جشن عید میلاد النبی ﷺاز قلم سید نعمت علی نقوی ، اسپین۔

فہرست

روحانی علوم کے قارئین کو جشن عید میلاد النبی بہت بہت مبارک ہو۔ خوشیوں بھرے اس عظیم دن کی مناسبت سے یہ گناہ گار اور ناچیز اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے اپنے کچھ جذبات ٹوٹے پھوٹے الفاظ  میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بالکل درست ہو گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے اسی طرح اس کا سب سے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی بے عیب اور بے مثل ہے لہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان میں کچھ کہنا کسی کے بس میں نہیں اسی طرح نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بھی کچھ نہیں بیان کیا جا سکتا۔ یہ نبی اعظم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور مودۃ کا جذبہ ہے جو ذہن میں کچھ الفاظ ڈال دیتا ہے جسے انسان تحریر میں لا پاتا ہے ورنہ روز ازل سے لے کر روز ابد تک کے تمام دماغ اورتمام مقرب فرشتے اور انبیاء کرام مل کر بھی نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ایک لفظ نہیں لکھ سکتے۔ امید کرتا ہوں کہ اس حقیر کی یہ ادنی سی کاوش آپ لوگوں کے ذہنوں میں سوچ کے نئے در کھولنے کا ذریعہ بنے گی۔

اللہ واحد ہے اس لیے اس نے اپنے آخری نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی واحد ہونا پسند کیا۔ اللہ کو اپنے حبیب سے کسی کی ہمسری قبول نہیں اس لیے اللہ نے حضرت عبداللہ علیہ السلام کو ایک ہی اولاد دی کہ کوئی اور یہ بات نہ کہہ سکے کہ میں بھی عبداللہ علیہ السلام کی اولاد ہوں اور میں بھی محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا ہوں۔ ذات واحد نے اپنی صفت واحدانیت کا اظہار نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو واحد بنا کر کیا۔ اللہ نے اولاد اسمعاعیل علیہ السلام سے اس نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نبی نہیں بھیجا۔ اللہ کو گوارہ نہیں کہ کوئی اورنبی یہ کہتا کہ میں بھی اولاد اسماعیل علیہ السلام سے ہوں اس لیے میری بھی وہی عزت اور مقام ہے جو محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے ۔

قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر ایسی آیات موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر ہر الہامی کتاب میں موجود ہے۔ اول تو ہم مسلمان قرآن کو پڑھتے نہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ اس پر غوروفکر نہیں کرتے صرف ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے جبکہ قرآن کریم بار بار کہتا ہے کہ اس میں اہل عقل وشعور کے لیے نشایناں ہیں۔ جہاں ہم نے مذہب کو ملاں کے ہاتھ میں دے دیا ہے وہیں ہماری معرفت نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی صرف ملاں کی عقل تک محدود ہے۔ بر فرقہ کا ملاں الگ سوچ اور ذہن کا مالک ہے اسی طرح ہر فرقہ کا نبی کا تصور اور ایمان ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ایک کے نزدیک نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم مجسم نور تو دوسرے کے نزدیک بشر۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایک ہی نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمت عالمین بنایا پھر ہم نے یہ تقسیم کیوں کر دی ۔ میری اس حقیر کاوش کا مقصد کسی کی اصلاح کرنا نہیں ہے کیونکہ ہدایت اور اصلاح کے لیے انسان کے دل اور دماغ میں وہ مادہ ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو پہچان لے۔ آج انٹرنیٹ پر کون سی کتاب اوراس کا ترجمہ موجود نہیں۔ ہم دنیا بھر کی لغویات تو گھنٹوں کے حساب سے تلاش کرتے ہیں لیکن دینا و آخرت کی نجات کے لیے سب کچھ ملاں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔  نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تذکرہ الہامی کتابوں کے ساتھ ساتھ صحف میں موجود ہے۔  ملاں کی تنگ نظری اور علم سے فرار کی عادت نے مسلمان قوم کو حق تک جانے نہیں دیا اور حق کو مسلمان قوم تک آنے نہیں دیا۔ اس نے ڈر کے ایسے خوفناک جال پھیلا رکھے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور تعصب کے اس جال کو کاٹنے کی بجائے اس میں قید ہو کر خوش ہے۔  اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم تک ایک ہی مذہب بیان کیا ہے جو ‘اسلام’ ہے لیکن ہم زمین والوں نے اسلام کو الگ الگ روپ دے دئیے۔ ابلیس کا کاروبار دنیا کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے سے چلتا ہے اور اس تقسیم کے لیے مذہب سب سے موثر ہتھیار ہے۔ ابلیس نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اپنے چیلے میدان میں اتار رکھے ہیں جن میں ملاں اس کی اہم ترین قوت ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم قرآن کو اس طرح پڑھتے کہ ایک آیت کو پڑھا پھر اس کا ترجمہ عربی سے اردو والی لغت میں لفظ بہ لفظ دیکھا اور پھر ایک آیت کے الفاظ کو قرآن کی سوفٹ وئیر یا انٹرنیٹ سے قرآن براؤزر میں تلاش کرتے تاکہ ہمیں یہ علم تو ہوپاتا کہ قرآن میں کہا کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید قیامت تک کے لیے ایسے اصول و ضوابط لے کر آیا ہے جو ہر دور کے انسان کی زندگی کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہم قرآن کی روشنی میں سفر کرنے کی بجائے اندھوں کی طرح ادھر ادھر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

