جعلی عاملین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فہرست

ہمیں کافی عرصہ سے لا تعداد قارئین کی ای میلز اور ٹیلی فون کالز موصول ہوتی رہی ہیں جن میں حالات کے ستائے ہوئے قارئین جعلی عاملوں کے ہاتھوں لٹنے کے واقعات بیان کرتے ہیں ۔ ادارہ روحانی علوم آن لائن روحانی میگزین ان واقعات کو کبھی بھی بیان نہ کرتا لیکن یہ مضمون عاملوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے افراد کے اصرار پر لکھا جا رہا ہے تاکہ ان کے واقعات اور حالات کو سمجھ کر دیگر لوگ خود کو لٹنے سے بچا سکیں ۔ ادارہ روحانی علوم کا یہ کام نہیں کہ کسی کو مورد الزام ٹھہرائے یا کسی کی طرف انگشت بلند کرے اس مضمون میں ہم نے اپنے ایسے قارئین کی ای میلز کو بنیاد بنایا ہے جو ان حالات سے گزرچکے ہیں اس تحریر کا مقصد کچھ حقائق آپ لوگوں کے سامنے رکھنا ہے تاکہ آپ لوگ خود فیصلہ کر سکیں ۔
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو بہت سارے آرام فراہم کئے ہیں وہیں یہ جدید ٹیکنالوجی عوام کو نقصان پہنچانے میں بھی بڑی تیزی سے کام کر رہی ہے ۔ آج انٹرنیٹ زندگی کا ایک ایسا جزو بن چکا ہے جس کے بغیر آج کے انسان کی زندگی نا مکمل نظر آتی ہے ۔ ہر دور میں ایسے افراد رہے ہیں جو انسانی نفسیات سے کھیلنے اور انہیں لوٹنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں ۔
یہی حال روحانیت کی دنیا کا بھی ہے ۔ اس میدان میں بھی آپ کو ایسے ایسے ماہر نشانہ باز ملیں گے جو انسانی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں آج ٹیلی وژن ، انٹرنیٹ ، رسائل اور اخبارات روحانی مسائل کے حل کے اشتہارات سے بھرے نظر آتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اشتہارات میں سب کچھ ایک جیسا ہی لکھا آپ کو ملے گا اور مزید لطف یہ عامل حضرات کے نام بھی تقریباََ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جیسے پیر شاہ صاحب ، بنگالی بابا ، جلالی بابا ، ابرار شاہ ،باسط شاہ، سائین شاہ وغیرہ ۔ لفظ شاہ کے بغیر عامل اپنا نام لکھنا توہین سمجھتا ہے (یہاں جعلی عاملین سے مراد ہے) ان اشتہارات میں دعوی کیا جاتا ہے وہ بھی تقریباََ ایک جیسا ہی ہوتا ہے مثلاً محبوب آپ کے قدموں میں ، میرا علم چلے سات سمندر پار۔ سنگدل محبوب آپ کے پاس ، محبت میں ناکامی ، مطلوبہ جگہ شادی ، مالی مشکلات ، اولاد حاصل کریں ، ہر کام میں کامیابی ، ہر کام بذریعہ موکلات و جنات کیا جاتا ہے، ہر کام میں اللہ کے فضل و کرم سے فوری حل کروائیے یہ تمام عامل یہ دعویٰ بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کو آج تک کبھی بھی کسی عمل میں ناکامی نہیں ہوئی ۔
حالانکہ ماہر علم الحروف جناب کاش البرنی مرحوم خود اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک ہی نقش ایک ہی وقت میں بنا کر ۱۰ افراد کو دیا ۹ جگہ پر نتائج برآمد ہوئے جبکہ دسویں جگہ موثر نہ رہا ، ایسا کیوں ہے ؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا اور یہی امر ربی ہے ۔
ہمارے قارئین کے بتائے ہوئے واقعات سے ان عاملوں کا طریقہ کار کا بھی پتہ چلتا ہے جو کچھ ایسی تصویر پیش کرتا ہے کہ ” ہم سے فری زائچہ ، استخارہ اور فری عملیات کروائیے ۔ عامل یہ بات جانتا ہے کہ جس نے بھی اس سے رابطہ کیا ہے وہ واقعی مشکل میں ہے عامل انسانی نفسیات بھی سمجھتا ہے وہ فوراً اس پریشان حال کو تسلی دیتا ہے کہ تم بالکل فکر نہ کرو میں تمہارے سب مسائل چٹکی بجا کر حل کر دوں گا۔ پھر عامل اپنی کامیابیوں کے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے جس سے مسائل میں گھرا انسان بہت متاثر ہوتا ہے اور اسے مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ یہ عامل ہی نظر آتا ہے عامل حالات کے ستائے ہوئے انسان کو یہ بھی کہے گا کہ میرے پاس وقت نہیں کیونکہ مجھے اور بھی ہزاروں لوگوں کے کام کرنے ہیں تمہارے زائچہ کو دیکھ کر اور پریشان حالی کو دیکھ کر میں صرف تمہاری ذات کے لئے وقت نکالوں گا عامل مزید کہتا ہے کہ تمہیں مشکلات سے نکالنے کے لئے مجھے موکلات کو حاضر کرنا پڑے گا اور تمہاری کامیابی کے لئے مجھے خود ایک مشکل ترین چلہ یا عمل کرنا پڑےگا یہ سارے کام کرنے کے لئے عامل بیان کرتا ہے کہ مولات کو حاضر کرنے کے لئے ان کی خدمت کرنا پڑے گی اس کے لئے کچھ رقم خرچ کرنا ہوگی اور رقم کافی اچھی تعداد میں طلب کی جاتی ہے ہمارے بعض کرم فرماؤں سے ۱۰۰۰ پاؤنڈ تک طلب کئے گئے ہیں پریشان حال شخص اس وقت تک عامل سے اتنا متاثر ہو چکا ہوتا ہے کہ بڑی رقم دئیے بغیر مسائل سے حل کی صورت نظر نہیں آتی ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد بھی جب دکھی انسان کو اپنا کوئی بھی مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا تو وہ اس کی شکایت عامل سے کرنے کی سوچتا ہے تو اس انسان کو پتہ چلتا ہے کہ جس فون پر وہ عامل سے رابطہ کیا کرتا تھا وہ فون نمبر اب ختم ہو چکا ہے یا پھر عامل صاحب ہی کہیں غائب ہو چکے ہیں ۔ واضح ہو کہ ایسے تمام اشتہارات زیادہ تر او ایل ایکس کی سائٹ یا دیگر فری بلاگ پرنظر آتے ہیں ۔
تھک ہار کر وہ انسان پھر اس عامل سے رابطہ ہی نہیں کرتا اور وہ دکھی انسان لاکھوں روپے گنوا کر بھی خود کو مسائل کے اندھیرے میں ہی پاتا ہے یہ تو تھی ان لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کی ایک جھلک ۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھیں کہ موکلات کی حاضرات بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ ہر فرد اس بات کا دعویدار ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن حضرات کے بارے میں مشہور تھا کہ عامل موکلات ہیں ان سے بذات خود ہم نے ملاقات اور  امتحان لیا ، سوائے زبانی کلامی دعووں کے کوئی حقیقت نہیں پائی ۔
اسی طرح علم الحاضرات کو جس قدر عام سمجھا جاتا ہے ، یہ اس قدر بھی عام نہیں کہ ہر فرد حاضرات کرتا پھرے ۔ ہاں شعبدات ضرور تیار کئے جا سکتے ہیں جیسے انگوٹھی کی حاضرات کا ایک شعبدہ تیار کیا جاتا ہے جس میں معمول کو واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی فلم نظر آ رہی ہو لیکن حقیقی حاضرات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
ہم نے بعض ویب سائٹس پر تو یہاں تک دیکھا کہ روحانی علوم ڈاٹ کام کے مضامین اٹھا کر ہی پیش کر دئیے گئے اور نیچے اپنا نام تحریر فرما کر ایک اشتہار چھاپ دیا گیا کہ استخارہ کروائیں ، جادو کا توڑ کروائیں وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض حضرات نے ہمارے ہی مضامین اٹھا کر ان مضامین کے نیچے کچھ اسطرح تحریر کردیا۔۔۔

