تیسری آنکھ(باطنی آنکھ) اور قرآن کریم ۔ سید نعمت علی نقوی

جب ہم اپنے بچپن کی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں تو بہت ساری معصوم یادیں ہمیں اپنی بانہوں میں لے لیتی ہیں۔ انہی معصوم یادوں کا ایک بہت بڑا حصہ وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں والدین یا گھر کا کوئی بزرگ سنایا کرتا تھا۔ ان کہانیوں کی طرف اگر ہم توجہ دیں تو ان میں کچھ کردار بہت واضح نظر آتے ہیں جیسے ایک شہزادی، شہزادہ، جادوگر یا جادوگرنی اور ایک آنکھ والی مخلوق۔ یہ ایک آنکھ والی مخلوق دو طرح سے کہانیوں میں نمودار ہوتی ہے۔ اول تو اس کی دو آنکھوں کے درمیان تیسری آنکھ ہوتی ہے یا پھر اس کی پیشانی کے وسط میں صرف ایک ہی آنکھ ہوتی۔

کہانی کے باقی کردار ہمیں حیران نہیں کرتے کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں ہمارے تخیل میں چھپے بیٹھے ہوتے تھے اور ان کا ذکر آنے پر ہمارا ذہن ان کا خاکہ بنا کر ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا تھا۔ سب سے زیادہ حیرانی ایک یا تین آنکھ والی مخلوق پر ہوتی ہے اور ہمارے بچپن کا معصوم سا ذہن اس کی درست تصویر نہیں بنا پاتا۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک یا تین آنکھ والی مخلوق بالغ انسان کے ذہن میں کہاں سے آئی۔ کیا یہ اس کی تخیل کی پیداوار ہے یا دنیا میں کہیں کسی انسان نے ایسی مخلوق کو دیکھا اور اسے دوسروں سے بیان کیا جو بعد میں کہانیوں کا کردار بنا۔ یہ تیسری آنکھ والی مخلوق جادوئی اور پراسرار قوتوں کی مالک ہوتی ہے۔

جو چیز اس مخلوق کو دیگر مخلوقات سے جدا اور بلند کرتی ہے وہ اس میں پائی جانی والی قوتیں ہیں اور ان قوتوں کا مظہر پیشانی کے درمیان میں تیسری یا ایک آنکھ ہے۔

آج کیوں نہ ہم اپنے بچپن کی معصومیت اور بلوغت کی داناائی اور ذہانت کو یکجا کر کے اس تیسری آنکھ کی حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

تمام انسان اور اس زمین پر نظر آنے والی دیگر مخلوقات اپنی بقا اور تحفظ کے لیے پانچ قوتوں کو استعمال کرتی ہیں جن میں دیکھنا، سونگھنا، چکھنا ، چھونا اور سننا شامل ہے۔ ان پانچ قوتوں کا مقصد انسان اور زمین کی دیگر مخلوقات کو وہ ضروری معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہوں اور وہ نقصان یا خطرات سے بھی محفوظ رہے۔ ہمیں زندگی میں اکثر ایسی صورتحال کا سامنا بھی ہوتا ہے کہ جہاں پر ان پانچ قوتوں کی معلومات سے ہٹ کر ہمیں کچھ اور محسوس ہوتا ہے۔ یہ اکثر مستقبل قریب میں ہونے والے کسی وقعہ یا حادثہ سے متعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم اس نامعلوم قوت  کے پیغام کو سمجھ لیں تو خود کو حادثات سے محفوظ رکھ پاتے ہیں۔ عام طور پر لوگ اسے چھٹی حس قرار دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس چھٹی حس کے ذریعے دیگر مخلوقات سے نہ صرف رابطہ کرتے ہیں بلکہ ان سے گفتگو بھی کرتے ہیں۔ مردہ لوگوں سے رابطہ اور بات کرنے کے لیے چھٹی حس کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

