Islam aur Roohani Ilaj | Mazhabi Nuqta e Nigah | اسلام اور علاج روحانی !!۔۔ مذہبی نقطہ نگاہ ؟؟

اسلام اور علاج روحانی

فہرست

ہر دور میں ہر علم کی تائید و تردید ہوتی رہی ہے یہی حال علوم روحانی کا بھی ہے ۔ ہمارے ہاں ایک طرز اختیار کرلیا گیا ہے کہ ہر بات کو اسلام اور قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، بسا اوقات بحث برائے بحث کا انبار لگ جاتا ہے اور نوبت ذاتی رنجشوں تک جا پہنچتی ہے ۔ میں نے نماز کے مسائل میں ان لوگوں کو بحث کرتے دیکھا ہے جو خود نماز کے پابند ہی نہیں ۔ کچھ ایسا ہی حال علوم روحانی کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے ۔
میں ان دنوں بیرون پاکستان مقیم ہوں ، وطن عزیز کی یاد اکثر پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھنے پر مجبور کرتی ہے ، اکثر پروگرامز آج کل جنات کی حقیقت ، سحر جادو کی حقیقت ، آسیب وغیرہ پر کئے جا رہے ہیں ۔ ان پروگرامز کو دیکھنے کے بعد ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ وطن عزیز میں یا صاحب فن ہے ہی نہیں یا ہے تو صرف وہ جو اس وقت پروگرام میں بطور مہمان تشریف فرما ہیں ۔ مجھے اس وقت ایک بات یاد آرہی ہے کہ اسی طرح ایک پروگرام میں ایک صاحب کو لایا گیا تھا جن کے ہاتھ پر ، پیشانی پر لفظ اللہ ابھر جاتا تھا ۔ ٹی وی پر پیش کرنے کے کچھ ہی دن بعد ایک اور خبر میں ان صاحب کو جعلسازی کے کیس میں ملوث پایا
اسی طرح میرے کئی واقف کار جو بیرون ملک پاکستان مقیم ہیں انہوں نے بھی کئی واقعات بیان کئے کہ ہم نے فون کیا اور کیا ہوا ؟؟ ، بوجہ خوف طوالت یہاں درج نہیں کر رہا ۔
میں کئی بار اس بات کو دہرا چکا ہوں کہ عمل کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ خدا کو توبہ نعوذباللہ مجبور کردیں گے ، بلکہ بذریعہ عمل اس کی بارگاہ میں اپنی حاجت کو پیش کرنا عمل کہلاتا ہے ، اب یہ وسیلہ چاہے نقش کی صورت میں ہو ، لوح کی صورت میں ہو یا کسی ورد کی صورت میں ۔

اب اگر موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسلام کی بات کریں تو تاریخ میں کئی ایسے شواہد ملتے ہیں کہ مجوزہ طریقہ علاج سے ہٹ کر علاج کیا گیا۔
اسلام سے پہلے عرب کے باشندے دفع امراض کے لئے جھاڑ پھونک اور سحر وغیرہ سے کام لیتے تھے ۔ اور اپنی عبادت گاہوں میں جا کر بتوں سے بھی صحت کی التجائیں کرتے تھے ۔ یہ جھاڑ پھونک کرنیوالے طرح طرح سے اپنے مقصد حاصل کرلیتے تھے ۔ گنڈے تعویذ بھی کرتے تھے اور خود بھی دیوتاؤں کے حضور میں اپنے مریضوں کی شفایابی کے لئے منتر جپتے تھے ۔ عربی کے مشہور شاعر جریز کا یہ واقعہ کتب تواریخ میں موجود ہے کہ اس نے اپنی بیٹی ام غیلان کی شادی ابلق نامی صاحر کے ساتھ اس وجہ سے کردی تھی کے اس نے جریز کو اپنے ساحرانہ طریقوں سے پتی کے مرض سے نجات دلائی تھی ۔
سلب مرض یعنی کسی مادی تدبیر کے بغیر روحانی طاقت سے مرض کو دور کردینا کم و بیش ہر مذہب میں پایا جاتا ہے ۔ مسلمانوں میں سلب مرض کا رواج عام ہے پچھتر فیصد مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مادوی دوائیں اور تدبیریں جس طرح امراض کو دور کرتی ہیں اسی طرح روحانی طاقتیں اس معاملہ میں کار فرما ہیں مسلمانوں کا عقیدہ جہاں تک ہمارا خیال ہے قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی ہے ۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدہا مواقع پر اپنی روحانی قوت سے سلب فرض فرمایا ۔ صحاح ستہ میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نے سلب مرض فرمایا اور مریض فوراً تندرست ہوگیا ۔ حضرت (ص) سلب مرض کے لئے لعاب دہن استعمال فرمایا کرتے تھے یا اپنے ہاتھ سے درد کی جگہ کو چھوتے یا کچھ دعا اور آیات قرآنی پڑھ کر دم فرماتے تھے چنانچہ مسلمانوں میں سلب مرض کے جو طریقے رائج ہیں ان میں محض قوت ارادی کے ساتھ ہاتوں کو جنبش دینا نہیں ہے بلکہ قوت ارادی کے ساتھ زبان سے بھی کچھ پڑھا جاتا ہے اور عقل کا تقاضا ہے کہ سلب مرض کا یہ طریقہ دوسرے طریقوں سے زیادہ موثر ہو ۔ کیونکہ سلب مرض اس صورت میں ممکن اور آسان ہے کہ مریض عامل پر پورا بھروسہ رکھتا ہو ، وہ چونکہ آیات قرآنی کو اللہ کا کلام سمجھتا ہے اس لئے عامل کے متعلق اس کا یہ عقیدہ راسخ ہوجاتا ہے کہ اس کے عمل میں اس کی روحانی قوت کے ساتھ خدا کے کلام کی قوت بھی شامل ہے کلام الہی کے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ شفاء ہے کیونکہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے ۔ بہرحال روحانی طاقتوں سے سلب مرض کا انکار جس طرح موجودہ تنویمی اور حیوانی مقناطیسیت کے تجربات کی روشنی میں نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مسلمانوں کے عقیدوں پر بھی انگلی اٹھانے کا کوئی موقع نہیں ہے ۔
ذیل میں چند واقعات معتبر کتابوں سے نقل کرتا ہوں جو امید ہے کہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے ۔

