طلسم خانہ فرحانہ – رفیقہ بائی کی کرامات – دوسری قسط

رفیقہ بائی کی کرامات – دوسری قسط

گزشتہ ماہ طلسم خانہ فرحانہ کی قسط اول پیش کی گئی تھی -اس ماہ طلسم خانہ فرحانہ دوسری قسط پیش خدمت ہے ۔ رفیقہ بائی کی کرامات کا سلسلہ ایسے ہی  جاری و ساری رہا  اور دن گزرتے گئے حلیمہ بھی اکثر اپنا کوئی نا کوئی مسئلہ رفیقہ بائی کی خدمت میں لے کر حاضر ہو جاتی اور ویسے بھی اب تو رفیقہ بائی سے گھریلو تعلقات بن چکے تھے ۔حلیمہ نے اپنی بہن فرحانہ اور عریشہ کو بھی  رفیقہ بائی سے ملوا دیا  تھا اب تو   کچھ ایسا حال تھا کے رفیقہ بائی جیسے حلیمہ کے گھر کی ہی ایک فرد ہو حلیمہ کے گھر میں کوئی بھی کام رفیقہ بائی سے پوچھے بغیریا یوں کہا جائے کےرفیقہ بائی کی اجازت کے بغیر  نہ ہوتا اورحلیمہ کی جانب سے رفیقہ بائی کی ہر طرح سے مدد کا سلسلہ جاری تھا  رفیقہ بائی کا اثر و رسوخ حلیمہ اور اُسکے اہل خانہ پر اس قدر تھا کہ گھر کے تمام افراد کی رائے پر رفیقہ بائی کی رائے کو مقدم جانا جاتارفیقہ بائی کو تینوں وقت  گرما گرم کھانا تیار ملتا اس کے علاوہ بھی جو کھانے پینے کا یا دیگر سامان گھر آتا پہلے رفیقہ بائی کی نظروں سے  کسی اسکینر مشین کی طرح گزارا جاتا  پھرجس چیزپر  رفیقہ بائی اپنے شک کا اظہار کرتی اور کہتی کہ اس پر کوئی منفی اثرات ہیں وہ شے رفیقہ بائی کو دے دی جاتی۔  رفیقہ بائی کے مُریدوں کی تو ویسے ہی کمی نہ تھی مگر اب اُن میں اضافہ ہو گیا تھا ۔پھر کچھ یوں ہوا کہ حلیمہ اور حلیمہ کی بہن فرحانہ نے مل کے رفیقہ بائی سے بہت منت سماجت کی کہ اب انکے بھائی کمال کا کیس رفیقہ بائی  اپنے ہاتھ میں لے لے اور اسکا کوئی حل نکالے  رفیقہ بائی کے پاس انکار کرنے کی تو کوئی وجہ ہی نہ تھی لہذا رفیقہ بائی نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں کمال کیا چیز ہے میں نے تو اس سے بھی بڑے بڑے کیس اور مسلئے حل کئے ہیں  بس آپ لوگ کمال کے بھائی جسکا نام ریحان تھا کو میرے پاس مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے بھیج دیں  یہ سُننا تھا کہ حلیمہ اور فرحانہ نے خوشی کا  اظہار کرتے ہوئے رفیقہ بائی کا شکریہ ادا کیا اور اُس ہی روز اپنے بھائی ریحان سے بھی درخواست کی کہ جلد از جلد جاکر رفیقہ بائی سے ملاقات کر لے ریحان جو کہ پہلے ہی رفیقہ بائی کی کرامات اور کرشمات کا کافی مرتبہ ذکر سُن چکا تھا مگر کبھی رفیقہ بائی سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوا تھا  اب رفیقہ بائی کے بلاوے پر اس اُمید کے ساتھ رفیقہ بائی کی خدمت میں حاضر ہوا کہ شاید رفیقہ بائی ہی کمال کا علاج کر کے کمال کو پہلے کی طرح بالکل ٹھیک کر سکتی ہے ریحان چونکہ نجانے کہا ں کہاں کمال کو اپنے ساتھ لئے کمال کا علاج کروانے کے لئے پھرتا رہا تھا مگر ما سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہو سکا تھا اب رفیقہ بائی کے حضور یہی اُمید باندھے حاضر تھا کہ کیا پتہ شاید کمال کی شفاء رفیقہ بائی کے ہاتھوں لکھی ہو۔ بہر حال ریحان جب رفیقہ بائی سے ملا تو پہلے رفیقہ بائی نے ریحان کو تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے میں نے بہت بڑے بڑے مسلئے حل کئے ہیں کمال کا بھی پوری طرح علاج ہوجائے گا اور کمال بالکل پہلے کی طرح  ٹھیک ہو جائے گا رفیقہ بائی کے ان الفاظوں نے ریحان کو بہت سہارا دیا اور اُمید بندھوائی  پھر رفیقہ بائی پر کسی پاک ہستی کی حاضری آئی دوران حاضری ریحان نے ساری سرگزشت بیان کردی کہ کس طرح کمال ایک اچھا خاصا ہوش مند ہوشیار اور محنتی شخص تھا اور پھر اچانک سے نجانے اسے کیا ہونے لگا کہ ہوش و حواس جانے لگے عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا  ان دیکھی مخلوقات  کےنظر آنے کا سلسلہ جاری ہوا  پھر مختلف  قسم کے عاملین کے پاس اور درگاہوں پر کمال کو لے جایا گیا مگر کمال کی حالت میں کوئی بہتری نہ آئی اور دن بہ دن  کمال کی حالت اور ناساز ہوتی چلی گئی پاک ہستی نے دوران حاضری ریحان سے بہت تسلی بخش گفتگو کی اور ریحان کو یقین دہانی کروائی کہ کمال با لکل ٹھیک ہو جائے گا اس پاک ہستی سے بات کرنے کے بعد ریحان بھی کافی حد تک مطمئن نظر آنے لگا  ،  پاک ہستی کی حاضری رخصت ہونے کے بعد رفیقہ بائی نے ریحان سے اگلے روز اپنے ساتھ ایک پانی کی بوتل لے آنے کو کہا جب ریحان اگلے روز رفیقہ بائی کی خدمت میں پانی کی بوتل لے کر  پیش ہو ا تب رفیقہ بائی نے ریحان کی آنکھوں کے سامنے اُس پانی کی بوتل پر کچھ پڑھ کر دم کیا اور پانی سے بھری دم کی ہوئی بوتل ریحان کو دے دی ریحان نے چونکہ رفیقہ بائی کے اس کرشمہ کا چرچا سُن رکھا تھا کہ جب رفیقہ بائی کسی کو پانی دم کر کے دیتی ہے تو اُس پانی میں تیز خوشبو آ جاتی ہے اور عطر سی تری نمودار ہوجاتی ہے لہذا پانی کی بوتل ہاتھ میں لیتے ہی ریحان نے جونہی پانی سونگھا ایک تیز خوشبو کا بھبکا محسو س ہوا ریحان حیران رہ گیا کہ واقعی بوتل کے اندر موجود پانی میں سے تیز خوشبو آرہی ہے رفیقہ بائی کے اس کرشمہ کے بارے میں اب تک ریحان نے صر ف سُنا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا اسکے بعد رفیقہ بائی نے اُس پانی کی بوتل میں کچھ نقوش ڈال دیئے اور ریحان کو ہدایت کی کہ اس پانی کی تھوڑی تھوڑی مقدار روزانہ تین وقت کمال کو  پلائے ساتھ ہی اپنے آستانے والے کمرے سے کچھ اگربتیاں بھی لائی اور ریحان کو دے دی کہ انہیں کما ل کے اطراف میں روزانہ جلایا جائے ۔ کمال کی حالت اس وقت  اس حد تک خراب تھی کہ وہ حوائج ضروریہ کے لئے بھی خود بستر سے کھڑا نہیں ہو پاتا ریحان ہی تھا جو کمال کا پوری طرح خیال رکھتا کمال کو کھانا کھلانا حوائج ضروریہ کے لئے مدد کرنا نہلانا کپڑے تبدیل کروانا یہ سب ذمہ داری ریحان نے سنبھال رکھی تھی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کمال کی ہر وقت عجیب و غریب باتیں سُننا جو کہ با آسانی کسی عام شخص کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہوتی  جیسے کبھی کمال کہتا کہ میرے ساتھ فردوسہ بیٹھی ہے کبھی کہتا اتنے سارے لوگ سامنے کھڑے ہیں کبھی کمال کو ہوا میں لٹکی ذوالفقار نظر آنے لگتی کبھی کمال عجیب و غریب سوالات کرنا شروع کردیتا جیسے کبھی پوچھتا کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ اتنا رحمان ورحیم ہے تو بھلا وہ کس طرح اتنے زہریلے جانور پیدا کر سکتا ہے کہ ان کے زہر سے انسان کی موت واقع ہو جائے یہ سارا کام ابلیس شیطان معلون کا ہے  اور کبھی سامنے والے سے کہتا کہ کیا تمہارا اتنا عقیدہ ہے کہ تم اللہ کے نام پر زہر پی سکو پھر کہتا لاؤ مجھے زہر دو میں اللہ کے نام پر پیوں گا اور مجھ پر زہر کا اثر بھی نہیں ہوگا   کبھی کمال کو گھر میں اُڑتی ہوئی چیلیں نظر آتی اب تو کمال بستر پر نہایت ہی کمزوری کے عالم میں تھا لیکن جب کچھ بہتر تھا اور ریحان کمال کو اپنے ساتھ لئے گھر سے باہر جاتا تب بھی بیچ راستے پر ایسے واقعات پیش آتے کے کمال پر چیلیں حملہ کر دیتی یہ وہ چیلیں نہ ہوتی جو کہ صرف کمال کو ہی نظر آتی بلکہ یہ عام سی چیلیں  تھیں جو کہ اکثر آسمان پر اُڑ رہی ہوتی ہیں  اوربلند عمارتوں  پر بیٹھی ہوتی ہیں نجانے اچانک سے اُڑتے ہوئے آتی اور کمال کے سر کے اوپر سے تیزی سے گزر جاتی ۔

ریحان کیونکہ کمال کا بھائی تھا بھلا کمال کو اس مشکل کے وقت کیسے چھوڑ سکتا تھا اور کمال نے بھی اپنے وقتوں میں جب کمال کی حالت بالکل ٹھیک ہوا کرتی تھی گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی ۔ جب ایک عام شخص کی ماہانہ تنخواہ چار سے پانچ سو روپے ہوا کرتی تھی اُس وقت کمال ہزاروں میں کماتا تھا لیکن اب کمال اپنے ہوش و حواس سے بھی بے خبر تھا ۔ ریحان نے رفیقہ بائی کا دم کیاہوا پانی کمال کو رفیقہ بائی کی دی گئی ہدایت کے مطابق پلانا شروع کیا اور اگربتیاں بھی جلائی  جب اگر بتی اور پانی ختم ہونے لگتے رفیقہ بائی دوبارہ سے دے دیتی کچھ ہی دن کے استعمال کے بعد واضع  فرق محسوس ہونے لگا اور مسلسل دو ماہ تک رفیقہ بائی کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد کمال کی حالت کافی بہتر رہنے لگی یہ بات سب گھر والوں کے لئے ناقابل یقین ہونے کے ساتھ کسی کرامت سے کم نہ تھی کیونکہ کمال کی جو حالت تھی اور روحانی علاج کے دوران جو نتائج دیگر عاملین سے ملے تھے ،  ان سب کے بعد تو جیسے گھر کے تمام افراد کی اُمیدیں ہی ٹوٹ گئی تھیں سب نے یہ آس ہی چھوڑ دی تھی کہ اب کبھی کمال پہلے کے جیسا ٹھیک بھی ہوسکتا ہےمگر جب رفیقہ بائی نے یہ اُمید بندھوائی تھی کے کمال بالکل ٹھیک ہوجائے گا تب بھی یہ اُمید دل کو تسلی دینے کے لئے مددگار تھی لیکن پھر بھی سب گھر والے کہیں نہ کہیں اس بات کو تسلیم کر چکے تھے کے اب کمال کا ٹھیک ہونا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے لیکن رضائے الہٰی سے رفیقہ بائی نے اس ناممکن امر کو ممکن کر دکھایا تھا اور صرف دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد ہی کمال کی حالت میں کافی حد تک نمایاں بہتری آ چکی تھی اب کمال خود سے اُٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے قابل ہو چکا تھا اب کمال کی زبان پر ان دیکھی مخلوقات کا کوئی  ذکرنہ تھا  نہ ہی تو اب کمال کوئی عجیب و غریب سوال کرتا ،زیادہ تر چُپ رہتا ۔