قدرت ہمیشہ انسان پر بہت مہربان رہی ہے اور قدم قدم پر اس پر اپنی سخاوت کی بارش کرتی نظر آتی ہے۔ قدرت نے انسان کو صرف پانچ قوتیں ہی عطا نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی انسان کو بہت سی عظیم قوتیں عطا کی ہیں۔ ہم انسان مادی بھاگ دوڑ میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ قدرت کی فیاضیوں کو کبھی استعمال نہیں کر پاتے اور آخر میں خالی ہاتھ قبر میں جا سوتے ہیں۔

ہمارے معاشرہ کا نظام ایسا ہے کہ اگر سائس یا میڈیکل کسی بات کی تصدیق کر دے تو ہم آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور کچھ لوگ اس کا اظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہم ان کی باتوں کو فضول قرار دے کر رد کر دیتے لیکن جب سائنس ان باتوں کی تصدییق کر دے تو پھر ہم اس کو سچائی مان لیتے ہیں۔

روحانیت سے تعلق رکھنے والے لوگ صدیوں سے انسانی جسم میں موجود مختلف قوتوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کا استعمال بھی بتاتے آئے ہیں لیکن ہم ان کو غیر حقیقی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ روحانیت جن باتوں کی نشاندہی صدیوں پہلے کر آئی آج کی سائنس اسے ہی ثابت کر رہی ہے۔ آج دنیا میں ہر طرف مراقبہ یا میڈیٹیشن پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ آج طب یہ ثابت کر رہی ہے کہ جو لوگ باقاعدہ میڈٹیشن کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر زندگی گذارتے ہیں اور کئی بیماریوں سے محفوظ بھی رہتے ہیں۔ مٹیٹیشن روحانی دنیا میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور صدیوں سے کی جا رہی ہے۔ چند سال قبل ماہرین طب نے اس کی افادیت بیان کی تو دنیا دیوانوں کی طرح اس کی طرف راغب ہو گئی۔ روحانی دنیا میں انسان صرف ہڈیوں اور گوشت کا ٹکڑا نہیں بلکہ کائنات کو تسخیر کرنے والی مخلوق ہے۔   

قدرت کی عطا کردہ قوتوں میں ایک قوت تیسری آنکھ ہے۔ روحانیت کی دنیا میں تیسری آنکھ کا تصور بہت قدیم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہر تہذیب اور مذہب میں تیسری آنکھ کا وجود ہے۔

تیسری آنکھ کیا ہے؟

تیسری آنکھ سے متعلق دو نظریات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کچھ کے نزدیک تیسری آنکھ ایک جسمانی وجود رکھتی ہے اور یہ وجود آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق تیسری آنکھ ایک روحانی قوت ہے جس کو بیدار کر کے ہم مختلف فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

 تیسری آنکھ کی وضاحت اکثر ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ یہ ایک اندرونی یا دماغی آنکھ ہے جو روح سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا مقام پیشانی کے وسط میں ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے انسان وہ چیزیں دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے جو اس کی جسمانی آنکھیں اسے نہیں دکھا پاتیں۔ تیسری آنکھ روحانیت کی بیداری اور کانئات کی تخلیقی قوت سے رابطہ پیدا کرتی ہے۔

ہمارے نزدیک دونوں نظریات ہی کسی نہ کسی حد تک درست ہیں۔ تیسری آنکھ ایک روحانی قوت بھی ہے اور جسمانی وجود بھی رکھتی ہے۔ جن لوگوں نے تیسری آنکھ کے متعلق لکھا انہوں نے ہمیشہ دو میں سے ایک ہی نظریہ کو اختیار کیا۔ ہم اپنے قارئین کے اس موضوع پر آج کچھ بہتر حقائق پیش کر رہے ہیں تاکہ انہیں اس قوت کو اختیار یا رد کرنے میں آسانی ہو۔

تیسری آنکھ اور انسانی ارتقاء:

ایک مشہور نظریئے کے مطابق انسان ارتقاء کی مختلف منازل طے کرتا ہوا مکمل ہوا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ دور کے ترقی یافتہ اور علم سے لیس انسان کی نسبت پہلی انسانی تہذیبیں تیسری آنکھ کو بہت اہمیت دیتی تھیں اور اسے شعور کی بیداری اور آسمانی قوتوں سے ربط کا ذریعہ قرار دیتی تھیں۔ جب ہم قدیم مجسمات اور کھنڈرات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت ساری چیزیں ملتی ہیں جو اس بات کی گواہی دیتی ہیں یہ قدیم دور کا انسان نہ صرف تیسری کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھا بلکہ اس کی افادیت بھی جانتا تھا۔ قدیم تہذیبوں میں تیسری آنکھ کو اکثرایسی ہستیوں سے منسوب کیا گیا جن کو اس دور کا انسان خدا یا دیوتا کا درجہ دیتا تھا۔

جن تہذیبوں میں تیسری آنکھ کے شواہد موجود ہیں ان میں مایا ، ایزٹیک، اولما، انکا، سمیرین اور مصری شامل ہیں۔ اسی طرح ایشاء میں ٹاؤ ، بدھ اور ہندو تہذیب میں بہت سارے شواہد تیسری آنکھ پر دلالت کرتے ہیں۔

مایا تہذیب کے کیلنڈر کو کچھ عرصہ قبل بہت شہرت ملی کہ سال 2000 شروع ہوتے ہی دنیا تباہ ہو جائے گی۔ مایا تہذیب میں ان کے بارش کے دیوتا کی پیشانی پر تیسری آنکھ ہے۔

thirdeye-1

اسی طرح مصری تہذیب میں ہورس اور را کی ایک آنکھ بہت مشہور ہے۔ اس ایک آنکھ کو تحفظ اور بادشاہی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
thirdeye-2

 سمیرین تہذیب میں تیسری آنکھ کو پائین کون یعنی پائین کے درخت کے پھل سے منسوب کیا گیا۔
thirdeye-3

عیسائی مذہب کے سب سے اہم شہر ویٹیکن میں بھی پائین کون کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب ہے۔
thirdeye-4

قدیم یونانی اور روم کے رہنے والے ایک ایسی مخلوق کے وجود کو تسلیم کرتے تھے جس کی پیشانی میں ایک آنکھ تھی۔ اس دیوہیکل مخلوق کو سائی کلاپس کہا جتا ہے۔
thirdeye-5

میکسیکو، کولمبیا، پیرو اور پانامہ میں بہت سارے مقامات پر تیسری آنکھ والے ہزاروں سال پرانے مجسمات دیکھے جا سکتے ہیں۔

تیسری آنکھ رکھنے والی مخلوقات:

اس وقت بھی دنیا میں ایسی مخلوقات ہیں جن کے جسم پر تیسری آنکھ موجود ہے۔ اگوانا نامی جانور کے سر پر تیسری آنکھ موجود ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے ٹواٹراس کے سر پر بھی تیسری آنکھ پائی جاتی ہے۔
thirdeye-6

تیسری آنکھ اور مذاہب:

دنیا کے تمام ہی بڑے مذاہب میں تیسری آنکھ کا ذکر کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ بدھ اورٹاؤ مذہب کے ماننے والے تیسری آنکھ کے وجود پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔

ہندو مذہب میں تیسری آنکھ کو ان کے دیوتا شیوا اور کرشنا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب میں تیسری آنکھ کو اجنا کے مقام پر دکھایا جاتا ہے۔

thirdeye-7

یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتاب بائبل کی کتاب میتھیو کے جز 6 میں بھی تیسری آنکھ کا ذکر ملتا ہے۔

تیسری آنکھ کا قرآن کریم میں ذکر:

سب مقدس کتابوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کے ماننے والے صرف ان کے عمومی مفہوم کی طرف ہی توجہ دیتے ہیں۔ قرآن کریم اس المیہ سے سب زیادہ متاثر ہے۔ قرآن کریم واحد الہامی کتاب ہے جس کا دعوی ہے کہ اس میں ہر شے کا علم موجود ہے۔ لیکن اس کتاب کو ماننے والے اس کو ایک مقدس کتاب سمجھ کر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور کبھی اس کی آیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کتاب کو ماننے والوں کی حالت کا ذکر اللہ تعالی نے سورہ الفرقان کی آیت 30 میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِى اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا

اور رسول(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔

دیکھا جائے تو مسلمان معاشرہ میں لاکھوں حافظ قرآن ہیں۔ اسی طرح قرآن کے قاری اور تفاسیر بیان کرنے اور لکھنے والے بھی لاتعداد ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں قرآن کریم کو رحمت و برکت کا سبب جان کر رکھا جاتا ہے اور بالخصوص ماہ رمضان بہت زیادہ پڑھا بھی جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم روز قیامت اللہ تعالی سے شکایت کریں گے کہ ان(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی امت نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت کی قرآن فہمی اور قرآن کی تلاوت کی نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی آیات پر ہماری سمجھ ناقص ہے اور اس کا بنیادی سبب تدبر اور غور و فکر سے فرار ہے۔ جو کچھ منبر پر بیٹھا بتا دے مسلمان قوم اسے ہی دین اور حکم الہی سمجھ کر قبول کر لیتی ہے اور کبھی یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو ہمیں بتا رہا اس کا اپنا علم محدود ہو یا وہ اپنی من مانی تاویل بیان کر رہا ہو۔ وضو سے لے کر نماز اور حج و زکات ہر معاملہ میں علمائے دین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

اگر کسی مسلمان سے یہ کہا جائے کہ قرآن کریم میں تیسری آنکھ اور سات چکرا کا ذکر موجود ہے تو  فوری طور پر اسے کفر کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ایسی لاتعداد آیات ہیں جن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ کتاب اہل عقل اور غور فکر کرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔

آئیے اس سلسلہ میں کچھ آیات کو دیکھتے ہیں۔

سورہ الاعراف آیت 198 میں کہا جا رہا ہے کہ

وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ

بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے.

اس آیت سے پتہ چلا کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھنے اور ان کے پیغام الہی کو سمجھنے کے لیے جسمانی آنکھ نہیں بلکہ روحانی آنکھ کی ضرورت ہے کیونکہ اس معاشرہ کے لوگ نبی کریم صل اللہ و علیہ وسلم کو صرف جسمانی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اور جسمانی کانوں سے سن رہے تھے جبکہ اللہ تعالی کے حکم کو سمجھنے کی اہلیت اسی میں تھی جس نے اپنی روحانی آنکھ اور روحانی سماعت کو بیدار کر رکھا تھا۔

پھر سورہ یونس کی آیت 43 میں ہے کہ

وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ

اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ تمہاری طرف دیکھتے ہیں کیا تم اندھوں کو راہ دکھا دوگے اگر کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں

اس آیت نے پھر ثابت کر دیا کہ نبی کریم کی پہچان اور معرفت کے ساتھ حکم الہی کو سمجھنے کے لیے جسمانی آنکھ نہیں بلکہ روحانی یا اندرونی آنکھ کا روشن ہونا ضروری ہے۔ وہ لوگ جو نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صرف جسمانی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اللہ تعالی ان کو اندھا کہہ رہا ہے۔

سورہ ص کی آیت 45 میں اللہ تعالی اپنے ان انبیاء کا ذکر کر رہا ہے کہ جو اہل بصارت تھے۔

. وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ

اور ہمارے بندوں ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کر جو ہاتھو ں اور آنکھوں والے تھے

اللہ کے یہ تمام مقدس نبی آنکھیں رکھتے تھے پھراللہ بالخصوص کیوں ان کی آنکھوں کا ذکر کر رہا ہے۔ ان انبیاء میں جب ہم حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام کی جسمانی آنکھوں کی روشنی اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے غم میں رو رو کر ختم ہو گئی تھی جسے اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قیمض کے صدقہ میں بحال فرما دیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دیگر ابنیاء کے ساتھ ذکر اس بات پر مزید دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی جسمانی آنکھوں کی نہیں بلکہ روحانی یا اندرونی بصارت کی بات کر رہا ہے۔

سورہ الانعام آیت 104 میں ارشاد ہے کہ

. قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ

تحقیق تمہارے ہاں تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں آ چکی ہیں پھر جس نے دیکھ لیا تو خود ہی نفع اٹھایا اور جو اندھا رہا سو اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں

اس آیت میں اللہ تعالی ایسے دو لوگوں کا حال بیان فرما رہے ہیں۔ ایک وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر ان سے فائدہ اٹھایا اور دوسرے وہ لوگ جو آنکھیں ہونے کے باوجود اندھے رہے کیونکہ وہ اللہ کی نشانیوں کو پہچان نہیں سکے۔ یہاں یہ بات معلوم ہوئی کی اللہ کی نشانیوں کو جسمانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے بھی روحانی بصارت لازمی ہے۔

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں

سورہ الاعراف کی آیت 179 میں اللہ تعالی ایسی مخلوقات کا حال بیان فرما رہا ہے کہ جن کے پاس جسمانی بصارت اور سماعت تھی لیکن وہ حکم الہی کو پہچان نہ پائے اس لیے اللہ اس مخلوق کو اندھا اور بہرا کہا اور ان کو جہنم میں ڈال دیا۔ یہ آیت اس بات پر بھی غور کی دعوت دیتی ہے کہ ہر مخلوق کی روحانی بصارت کا بیدار ہونا ضروری ہے ورنہ وہ جہنم میں جلے گی۔ جن مخلوقات نے اپنی روحانی بصارت، فہم اور سماعت کو اجاگر نہیں کیا اللہ نے انہیں جانوروں سے بھی کم درجہ دیا ہے۔

تیسری آنکھ جسمانی یا روحانی؟

جیسا کہ پہلے تحریر کیا کہ تیسری آنکھ پر آج تک جو کچھ لکھا یا کہا گیا وہ دو حصوں میں تقسیم  ہے۔ درحقیقت تیسری آنکھ جسمانی اور روحانی وجود رکھتی ہے اور کا تعلق انسان کے دماغ سے ہے۔ اگر ہم انسانی دماغ کو دیکھیں تو اس میں آنکھ کی شکل بالکل واضح نظر آتی ہے۔ اس کو مزید واضح کرنے کے لیے انسانی دماغ کی اندرونی تصویر یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
thirdeye-8

 

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدرت نے انسانی دماغ کے اندر آنکھ کا عکس کیوں پیدا کیا۔ کیا یہ ہم انسانوں کو کوئی پیغام ہے کہ دماغ صرف سوچنے کی ایک مشین نہیں بلکہ اس کا کام کچھ اور بھی ہے۔

تیسری آنکھ دماغ میں کہاں ہے؟

آج سائنس اور طب اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ اگر انسان اپنی دماغی صلاحیتوں کو سمجھ لے اور روز کچھ ایسی چیزوں کو اختیار کرے جو اس کی دماغی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں تو کچھ ہی عرصہ میں انسان اس قابل ہو جاتا ہے وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے اور پھر وہ ایک بہتر انسان کے طور پر زندگی بسر کرتا ہے۔ تیسری آنکھ کو طب کی اصطلاح میں ” پینیل گلینڈ ” کہتے ہیں۔ یہ ہمارے دماغ میں پایا جانے والا ایک ایسا جز ہے جو جسم کو بہت سارے فوائد دینے کے ساتھ ساتھ انسان کو روحانی دنیا سے جوڑتا ہے۔ جو انسان ” پینیل گلینڈ ” کو بیدار کر لے پھر اس کا تعلق اس کائنات کی ایسی قوتوں سے ہو جاتا ہے جو اسے ماضی، حال اور مستقبل کے حالات خواب، وجدان یا الہام کی شکل میں اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

 

کیا تیسری آنکھ کا بیدار کرنا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟

کچھ کے نزدیک اگر کوئی انسان روحانی طور پر مضبوط نہیں ہے تو پھر تیسری آنکھ کو بیدار کرنا اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ تیسری آنکھ بیدار ہونے کے بعد انسان کا تعلق کائنات کی عظیم قوتوں سے ہوتا ہے اور اگر کوئی انسان روحانی طور پر مضبوط نہیں تو پھر اس دنیا کی حقیقت اور دوسری دنیاوں میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتا اور ذہنی طور پر غیر متوازن ہو جاتا ہے۔