جنگ خیبر میں جب محاصرے نے طول کھینچا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو فوج کا سردار بناؤں گا جو قلعہ کو فتح کرکے رہیگا اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو بہت محبوب ہے دوسرے دن لوگ حضور(ص) کی خدمت میں حاضر تھے اور دل ہی دل میں کہہ رہے تھے کہ دیکھئے یہ سعادت کس کو نصیب ہوتی ہے۔ حضور(ص) نے حضرت علی (ع) کو یاد فرمایا ۔۔ عرض کیا گیا کہ انہیں آشوب چشم کی ایسی شکایت ہے کہ شرکت جنگ سے معذور ہے ۔ حضور(ص) نے فرمایا کہ کوئے جائے اور انہیں ساتھ لے آئے ۔ حکم کی تعمیل کی گئی ۔ حضرت علی (ع) حاضر ہوئے لیکن آنکھوں میں ایسی تکلیف تھی کہ سر نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ حضرت(ص) نے اپنا لعاب دہن حضرت علی (ع) کی آنکھوں پر لگا کر دعا فرمائی ۔ حضرت علی (ع) کی آنکھیں آن کی آن اچھی ہوگئیں کہ گویا کبھی انہیں شکایت ہی نہ تھی ۔ چنانچہ آپ کو علم دیا گیا اور خیبر کا قلعہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔

امام بخاری نے جنگ خیہبر کا ایک اور واقعہ صحیح بخاری میں نقل فرمایا ہے کہ یزید ابن عبید نے حضرت سلمہ کی پنڈلی میں تلوار کا نشان دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ جنگ خیبر میں یہ زخم آیا تھا اور مشہور ہوگیا تھا کہ میں ہلاک ہوگیا ہوں میں آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے تین دفعہ زخم پر دم کیا جس سے میں بالکل اچھا ہوگیا اور آج تک کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی ۔

جریر بن عبداللہ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میری جسمانی حالت ایسی تھی کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح نہیں بیٹھ سکتا تھا میں نے اپنی یہ معذوری آنحضرت(ص) سے عرض کی ۔ آپ نے میرے سینے پر دست مبارک سے تھپکی دی اور زبان اقدس سے فرمایا "اللھم ثبتہ واجعلہ ھاریا یا مھدیا”۔
اس کے بعد میں اچھی طرح گھوڑے پر سوار ہونے لگا اور مجھے کوئی تکلیف نہ ہوئی ۔

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات کو اگر درد کی شکایت ہوتی تو سرور عالم درد کی جگہ دست مبارک رکھ کر یہ دعا پڑھتے ۔
اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی الاشفاء ک لا یغادر سقما ۔