کمال کی حالت میں یہ آتی ہوئی واضح تبدیلی تمام گھر والوں کے لئے باعث خوشی کے ساتھ ساتھ حیران کُن بھی تھی اب سب کا عقیدہ و ایمان رفیقہ بائی پر اور بھی زیادہ مضبوط ہو چکا تھا اور ریحان نے کئی عرصہ  بعد سُکون کا سانس لیا تھا کمال کی خدمت کرتے کرتے اور کمال کے علاج کے لئے ادھر سے اُدھر مارا مارا پھرتے پھرتے ریحان یہ بات بھول چکا تھا کہ وہ کسی سے بے پناہ محبت کرتا ہے غالباً دل ہی دل میں ریحان نے جس کو اپنا سب کچھ مان لیا تھا وہ بطور نرس ایک نجی ہسپتال میں ملازمت کرتی تھی اور اُس کا نام شہناز تھا اتفاقیہ طور پر ریحان کی شہناز سے ملاقات ہسپتال میں ہی ہوئی تھی اور پہلی نظر میں ہی ریحان شہناز کو اپنا دل بیٹھا تھا اور اب اسے عزت کے ساتھ  اپنی زندگی میں اپنا شریک حیات بنا کر لانا چاہتا تھا مگر کمال کی  اچانک بگڑتی طبیعت اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں نے ریحان کو اتنا موقع ہی نہ دیا کہ ریحان کم سے کم شہناز سے اپنی محبت کا اظہار ہی کر دے کبھی کبھارریحان کی  شہناز سے سرسری سی ملاقات ہو جاتی  اور وہ ہر بار یہ سوچتا  رہ جاتا کہ اگلی ملاقات پر شہناز کو صاف صاف اپنے حال دل سے آگاہ کردے گا  کہ وہ شہناز کوبہت  پسندبھی کرتا ہے اور شہناز سے من ہی من اُسے بے انتہا محبت ہو چکی ہے اب وہ  اپنے گھر والوں کو اُسکے گھر رشتہ لے کر بھجوانا چاہتا ہے مگر ایسا اگلی بار کا موقع ہی نہ آسکا ریحان اپنے گھر والوں کو بھی یہ بتانا چاہتا تھا کہ اُس نے اپنے لئے شریک حیات کا انتخاب کر لیا ہے مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔ اب کمال کی حالت میں آتی ہوئی بہتری ریحان کو کچھ تسلی فراہم کر رہی تھی اور اُس نے سوچا کہ وہ جلد ہی اب گھر والوں سے شہناز کے متعلق بات کرلے گا اور شہناز کو بھی اپنی خواہش سے آگاہ کرکے اظہار محبت کر لے گا ۔ کئی عرصہ سے جب سے ریحان نے ہوش سنبھالا  تھا  ریحان کی ایک عادت تھی کہ وہ  روزانہ کی بنیاد پر سارے دن کی آپ بیتی خاص ضروری باتیں اہم واقعات سب کچھ ڈائری میں نوٹ کرتا تھا مگر اپنی نوٹ بک کو سب کی نظروں سے چھپا کر رکھتا۔

بھائی بہنوں میں ریحان کی  سب سے زیادہ قربت اپنی بڑی بہن حلیمہ سے تھی  وہ اکثر حلیمہ سے اپنے دُکھ سُکھ باآسانی شیئر کر لیتا اس لئے ریحان نے سوچا کہ شہناز کے حوالےسے پہلے حلیمہ سے بات کی جائے سب سے بڑی بہن ہونے کی وجہ سے سارے بھائی بہن حلیمہ کو آپا کہہ کر مخاطب کرتے  ۔ ایک دن ریحان حلیمہ آپا کے گھر  یہی سوچ کر آیا کہ آج شہناز کے حوالے سے بات کر لے گا کیونکہ حلیمہ بڑی بہن ہے  تو اپنے حساب سے صحیح موقع اور وقت دیکھ کر والدہ سے خو د شہناز کے حوالے سے بات کرلے گی ۔ حلیمہ نے ریحان کو چائے کا کپ دیتے ہوئے پوچھا خیریت ہے ریحان  کچھ کہنا چاہتے ہو  حلیمہ کے پوچھنے پر ریحان نے چونک کر جواب دیا  ریحان کے اس قدر گھبرانے کی وجہ اور کچھ نہیں بلکہ یہ تھی کہ کیا یہ مناسب لگتا ہے کہ کنواری بہنیں گھر میں بیٹھی ہو اور میں اپنی شادی کی بات کروں یوں فرحانہ کے بہت سے رشتے آئے جس میں سے زیادہ تر رشتے لانے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود حلیمہ کا شوہر تھا اچھے سے اچھا رشتہ ہونے کے باوجود بھی کہیں بات بن نہ سکی ہر رشتہ میں ہی فرحانہ کو کوئی نہ کوئی مسلئہ نظر آنے لگتا  کبھی کسی کی شکل اچھی نہیں لگتی تو کبھی کسی کی فیملی، کبھی  کسی کا روزگار  پسند نہیں آتا تو کبھی کوئی ایسا رشتہ جس میں لڑکا کسی اور ملک میں رہائش پذیر ہوتا،  فرحانہ کوگمان ہوتا کہ کہیں دوسرے ملک میں پہلے سے ہی شادی  شدہ تو نہیں، بحرحال ریحان اپنی سوچوں میں گم بہت ہمت کر کے کہنے لگا کہ آپا ایک لڑکی مجھے بے حد پسند ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں بمشکل ریحان بس اتنا ہی بول پایا کہ آپا نے  کہا اڑے اڑے ریحان یہ تو بتاؤ کہ آخر وہ لڑکی ہے کون؟۔۔۔۔ آپا کا یہ پوچھنا تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی آپا نے ریحان سے کہا رکو۔۔۔۔ ذرا میں دیکھوں کہ کون آیا۔۔۔۔ حلیمہ نے دروازہ کھولا تو پتہ چلا دستک دینے والا شخص حلیمہ کا شوہر کچھ پریشان نظر آرہا تھا حلیمہ نے پوچھا خیریت آپ اچانک اس وقت آگئے اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟
حلیمہ کے شوہر نے بتایا ہاں ہمیں ابھی فورا نکلنا ہے میرے چاچا کا انتقال ہوگیا ہے جیسے ہی مجھے اطلاع ملی میں بس تمہیں لینے گھر آگیا جلدی سے تیار ہوجاؤ فورا نکلنا ہے جا کر میت دفن و کفن کے سارے انتظامات سنمبھالنے ہیں حلیمہ نے جلدی سے کہا ” انا للہ و انا الیہ راجعون ”   اور کہنے لگی آپ بیٹھیں بس میں جلدی سے نکلنے کی تیاری کرتی ہوں اور ہاں ریحان بھی آیا ہوا ہے آپ  اُس کے پاس بیٹھیں بس کچھ دیر میں نکلتے ہیں۔ حلیمہ کا شوہر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اُس روم میں چلا گیا جہاں پہلے سے ریحان بیٹھا تھا پیچھے پیچھے حلیمہ بھی آگئی اور حلیمہ کا شوہر ریحان کو اپنے چاچا کی فوتگی کے بارے میں بتانے لگا سُن کر ریحان نے بھی انا للہ و انا الیہ راجعون کہا اور اپنے بہنوئی کو تسلی دینے لگا پھر حلیمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا آپا ابھی آپ لوگوں کو بھی جانا ہے، میں بھی نکلتا ہوں پھر بعد میں تفصیل سے بات ہوگی اور کچھ باقی گھر والوں کو چاچا کے انتقال کی اطلاع دیتا ہوں پھر ہم مل کر شرکت کرتے ہیں۔ یہ کہتا ہوا کھڑا ہو ا ۔ حلیمہ نے کہا چلو ٹھیک ہے اور پھر خدا حافظ کر کے نکل گیا ۔ سارا راستہ ریحان یہ سوچتا رہا کہ کیا میری قسمت میں شہناز کا ساتھ نہیں لکھا ہے پہلے کمال کی طبیعت کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنی پڑی اور اب جب اپنی تمام تر ہمت کو اکٹھا کر کے حلیمہ آپا سے بات کرنے ہی لگا تھا تو  وہ با ت بھی ادھوری رہ گئی  انہیں سوچوں میں گم ریحان گھر واپس آگیا ، والدہ اور بہنوں کو حلیمہ کے چچا سُسر کی  موت کی اطلاع دی  اور کہنے لگا کہ آپ لوگ جنازہ پر جانے کے لئے تیار ہوجائے میں جب تک کچھ دیر کمال کے پاس بیٹھ جاتا ہوں  ۔ آج کمال کا مزاج  کچھ الگ محسوس ہو رہا تھا آج کافی دنوں بعد کمال نے ریحان سے پھر سے وہ ہی سوال کئے تھے جو وہ پہلے کرتا تھا۔  اب ریحان کو کمال کی دماغی حالت پر شک ہو رہا تھا اور دل میں وسوسے اُٹھنے لگے کہ کہیں کمال کی حالت پھر سے تو خراب نہیں ہورہی رفیقہ بائی کی ہدایت کے مطابق کئے گئے دو ماہ کے علاج کے بعد کمال تو کافی حد تک بہتر ہو گیا تھا لیکن یہ آج کمال پھر سے ویسا ہی نظر آرہا تھا ریحان کی فکروں میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا ریحان سوچ رہا تھا کہ آخر کب زندگی میں سکون کے لمحات آئیں گے ، آئیں گے بھی یا نہیں؟

طلسم خانہ فرحانہ  میں ریحان   کی  محبت کا انجام  اور مرض کینسر میں ہلاکت، کمال کی دوبارہ سے بگڑتی ہوئی حالت  ، حلیمہ کے دونوں بچوں کے شک و شباہت اور فرحانہ کی خاموش محبت کی سچی کہانی جاننے کے لئے ہم سے جڑے رہیں۔