جو لوگ روحانی طور پر بیدار نہیں ہوتے اگر وہ اپنی تیسری آنکھ کو بیدار کر لیں تو پھر اکثر ان کو بہت ڈرا دینے والے خوابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  اس کے ساتھ ایسے لوگوں کو ایسی مخلوقات بھی دکھائی دینے لگتی ہیں جن کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ پاتی اور یہ مخلوقات اکثر نقصان پہنچاتی ہیں۔

تیسری آنکھ بیدار ہونے کی کیا علامات ہیں؟

وہ لوگ کو کافی عرصہ سے مراقبہ یا میڈیٹیشن کرتے ہیں بعض اوقات ان میں تیسری آنکھ کے بیدار ہونے کی کچھ علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ یہاں کچھ اہم علامات پیش کی جا رہی ہیں:

دونوں آنکھوں کے درمیان بھاری پن یا حساسیت کا محسوس ہونا

وجدان کی قوت میں اضافہ

مستقبل قریب میں ہونے والے اہم واقعات کا علم

رنگوں کا زیادہ روشن نظر آنا

صبر کی قوت میں اضافہ

سر درد کی شکایت

بہتر کھانے کی طرف رغبت

زندگی کے معاملات اور مسائل کا نئے انداز سے سامنے آنا

سوچ کا محور بدلنا

خوابوں کا کثرت سے آنا

ذہنی قوت میں اضافہ

 

تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کے طریقے:

دینا کے مختلف مذاہب اور معاشروں میں تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کے بہت سارے طریقے رائج ہیں۔ ہر طریقہ اپنے اندر افادیت رکھنے کا دعوی کرتا ہے۔ تیسری آنکھ کو بیدار کرنے میں جن طریقوں کو کافی شہرت ملی ہے ان میں اکثریت کا تعلق بدھ یا ہندو مذہب سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی معاشرہ میں بھی تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کے کئی قواعد موجود ہیں۔ اگر ہم ان تمام طریقوں سے ایک جامع نتیجہ اخذ کریں تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے:

تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے پہلے انسانی جسم میں قوت کے مراکز یعنی چکرا کو متوازن کرنا ضروری ہے۔

روزانہ کی مشق کرنے سے انسان تیسری آنکھ کو بیدار کر لیتا ہے۔

مراقبہ یا میڈیٹیشن تیسری آنکھ کو بیدار کرنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

توجہ کا مرکز دونوں آنکھوں کے درمیان والا مقام ہونا چاہیے۔

تیسری آنکھ کے چکرا سے منسوب مخصوص رنگ کے پتھروں کا استعمال کیا جائے

اس مقصد کے لیے مختلف بخور کا استعمال بھی بہت موثر ہوتا ہے۔

ہلدی یا چندن کو دونوں آنکھوں میں لگانے سے بھی تیسری آنکھ بیدار ہو سکتی ہے۔

ایسی چیزوں کا استعمال ترک کر دیا جائے جن میں فلورائیڈ ہوتا ہے۔

کھانے میں ایسی اشیاء شامل کی جائیں جو معدہ پر بوجھ نہ ہوں۔

 ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے کوئی بھی انسان تیسری آنکھ کو بیدار کر لیتا ہے۔

 

تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کا اسلامی روحانی طریقہ:

اس کائنات کے خالق نے انسانوں کے لیے مذہب کی صورت میں جو نظام ہدایت بیھجا اس کا مقصد انسان کو روح کی بلندی عطا کرنا ہے۔ مذہب انسان کی جسمانی نہیں بلکہ روحانی تربیت کرتا ہے کہ انسان اپنی روح کو بلند مقام پر لے جائے جہاں پر وہ تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ تیسری آنکھ کی بیداری سے انسان اپنے پیدا ہونے کی وجہ جان لیتا ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اسے جسم ایک لباس کے طور پر دیا گیا ہے درحقیقت وہ ایک روحانی قوت ہے جسے اللہ نے فنا ہونے کے لیے پیدا نہیں کیا۔

