What is hamzad | ہمزاد کیا ہے

فہرست

اس سے قبل کہ آپ یہ تحریر پڑھیں ۔ ایک بات واضح کردوں کہ نہ میں عامل ہمزاد ہوں نہ ہی میرے قبضہ میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے ۔ گزشتہ کئی ماہ سے بہت سے قارئین نے ہمزاد کے موضوع پر گفتگو کی ، بہت سوں نے خواہش ظاہر کی کہ اس موضوع پر بھی کچھ تحریر کریں ۔ میں ہر بار ٹالنے کی ہی کوشش کرتا رہا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر حضرات جو علوم روحانیت کے شعبہ سے دلچسپی رکھتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھیں یکدم چھلانگ لگا کر منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نہ صرف خود کو نقصان و اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ لہٰذا تحریر ہٰذا صرف شائقین کی معلومات کے اضافہ کے لئے درج کی جا رہی ہے جو صاحب عملی طور پر کوشش کریں گے وہ نفع و نقصان کے خود ذمہ دار ہونگے ادارہ بری الذمہ ہوگا۔ (محمدحسن)۔یاد رکھیں کہ دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا جب تک مستقل مزاجی اور محنت سے نہ کیا جائے ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی کام جسے آپ انجام دینا چاہتے ہیں یہ لازمی ہے کہ اسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اصول کو پس پشت چھوڑ کر آگے نکلنے والا ہمیشہ ناکام ہی رہتا ہے اور ناکامی ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ اس عنوان کے تحت ہم جو کچھ لکھیں گے اس میں بھی چند اصولوں کا ذکر ہوگا جو کہ عاملین و واقف کاران اسرار و رموز نے بیان کئے ہیں ان پر عمل  کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ بلکہ جو درحقیقت ہمزاد کی تسخیر کے خواہش مند ہیں ان کا فرض اولین ہے کہ ان اصول پر کاربند ہوں ۔ ان پر عمل پیرا ہونے والے افراد جو سمجھتے ہیں کہ وہ اس قسم کے جلالی اعمال کر سکتے ہیں ، یا وہ حضرات جو کامل روحانی استاد کی زیرنگرانی ہیں ، ایسے تمام حضرات اس تحریر کو سرسری طور پر نہ پڑھیں بلکہ بہ نظر غائر اس کا مطالعہ فرمائیں ورنہ کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کو سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہاں پر کیا لکھا جا رہا ہے ایسا تو نہیں کہ لکھنے والا فضولیات بک رہا ہے اگر آپ کی عقل سلیم جواب دیتی ہے کہ یہ سب کچھ فضولیات ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں تو ابھی اور اسی وقت براؤزر بند کردیجئے ۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ تحریر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیے اور میرے حق میں دعائے خیر کیجئے ۔