آنحضرت کے زمانے میں آنحضرت کے بعد صحابہ کرام بھی سلب مرض کیا کرتے تھے اور بعض اوقات ان کے عمل اور دعا کی برکت سے مہلک امراض دور ہوجاتے تھے ایک واقعہ صحاح ستہ میں میں درج ہے کہ چند صحابی سفر کر رہے تھے ۔ ایک بستی میں ان کا گزر ہوا انہوں نے چاہا کہ بستی والے ان کو اپنا مہمان بنائیں لیکن بستی والوں نے ان کو ٹھہرانے سے انکار کردیا اتفاق کی بات کہ اس بستی کے سردار کو سانپ نے کاٹا انہوں نے ہر ممکن تدبیر کی لیکن سردار شفایاب نہ ہوا وہ لوگ سراسیمہ ان اصحاب کے پاس آئے اور سب حال سنا کر کہا کہ تم لوگ کوئی تدبیر جانتے ہو تو بتاؤ ، ایک صحابی نے کہا میں سانپ کے کاٹے کا عمل جانتا ہوں لیکن تم لوگوں نے ہمارے ٹھہرانے سے انکار کیا ہے اس لئے میں اجرت لئے بغیر عمل نہیں پڑھوں گا آخر کار گفت شنید کے بعد تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا وہ صحابی مارگزیدہ کے پاس گئے اور سورہ الحمد پڑھ کر کاٹی ہوئی جگہ پر دم کرنے لگے تھوڑی دیر میں وہ شخص بالکل تندرست ہوگیا یا بے ہوش پڑا تھا یا چلنے پھرنے لگا۔ قرار داد کے مطابق بستی والوں نے تیس بکریاں پیش کیں ۔
ثواب و گناہ کو شمار کرنے والے حضرات اس دور کی تیس بکریوں کو موجودہ دور میں شمار کرکے موجودہ دور کے ہدیہ کی رقم اخذ کر سکتے ہیں ۔

بہرحال اسلام نے مرض اور دفع مرض کے متعلق ایک ایسا نقطہ اعتدال پیش کیا ہے جسے جتنا بھی سراہا جائے کم ہے ۔ دفع مرض کے لئے جہاں دعا یا تاثیر نفسی کو موثر مانا گیا ہے وہاں دوا کی افادیت کو بھی ہلکا نہیں رکھا گیا ۔

طب اسلامی اور طرز عمل

ظہور اسلام کے بعد جہاں اہل عرب کی زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب آیا وہاں طب اور طریقہ علاج نے بھی اپنا رخ بدلا سحر ٹوٹکے اور گنڈوں کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ ایک ایسے نقطہ اعتدال نے لے لی جو ہر طرح قابل ستائش تھی ۔ جو دعا اور دوا کے یکساں موثر ہونے کا علمبردار تھا ۔ پیغمبر اسلام اگرچہ کسی نئے طب کی ڈاغ بیل ڈالنے نہیں آئے تھے لیکن ان کے متوازن تفکر نے نہ صرف طب اور حفظ صحت کے متعلق معاشرتی اعتبار سے صحیح قسم کا زاویہ نگاہ پیش کیا بلکہ حقیقتاً علوم کا صحیح ذوق بھی العلم علمان ، علم الابدان و علم الادیان کہہ کر پیدا کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے علم الابدان کو کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالا اور اس میں آہستہ آہستہ ایسی ترقیاں کیں جو اب تک دنیا سے خراج تحسین وصول کر رہی ہے اور جن کی خوشہ چینی یورپ بھی ایک ہزار سال تک کرتا رہا ہے ۔
پیغمبر اسلام نے اگرچہ لکل دواءٍ دواء فرما کر طب کی ترقی کی بنیادوں کو مضبوط کر دیا تھا لیکن خود آپ نے تین طریق علاج ارشاد فرماتے تھے
شہد کا استعمال
حجامت بالنار
کئی یا داغنا

داغنے کے متعلق آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یا تو ترک کر دیا جائے یا بالکل کم کردیا جائے ۔

احادیث میں اونٹنی کا دودھ ، ایلوا ، شیر خشت وغیرہ دواؤں کا بھی ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آنکھ کی بیماریوں کے لئے سرمے اور زخموں سے خون کو روکنے کے لئے جلی ہوئی چٹائی کی راکھ بتائی ہے ۔ درد سر، آشوب چشم ، جذام، ذات الجنب، وبا اور بخار وغیرہ کا تذکرہ بھی احادیث میں ملتا ہے ۔ حضرت نے صحابیوں کو مشورہ دیا کہ وہ کسی ایسے ملک مین نہ جائیں جہاں وبا پھیلی ہوئی ہو ، اگر شہر یا قصبہ میں وبا پھیل جائے تو اس کو بھی نہ چھوڑیں ۔
آئندہ کوشش کروں گا کہ اس موضوع پر مزید کچھ پیش کر سکوں ۔

 

Islam aur Roohani Ilaj | Mazhabi Nuqta e Nigah | اسلام اور علاج روحانی !!۔۔ مذہبی نقطہ نگاہ ؟؟

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*