جو قرآنی آیات ہم نے پہلے پیش کیں ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کا اصل مقصد اپنے اندر ایسی قوت کو بیدار کرنا ہے جو اسے جانوروں سے الگ کر دے کیونکہ آیات قرآنی کے مطابق جو لوگ اپنے اندرونی قوت کو بیدار نہیں کرتے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔

تیسری آنکھ کو بیدار کرنے سے انسان پر زندگی اور مستقبل کے بہت سارے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ اس مقام پر آ جاتا ہے کہ جہاں کائنات میں موجود ہر قوت اس کی مرضی کے مطابق چلنے لگتی ہے۔ اس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اب ہم اپنے قارئین کے لیے تیسری آنکھ کو بیدار کرنے کا اسلامی روحانی عمل پیش کرتے ہیں۔ کوشش یہ کیا کریں کہ بیداری کے اکثر اوقات میں حالت وضو میں رہیں۔ ایک الگ مقام تلاش کر لیں جہاں دوران عمل کوئی آپ کے کام میں مخل نہ ہو سکے۔ یہ عمل رات سوتے وقت کرنا ہے اور عمل کے بعد کسی سے بات کئے بنا سو جانا ہے۔   

صاف اور کھلے کپڑے پہن کر وضو کر کے آرام دہ مقام بیٹھ جائیں۔ آپ کی کمر سیدھی ہو لیکن اتنی سیدھی بھی نہیں کہ آپ کو درد ہونے لگے۔ کمرے میں اچھا سا بخور سلگا لیں جو دماغ کے سکون کا باعث ہو۔ بخور اتنا ہو کہ دروان عمل جلتا رہے۔ اس عمل کے لیے دن مقرر نہیں، عمل اس وقت تک جاری رہے جب تک آپ کی تیسری آنکھ بیدار نہ ہو جائے اور اس کا اشارہ آپ کو وجدان یا خواب کی صورت میں ہونے لگے گا۔

یہاں درود پاک کی جو عبارت دی جا رہی ہے اس پہلے زبانی یاد کر لیں۔ جب یہ درود پاک آپ کو زبانی یاد ہو جائے تو کسی بھی نئے چاند کی پہلی جمعرات سے عمل کا آغاز کریں۔ درود پاک کی عبارت یہ ہے:
durood-e-noor

جب آپ نے عمل کا آغاز کرنا ہو تو آنکھیں بند کر کے معمول کی سانس لیں۔ چند منٹ تک اپنی سانس پر توجہ مرکوز رکھیں لیکن سانس کو خود سے تیز یا ہلکا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ دو سے تین منٹ بعد آپ کی سانس خود ہی ہلکی ہونے لگے گی۔ اس کے ساتھ ہی آپ اپنی ساری توجہ پیشانی پر دونوں آنکھوں کے درمیان مرکوز کر دیں۔ یہ تصور رکھیں کہ وہاں پر ایک نور کا دائرہ ہے جو بہت زیادہ روشن ہے۔ اب آپ نے دئیے گئے درود پاک کی تلاوت شروع کر دینی ہے۔ اس درود پاک کو 101 بار ورد کریں۔ ورد کے کچھ دنوں بعد آپ کو خواب میں یا وجدان میں کچھ واقعات کی طرف اشارہ ہو گا جو کے کچھ گھنٹوں یا دنوں میں واقع ہو جائیں گے۔ خواب آپ کو بہت آنا شروع ہو جائیں گے۔ اپنے خوابوں پر خاص توجہ دیں۔ ان خوابوں میں آپ کے لیے کوئی نہ کوئی پیغام ہو گا۔ شروع میں خواب بظاہر کوئی مطلب نہیں رکھتے ہوں گے لیکن جیسے جیسے آپ اس عمل کو کرتے جائیں گے خواب زیادہ واضح اور بامعنی ہو جائیں گے۔

اس مشق کو جاری رکھتے ہوئے آپ اس مقام پر آ جائیں گے کہ آنکھیں بند کرکے توجہ مرکوز کرنے سے آپ کسی بھی معاملہ کی حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔ مسائل کا حل بھی اسی عمل سے لیا جا سکتا ہے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*