ہمزاد کی تعریف

یاد رکھیں کہ انسان جب تک کسی کام کی ماہیت سے آگاہ نہیں ہوتا اس وقت تک نہ تو ان طریقوں پر عمل کر سکتا ہے جو مطلوبہ کام کے حصول کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور نہ ہی اس کے نفع و نقصان سے آگاہی مل سکتی ہے جو اس میں پوشیدہ ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمزاد کی صحیح تعریف کی جائے اور اس کے ہر پہلو سے نقاب کشائی کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یاد رکھیں ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں ایک ظاہر دوسرا باطن ۔ ظاہر دکھائی دیتا ہے ، باطن پوشیدہ رہتا ہے ۔ جیسے انسان کا جسم ظاہر اس کی روح باطن۔ جسم کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ روح کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں ۔ اسی طرح علم جفر اخبار کے ماہرین بھی ایک مثال دیتے ہیں کہ ہر سوال میں اس کا جواب پوشیدہ ہے سوال ظاہر ، جواب باطن ۔ جس طرح ہر جاندار کے جسم کے پردہ میں اس کی روح چھپی رہتی ہے اسی تمثیل کے پیش نظر ہمزاد کا بھی شمار ہوتا ہے یعنی ایک انسان کی دو تصویریں ۔ ایک ظاہر دوسری باطن ، ایک نظر آتی ہے دوسری نظروں سے پوشیدہ ہے جسے انسان دیکھ نہیں سکتا لیکن وہی تصویر اپنی تصویر ظاہری کے ساتھ سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت موجود رہتی ہے اور کسی لمہ جدا نہیں ہوتی ہمزاد کیا ہے ؟؟
ہمزاد کے لغوی معنی سایہ اور ساتھی کے ہیں ۔ اس کو شیطان بھی کہا جاتا ہے بعض عامل جن سے منسوب کرتے ہیں لیکن میرا اس بات سے اختلاف ہے ، وجہ آئندہ بیان کروں گا کہ کیوں ؟
فی الحال آپ اسے سایہ یا ساتھی سمجھ لیں ۔ میں مندرجہ بالا سطور میں لکھ آیا ہوں کہ یہ کسی بھی وقت اپنی ظاہری تصویر (یعنی آپ) سے علیحدہ نہیں ہوتا ۔ چاہے کیسا ہی مقام کیوں نہ ہو۔ سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے غرضیکہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے ۔ لیکن نہ تو ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بات کر سکتے ہیں ۔ وجہ ؟؟۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ آپ کا ساتھی ہوتے ہوئے بھی آپ کی گرفت سے آزاد ہے چونکہ وہ ہمارا پابند نہیں ہے اس لئے ہمارے احکام کی تعمیل نہیں کر سکتا آپ کی اسی باطنی لطیف شے کو "ہمزاد ” کہتے ہیں ۔
کم و بیش ہر فرد ہی اس کی تسخیر کا خواہشمند نظر آتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہمزاد کب پیدا ہوتا ہے ؟
وجہ تخلیق کیا ہے ؟
کب تک ساتھی کے فرائض انجام دیتا ہے اور کب فنا ہوجاتا ہے ؟
ہمزاد کسی مخصوص ہستی کے لئے پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ قدرت کا بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے مخلوق انسانی کو مساویانہ درجہ عطا فرمایا ہے اس کے دربار میں ، امیر غریب ، فقیر ، شاہ و گدا سب برابر ، دنیاوی مذاہت کی اس کی بارگاہ میں کوئی اہمیت و افضلیت نہیں ۔ سید۔ شیخ ، مغل ، پٹھان سب برابر ۔ اس کے یہاں افضل وہی ہے جس کے اعمال سب سے بہتر ہوں گرضیکہ انسان کو مساویانہ درجہ عطا فرماتے ہوئے جہاں اعضاء و جوارح برابر۔ برابر عطا فرمائے ہیں وہاں ہمزاد بھی تسیم سے باہر نہیں ہے ۔ اس لئے جہاں اور جس وقت انسان بشکل مولود شکم مادر سے اس دنیائے فانی میں آیا اسی وقت اور اسی ساعت میں اس مولود کے ہمزان نے اس کی رفاقت اختیار کی ۔ جوں ضون دن ، مہینے سال گزرتے رہے مولود کی پرورش ہوتی رہی وہ پلتا اور بڑھتا رہا اسی صورت اور اسی نوعیت سے اس کا ہمزاد بھی جسامت و قدامت اور قوت میں روز افزوں ترقی حاصل کرتا رہا ۔ بچپن کی منزل کو طے کرتا جب مولود جوانی کی حدود میں داخل ہوا تو اس مولود کا ہمزاد بھی طفلی کی منزلوں کو پھلانگتا ہوا جوانی کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور کسی طرح بھی اپنی تصویر ظاہری سے بے رخی اختیار نہیں کرتا تاآنکہ جب مولود نے اپنے سفر دنیا کی آخری منزل بھی طے کرلی اور راہ آخرت کی طرف گامزن ہوا تو ہمزاد بھی اپنے ساتھی کے ساتھ فنا ہوجاتا ہے
اب یہاں ایک بات واضح کرنا چاہوں گا کہ بہت سے عاملین کا کہنا ہے کہ ہمزاد انسان کے مرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہوتا۔ اور اسی مناسبت سے مردہ کے ہمزاد کی تسخیر کے اعمال بیان کئے جاتے ہیں ۔ لیکن میری تحقیق کے مطابق ہمزاد انسان کے مرنے کے ساتھ خود بھی فناہو جاتا ہے

