے تہواروں کی تو بہت تعریف کرتا ہے لیکن میلاد النبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عجیب اعتراضات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جاہل عالم میلاد کی ان بابرکت تقریبات کو غیر اسلامی کا لبادہ پہناتا نظر آتا ہے۔ یہ تنقید کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار مختلف انبیاء علیھما السلام کی ولادت کا ذکر کیا ہے تا کہ قیامت تک ہر دور کا انسان ان مقدس ہستیوں کی ولادت کے ذکر سے اپنے محفلوں کو سجائیں۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے دنوں کی یاد مناؤ۔ اللہ تعالی کے تمام دن کسی نہ کسی نبی یا معصوم سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان دنوں میں مخصوص طرز عمل اختیار کر کے اللہ کے حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔


قرآن کریم کی سورہ ابراھیم کی آیت 5 میں حکم اللہ ہے کہ ” اور ہم نے موسیؑ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ اور ان کو اللہ کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر و شاکر ہیں (اللہ) کی نشانیاں ہیں”۔ پھر قرآن کریم ان لوگوں پرعذاب کی خبر دیتا ہے جو اللہ کے دنوں پر یقین نہیں رکھتے۔ سورہ الجاثیہ کی آیت 14 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ” آپ ایمان لانے والوں سے فرما دیجیے کہ وہ ان لوگوں کو نظر انداز کریں جو اللہ کے دنوں کی امید اور خوف نہیں رکھتے تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے دے جو وہ کمایا کرتے تھے ”۔ اس آیت سے علم ہوتا ہے کہ مومن وہ ہے جو اللہ کے دنوں پر ایمان رکھتا ہو۔


جس طرح یہ دن اللہ کی پاک ہستیوں سے منسوب ہیں اسی طرح ان دنوں میں کیے جانے مختلف کاموں کو بھی اللہ اپنی نشانی قرار دیتا ہے اور ان کی عزت و تکریم کا حکم بھی دیتا ہے۔ سورہ الحج کی آیت 32 میں حکم الہی ہے کہ ” اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے ”۔ اسی طرح سورہ المائدہ کی آیت 2 میں ہے کہ ” اے ایمان لانے والو اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو ”۔


عید میلاد النبی کے دن جو جلوس نکالے جاتے ہیں ان میں مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کی تصویریں اور شبیہیوں کے ساتھ رسالت محمدی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پروانے خوبصورت نعتوں سے اپنے ایمان کی تجدید کرتے نظر آتے ہیں۔ عجیب بات یہ کہ کچھ لوگ ان تصاویر اور خانہ کعبہ اور مسجد بنوی کی ان شبیہوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ درست فعل نہیں ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ کچھ دن پہلے انھوں نے عیدالاضحی پر جو بکرا وہ لائے تھے وہ بھی اللہ کے دنوں کی نشانی کو یاد کرنا ہے اور یہ بکرا در حقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے آنے والے بکرے کی شبیہ ہے۔ اس بکرے کی اس لیے تعظیم کی جاتی ہے کہ ایک نبی کے بکرے کی شبیہ ہے لیکن افسوس وہ ہستی جو پوری کائنات کی خلق ہونے کی وجہ سے اس سے منسوب کسی بھی چیز کی شبیہ پر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔

eid-milad-kaaba-masjid-nabwi-models


عید میلاد النبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم منانے کا مقصد اللہ سے اس عہد کی تجدید کرنا ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا جب میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے ایک خلق کو خلق کیا۔ اب اللہ اپنی جو بھی پہچان یا معفرفت کروائے گا وہ اسی خلق کے ذریعے ہوگی۔ یہ خلق اللہ کے تمام مظاہر کی انسانی شکل میں مثال ہے۔ اللہ نے اگر خود کر رحیم کہا ہے تو سورہ توبہ میں اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی رحیم اور رؤف کہا ہے۔ اس کا مقصد انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جس کے ذریعے اپنی پہچان کروا رہا ہے وہ اللہ ہی طرح بے عیب و بے مثل ہے اور اللہ کے حکم سے اللہ کی صفات کا اظہار لوگوں میں عملی صورت میں کرتا دکھائی دیتا ہے۔

eid-milad-lahore-camel


یہ حدیث کثرت سے اسلامی کتب میں درج ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جب صحابہ کرام رضی اللہ نے پوچھا کہ اللہ نے سب سے پہلے کیا خلق کیا تو آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا، پھر وہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں اللہ تعالی کو منظور ہوا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم تھا، نہ جنت تھی، نہ جہنم تھا، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا، نہ زمین تھی، نہ سورج نہ چاند تھا، نہ جن اور نہ انسان تھے۔ پھر جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہے تو اس نور کے چار حصے کیے۔ ایک حصہ سے قلم پیدا کیا، دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش اور پھر ساری کائنات کو اسی نور کے توسط سے خلق کیا ”۔


اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کب شرف نبوت عطا کیا گیا تو رحمت عالمین صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے ”۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ” اللہ نے عرش کے پائے پر محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء لکھا اور جنت کو پیدا فرمایا جس میں حضرت آدم وحوا علیہھا السلام کو ٹھہرایا اور میرے نام (یعنی نام محمد) کو جنت کے دروازوں، اس کے درختوں اور پتوں اور اہل جنت کے خیموں پر لکھا۔ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کے جسم میں روح داخل کی اور زندگی عطا فرمائی تب انھوں نے عرش معظم کی طرف نگاہ اٹھائی تو میرے نام کو عرش پر لکھا ہوا دیکھا ”۔


حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جب آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انھوں نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ اے پروردگار میں آپ سے محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واسطہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ آواز حق تعالی آئی کہ اے آدم تم نے محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیسے پہچانا حالانکہ میں نے ان کو ابھی پیدا بھی نہیں کیا تو آدم علیہ السلام نے عرض کی کہ جب میرے اندر روح پھونکی اور میں نے سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تو میں نے معلوم کر لیا کہ اپنے نام کے ساتھ آپ نے اس کا نام ملایا ہوا ہے جو مخلوق میں آپ کو سب سے زیادہ پیارا ہو گا ”۔


اگر قرآن کریم میں درود والی آیت کو دیکھیں جو سورہ الاحزاب کی آیت 56 ہے تو اس میں اللہ تعالی کی ذات ارشاد فرماتی ہے کہ ” اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو ”۔ اس میں اللہ نے یہ نہیں کہا کہ میں محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں بلکہ یہ کہا کہ نبی پر درود ہے۔ نبی کریم کا نام محمد اس دینا میں لباس بشریت میں آنے کے بعد عطا کیا گیا۔ اگر اللہ قرآن کریم کی اس آیت میں ارشاد فرماتے کہ درود ہے محمد پر تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ درود اس دنیا سے شروع ہوا لیکن اللہ نے لفظ نبی آیت میں استعمال کیا ہے گویا نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ اور اس کے فرشتے آدم علیہ السلام کے خلق ہونے سے پہلے درود بھیج رہے ہیں۔


اللہ تعالی نے اپنے سب سے عظیم نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان گنت اسمائے مبارکہ سے نوازا ہے۔ ان میں کچھ نام ایسے بھی جو اللہ اور اور نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشترک ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو ذاتی نام ہیں۔ ایک محمد دوسرا احمد۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زمین پر میرا نام محمد ہے اور آسمانوں پر احمد ہے۔ فخر کائنات کے چار اسمائے کنیت ابو القاسم، ابوابراھیم، ابوا لارامل اور ابو المومیین ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے میرے ناموں اور کنیت کو ایک ساتھ اپنے ناموں میں اختیار نہ کرو۔


جہاں تک نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفاتی اسماء کا تعلق تو علماء میں اس پر کچھ اختلاف ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کم سے کم 300 صفاتی اسماء ہیں اور ابھی تک 1400 سے زائد صفاتی اسماء مختلف کتب میں مل جاتے ہیں۔


نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، احمد ہوں، ماحی ہوں کیونکہ اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں کیونکہ سب لوگ (روز قیامت) میرے قدموں میں جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں ”۔ علماء کے نزدیک عاقب کے معنی سب نبیوں سے آخر میں آنے والا نبی ہے یا جس نبی کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ اسم ماحی کا مطلب مٹانے والا ہے یعنی اللہ اپنے حبیب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے دنیا پر چھائے کفر و شرک کے نظام کو مٹا کر انسانیت کی بلندی کا نظام رائج کرے گا۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ سے روایت ہے کہ یہودی اور اہل کتاب نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنگوں میں دشمن پر فتح حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے۔ روایت میں درج دعا کے الفاظ یہ ہیں :


اللھم انصرنا بالنبی المبعوث فی آخر الزمان الذی نَجِدُ نعتہ و صفتہ فی التوراۃ۔ اے اللہ آخری زمانے میں آنے والے نبی کے صدقہ میں ہماری مدد فرما جس کی تعریف اور صفات ہم تورات میں پاتے ہیں۔


اسی دعا کو علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی تحریر کیا ہے۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہودی دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے۔


اللہ تعالی اپنے محبوب ترین نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی آل پاک کے صدقہ میں تمام عالمین میں موجود مخلوقات پر اپنا کرم جاری رکھے اور سب کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں میں رکھے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*