"apne tmam masail ke hal ke leye abhi rabta kare maslan pasand ke shaadi mohabbat me nakami kisi bhe cheez ki fori bandish karna yane bandhna wagheera kisi bhi kam ka fore or patent hal ke leye abhi rabita karee or ziada se ziada sirf 7 dino me apne kam ka acha result hasil kare”

اب ہم یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب کوئی انسان درحقیقت مسائل کے حل کے لئے روحانی راہنمائی چاہتا ہے تو یہ متاثر انسان کیسے فیصلہ کرے کہ اپنے مسائل کے حل کے لئے وہ کس کے پاس جائے ؟۔ ہم قارئین کی خدمت میں کچھ باتیں بیان کرتے ہیں جو ان کو کسی حد تک اپنی ذات کے لئے فیصلہ کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔
روحانی علوم ڈاٹ کام کے علاوہ بھی چند ایسے ادارے اس سلسلے میں فعال نظر آتے ہیں جو بغیر کسی لالچ کے یہ کار خیر انجام دے رہے ہیں ۔
یاد رکھیں کہ تمام روحانی علوم ہم تک نیک ہستیوں کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں لہٰذا عامل کی پہلی شرط یہ ہے کہ تشہیر پسند نہ ہو ۔ دعویٰ نہ کرے کہ کیسا ہی مسئلہ کیوں نہ ہو فوری حل کر دے گا
کیونکہ یاد رکھیں کہ "کن فیکون” صرف وحدہ لا شریک کی ذات ہے ۔
قارئین روحانی علوم کی مدد وہاں لی جاتی ہے جہاں تمام فہم ہونے کے باوجود انسان کے کئے ہوئے فیصلے غلط ثابت ہونے لگتے ہیں ۔ جسطرح انسانی جسم کو بیماری سے صحت مند ہونے کے لئے ایک خاص طریقہ علاج سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح تمام روحانی مسائل کےحل کے لئےبھی کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں جن کو اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے جس طرح ایک بیمار جسم وقت گزرنے کے بعد صحت پاتا ہے اسی طرح روحانی اعمال کو اثر دکھانے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے علم روحانی کوئی جادو کی چھڑی نہیں یا الہ دین کا چراغ نہیں کہ وقت ضرورت جن باہر آکر تمام مسائل چٹکی میں حل کردے ۔
علم روحانی کا شعبہ میرے نزدیک سب سے مشکل ترین شعبہ ہے اور اس پر کچھ عبور پانے کے لئے سالوں کی ریاضت کی ضرورت ہے اس لئے ہر انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا  کہ وہ اس علم کو حاصل کر پائے ۔ دوسری طرف ہر وہ شخص جو روحانی علوم کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے یا جو بھی روحانیت سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے تو وہ یہ بات اچھی طرح جان لے کہ عملیات ایک ایسا دشوار راستہ ہے جو اس پر چلنے والے انسان سے سخت محنت ، صبر اور یقین مانگتا ہے ۔ بے یقینی عملیات کے لئے زہر ہے ۔ بے یقینی کے ساتھ تو کی جانے والی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ” بے یقینی کی عبادت سے تو بہتر ہے کہ انسان حالت یقین میں سوتا رہے ” ۔ اگر آپ کو روحانی علوم کی سچائی کا یقین نہیں ہے تو پھر آپ کے لئے تیار کیا گیا ہر عمل بے فائدہ ہو سکتا ہے ۔
عامل اور اس سے مسائل کا حل مانگنے والے انسان کا رشتہ ایسے ہے کہ جیسے کسی طبیب کا مریض سے ۔ جس طرح ایک قابل طبیب مرض کو مختلف علامات اور مخصوص اوزار کے ذریعے جانچ کر ایک نتیجہ پر پہنچ کر دوا تجویز کرتا ہے اسی طرح ایک عامل بھی روحانیت کے شعبہ اخبار جیسے جفر ، رمل نجوم وغیرہ سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اور ایک عامل کے یہی وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے وہ مرض کی شناخت کرتا ہے جس طرح مریض کے لئے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح عامل کی ہدایات پر بھی عمل لازمی ہوتا ہے آپ اپنی مرضی سے ان میں رد و بدل نہیں کر سکتے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ عملیات میں مقام عمل بھی سب سے اہم ہے اگر آپ ایسے ماحول میں عمل کرتے ہیں جو کہ ناپاک ہے تو پھر اس کا اثر ظاہر نہیں ہوتا۔