اس بات سے ہر فرد واقف ہے کہ انسان کی تخلیق میں چار عناصر نمایاں کردار کے حامل ہیں یعنی مٹی ، آگ ، پانی اور ہوا لہٰذا یاد رکھیں کہ ہمزاد بھی اس تقسیم سے باہر نہیں ہے اس لحاظ سے ہمزاد کی اقسام بھی چار ہیں یعنی آتشی ، بادی آبی اور خاکی ۔ہمزاد کا نام سے گہرا تعلق ہے ہر ہمزاد بااسم ہوگا کوئی بغیر نام کے نہ ہوگا مثالی طریقہ پر اگر آپ کا نام محمد زبیر ہے تو آپ کے ہمزاد کا نام بھی محمد زبیر ہی ہوگا محمد فہد نہیں۔
اسی طرح سے یاد رکھیں کہ آپ کا ہمزاد بعینہ آپ کی شکل و صورت کا ہوگا یعنی نین و نقش ، چال ڈھال ، طور طریقہ ، انداز گفتگو سب آپ سے قطعی طور پر مطابقت کریں گے بال برابر بھی فرق نہ ہوگا بلکہ یوں سمجھ لیں کہ آپ کی کاپی ہوگا جیسے آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں ۔

بیشتر عاملین کا کہنا ہے کہ عمل ہمزاد ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے اور ہمزاد اس بات سے کبھی غافل نہیں رہتا کہ وہ موقع پا کر صاحب عمل کو ہلاک نہ کرڈالے یا پریشان کرتے کرتے قریب ہلاکت نہ پہنچا دے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔
لہٰذا ایک بات پھر تحریر کرنا چاہ رہا ہوں جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا تھا کہ ہمزاد اپنی تصویر ظاہری کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جب تک وہ تصویر ظاہری زندہ ہے ہمزاد زندہ ہے ۔ جب تصویر ظاہری (جسم) کی موت واقع ہوئی تصویر باطنی (ہمزاد) بھی فنا ہوجاتا ہے ۔ اب یہ غور طلب بات ہے کہ کیا کوئی خوشی سے اپنی مود کو خود دعوت دے گا ؟؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو تمام قارئین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں جس میں کسی نے زمانہ کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر نہیں بلکہ حالات کے سازگار ہوتے ہوئے خوشی سے اپنا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹا ہو ؟؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمزاد اپنے جسم کو جس کے ساتھ اس کی بھی زندگی وابستہ ہے فنا کرنے کے درپے ہوگا ؟؟ میرے نزدیک یہ بالکل غیر ممکن اور انہونی بات ہے اب میں آپ کی خدمت میں ہمزاد کی محبت کی ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہوئے بہ بانگ دہل اس امر کی دعوت دوں گا کہ جناب ! آپ کا ہمزاد ابھی آپ کا تابع فرمان نہیں ہوا ہے وہ کلیتہً آزاد ہے کوئی وجہ نہیں کہ وہ آپ کے حکم کی بلا چوں چرا مثل غلام کمترین تعمیل کرے لیکن نہیں ۔۔۔۔۔ وہ آپ کے فرمان کی تعمیل کرے گا اس لئے کہ وہ آپ کا ہمہ وقت کا ساتھی اور آپ سے محبت کرتا ہے آئیے تجربہ کریں ۔
آپ کو آج شب تین بجے اٹھنا ہے جگانے کی نہ تو کوئی سبیل ہے اور نہ سامان ۔۔۔ اس وقت آپ یہ کیجئے کہ تمام ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیجئے بستر طاہر پر بیٹھ کر تین مرتبہ پہلے درود شریف پڑھئے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ تین بار سورہ اخلاص کی تلاوت کیجئے ، پھر اسی طرح درود شریف پڑھئے ، اس کے بعد آہستہ آواز سے لیکن آواز کے ساتھ جس طرح کہ آپ اپنے مخاطب سے باتیں کرتے ہیں اپنی زبان سے اس جملہ کو ادا کیجئے ” اے فلاں (جو بھی آپ کا نام ہو ) مجھکو رات ٹھیک تین بجے آج شب میں جگا دینا۔ یہہ کہہ کر بغیر کسی سے کسی قسم کی گفتگو کئے ہوئے اسی بستر پر قوت ارادی میں کافی سے زیادہ استحکام پیدا کرتے ہوئے سوجائیے ۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ بغیر کسی کے جگائے ہوئے آپ ٹھیک تین بجے بیدا ر ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ آپ کے ہمزاد کی عنایت کے تحت ہوگا۔ یہ طریقہ کار گزشتہ کئی سالوں سے میرے روزمرہ کے معمولات سے ہیں۔
باقی آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تسخیر ہمزاد کے لئے کن کن باتوں سے واقف ہونا ضروری ہے ؟ کیا کیا شرائط ہیں؟ سلسلہ وار سب کچھ تحریر کرتے جائیںگے ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*