تعویذ یا الواح یا دیگر عملیات کی حیثیت ایسی ہے جیسے عدالت سے سزائے موت پانے والا ملک کے صدر سے رحم کی اپیل کرے ۔ رحم کی اپیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ۔ انسانی زندگی میں بھی جب قضا اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے تو پھر ایسے طریقوں کو اپنانا پڑتا ہے جو کہ عام دستور سے ہٹ کر ہوتے ہیں اور انہی طریقوں کو عملیات کہا جاتا ہے ۔ ہر دعا بھی درحقیقت ایک درخواست ہوتی ہے جس کو منظور کرنا یا نہ کرنا ذات اعلیٰ کی مرضی پر ہوتا ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ رحم کی اپیل اور دعا اگر مخصوص حالات اور طریقہ کو سامنے رکھ کر کی جا۴ے اور درخواست سننے والا یہ دعویٰ کرتا کہ ” مجھے پکارو کیونکہ میں تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں ، مجھے میرے اچھے اچھے ناموں سے پکارو”۔ میرے علاوہ کون ہے جو تمہارے اضطراب کو سکون بخشے ؟؟
تو جو ہستی اتنی قربت اور شفقت کا دعویٰ کرتی ہو اور اس کا ہر دعویٰ سچ ہو تو یقینا وہ اعمال یا تعویذات وغیرہ جن میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ، آیاتوں کا واسطہ دے کر حاجت طلب کی جا رہی ہو قبولیت کی منزل پر پہنچ ہی جاتی ہیں ۔اب آتے ہیں ان افراد کی طرف جو کہتے ہیں کہ چٹکی بجاتے ہی مسائل کا حل ہونا چاہئے ، تو معزز قارئین ۔۔۔۔۔ نہ آج کا عامل آصف بن برخیا ہے اور نہ ہی آج کا سائل تخت بلقیس کو مانگنے والے حضرت سلیمان ع۔ احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات دل کے سکون کے لئے کافی ہیں کہ ” اللہ کسی کے عمل کو قبول کرنے میں اس لئے تاخیر کردیتا ہے کہ اللہ کو سائل کے مانگنے کا طریقہ بہت پسند آتا ہے اور جب سائل بے قرار ہو کر بار بار سوال کرتا ہے تو اللہ فرشتوں کو کہتا ہے کہ یہ میرا بندہ جس بے قراری میں مجھ سے مانگتا ہے وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے ” اسی طرح حضرت علی ع کا قولب بھی بہت اطمینان دیتا ہے کہ جس میں آپ نے مانگنے کے طریقہ کو بیان کیا ، آپ فرماتے ہیں کہ ” تیرا طلب کرنا ایک صدا ہے اور یہ صدا تو ایسے در پر دے رہا ہے جو سب سے زیادہ سخی ہے، تو طلب کرنے سے خود کو مت روک یہ دروازہ ضرور کھلے گا "۔
جہاں اعمال میں لوازمات اعمال کی بات آتی ہے کیا عمل کرنے والوں نے نہیں پڑھا کہ خضوع و خشوع جزو اعمال ہیں ؟ پھر دعویٰ کیسا ؟
یاد رکھیں آپ خواہ کوئی نقش یا تعویذ تیار کر رہے ہوں یا اس کی متعلقہ پڑھائی جا ری ہو خضوع و خشوع اور انکساری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، دراصل آپ کی متعلقہ پڑھائی کسی کو حکم نہیں بلکہ بارگاہ خداوندی میں التجا ہوتی ہے اور التجا ہمیشہ سر کو جھکا کر انکساری کے عالم میں کی جاتی ہے ۔
امید ہے کہ یہ معلومات ہمارے قارئین کے علاوہ ان لوگوں کے لئے بھی راہنما ثابت ہوں گی جو روحانیت کے ذریعے اپنی زندگی کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*