قرآن کریم میں سورہ طہ کی آیت 133 میں ارشاد رب العالمین ہے کہ ” انھوں نے کہا کہ یہ نبی ہمارے پاس اپنے پرودگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لایا، کیا ان کے پاس صحف اولیٰ کی واضح دلیل نہیں پہنچی ”۔ یہاں پر آیت میں لفظ ” صحف الاولی ” استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ”کتاب” اردو زبان میں غلط کیا جاتا ہے۔ قرآن کا ہر لفظ مقصد کے مطابق استعمال ہوا ہے۔ جہاں کتاب کی ضرورت تھی وہاں کتاب لکھا گیا ہے لیکن افسوس کہ ہم اپنی کم علمی سے کتاب اور صحیفہ کا فرق جاننے یا بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس آیت نے ایک اور بات کی نشاندہی کر دی کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں ایسی اقوام موجود تھیں جن کے پاس چار الہامی کتابوں کے علاوہ صحیفے موجود تھے۔ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اقوام آج کہاں ہیں اور ان کے صحیفے کیا کہتے ہیں۔ یہ سب جاننا اس لیے ضروری ہے تا کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں ہماری معرفت اور محبت میں اضافہ ہو اور اس کے وسیلہ سے معرفت الہی بڑھے تاکہ ہم آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ نبیں۔ انجیل میں نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کبھی فارقلیط کہہ کر کروایا گیا اور کبھی احمد اور بلد الامین کہہ کر مقام بعثت کی پہچان کروائی ہے۔

قرآن اللہ کا پیغام قیامت تک کی انسانیت کے لیے ہے۔ اللہ کا یہ پیغام کسی تحریر کی صورت میں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ یہ پیغام زبانی پہنچایا گیا۔ اللہ کو اپنے رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذہن پر یقین کامل کہ میرا رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بھولے گا نہیں اور اللہ کو اپنے رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان کی صداقت پر مکمل اعتبار اس لیے کاغذ  یا کسی اور چیز پر لکھ کر نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم تک نہیں پہنچایا۔ جو زبان رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکلے وہی حکم الہی بنے۔ رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کلام کرتے جائیں اور قرآن کی آیات کتابی صورت میں تحریر ہوتی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پوری انسانیت کے لیے قیامت تک ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام انسانیت پر مبعوث کیا۔ معاشرہ میں رہنے والے انسانوں کی ذہنی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی، کوئی بہت ذہین تو کوئی کند دماغ، کوئی پڑھا لکھا تو کوئی ان پڑھ اس طرح قیامت تک آنے والے انسان کی ذہنی صلاحیت اور ذہانت کا میعار الگ الگ ہے۔  نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کلام الہی کو ایسے اسلوب میں بیان کیا کہ ہر دور کا انسان اللہ کے پیٖغام کو سمجھ لے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام جسے قرآن مجید کہا جاتا وہ صرف نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمد اور ان کے دشمنوں پر نفرین ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پورے قرآن میں اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی حمد و ثناء کرتا نظر آتا ہے اور دوسری طرف اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں پر غضب کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سورہ حجرات آیت 1-2  میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ اور رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو یعنی جو اللہ اور رسول حکم دیں اسے مان لو۔ نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرنا اور نبی کو اس طرح مت پکارنا جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ میرا نبی تم جیسا نہیں اس لیے تم اس کو اپنے جیسا سمجھ کر مت پکارو۔ اگر تم نے میرے حبیب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو اپنے جیسا سمجھ کر پکارا تو میں اللہ تمھارے اعمال ضائع کر دوں گا۔ تمھاری نمازیں،روزے ، حج سب منہ پر دے ماروں گا۔

اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  40 سال کی عمر سے پہلے نبی تھے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ حکمت والا ہے وہ جانتا ہے کہ کس معاشرہ کی ہدایت کس انداز میں کرنا بہتر ہے۔ دینا میں اکثر تعلیمی اداروں میں پہلے تھیوری یا نظریہ پڑھایا جاتا ہے اور بعد میں پریکٹیکل یا عملی مشاہدہ کروایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار ایسی جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہاں علم سے کچھ شناسائی ہو اور اس چیز کے بارے میں کچھ ذہنی تربیت ہو۔  نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسے معاشرہ میں آئے جو بت پرست تھا اور جو چھوٹی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگتے تھے ایسے معاشرہ میں توحید کا پیغام دینے کے لیے یہ ضروری تھا کہ جب اس معاشرہ کو توحید کا زبانی پیغام دیا جائے تو وہ اسے رد نہ کر سکیں کیونکہ اس کے سامنے اس پیغام توحید کا عملی مظہر موجود ہے۔ قرآن کریم میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی عرب جن بتوں کی عبادت کرتے تھے ان بتوں کے عیب بیان کیے ہیں۔ عرب کہہ سکتے تھے کہ اے محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم ہمارے خداؤں میں عیب نکالتے ہو تم اپنے خدا کو لاؤ ھم اس میں عیب نکالتے ہیں لیکن تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ عرب کے بت پرستوں نے ایسا کہا ہو کیونکہ وہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چالیس سالہ زندگی کا عملی مشاہدہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ جب محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کردار میں کوئی عیب نہیں ہے تو پھر اس کے خدا میں بھی کوئی عیب نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے مختلف انبیاء کے اختیارات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اذن کا ذکر تفصیل سے ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت 110 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دئیے گیے اختیار کو ذکر یوں کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اذن اللہ یعنی اللہ کے اختیار یا حکم سے مٹی سے پرندہ بناتے پھر اللہ سے اذن طلب کرتے تو مٹی سے بنا ہوا پرندہ زندہ ہو کر اڑ جاتا اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام اللہ سے اذن لے کر اندھے کو بینائی عطا کر دیتے مزید عیسیٰ عیلہ السلام اللہ سے اذن لے کر کوڑ کے مریض کو شفاء دیتے اور پھر عیسیٰ عیلہ السلام اللہ سے اذن لے کر مردوں کو زندہ کر دیتے۔ عیسیٰ علیہ السلام جیسا عظیم نبی قدم قدم پر اذن الہی کا محتاج ہے۔ لیکن جب بات نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئی تو اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کو مکمل اختیار دے دیا اور سورہ الاحزاب آیت 46 میں ارشاد فرمایا کہ ” اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ ” گویا اللہ  نے اپنے حبیب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا پورا اذن دے دیا کہ آپ کو بار بار مجھ سے اذن طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اختیار دے دیا ہے کہ اب چاہے زمین پر اپنی انگلی کے اشارہ سے چاند ، ڈوبے سورج کو پلٹا دو سب آپ کی مرضی پر ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختیار کو قرآن مجید میں یوں بھی بیان کیا ہے۔ سورہ الاعراف ساتواں سورہ آیت 157 میں ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ میرا نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم طیب چیزوں کو حلال، نجس چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔  وحی عمل رسول عظیم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ظہور پا رہی ہے اب ہر وحی کے لیے فرشتہ کا  آنا ضروری نہیں۔ میرے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کہہ دیں وہی وحی کی صورت میں قرآن کی آیت بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ وحی کی علاوہ کلام ہی نہیں کرتا۔

محبت کی ایک اور شان یہ ہے کہ پورے قرآن میں کسی نبی پر درود کی آیت نہیں فقط نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیےآیت ہے۔  یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے صرف اور صرف نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت ، عشق اور مودت کا اظہار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ قرآن کا ہر لفظ اللہ کی منشاء کا مظھر ہے۔ آیت درود میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام نہیں لیا بلکہ یہ کہا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں گویا محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سے نبی تب سے ان پر درود جاری ہے۔ صحاح ستہ کی کتاب جامع ترمذی اور ینابع المودۃ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم عیلہ السلام ابھی پانی اور مٹی میں تھے۔

قرآن کریم کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ اللہ اپنے محبوب نبی سے اس قدر محبت رکھتا ہے کہ ہر وقت اللہ اپنے نبی کی دلجوئی میں لگا ہوا ہے۔ جب کوئی یہ کہے کہ کئی دن سے نبی پر وحی نہیں آئی اور محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اللہ نے اسے چھوڑ دیا ہے تو اللہ کی طرف سے فورا قلب رسول کے اطمینان کے لیے سورہ نازل ہوتی ہے کہ اے میرے حبیب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ نے آپ کو کبھی نہیں چھوڑا۔ جب عرب کے کچھ لوگوں نے نبی کریم کی دل شکنی کی کہ محمد(صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نسل آگے نہیں چلے گی تو اللہ نے سورہ کوثر نازل فرما کر نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خوش خبری دی کہ میرے حبیب آپ کا سلسلہ نسب ہمیشہ قائم رہے گا اور آپ کے دشمنوں کا سلسلہ نسب ختم ہو گا۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے قسم کھاتا ہے۔ انسان اس کی قسم کھاتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب یا سب سے زیادہ عظمت والا ہو۔ اللہ مجبور نہیں کہ اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھائے۔ اللہ قادر مطلق ہے پھر بھی اللہ قرآن کریم میں باربار قسمیں کھا رہا ہے یوں لگتا ہے کہ اللہ اپنے نبی کی محبت میں قسمیں کھانا پسند کرتا ہے۔ اللہ بھی اس کی قسمیں کھا رہا ہے جو اس کو سب سے زیادہ  محبوب ہے اور جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔  کبھی اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسمیں کھائیں اور کبھی نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر قسمیں کھائیں اور کبھی اللہ نے اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استعمال میں آنے والے چیزوں کی قسمیں کھائیں۔

نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کے بارے میں کھائی گئی ایک قسم کوپیش کر رہا ہوں۔  سورہ نساء آیت 65 ” قسم ہے تیرے رب کی یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں اور پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ”۔ اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت یوں بیان کی ہے کہ جو جو مجھے رب مانتا ہے وہ جان لے کہ میں سب سے پہلے محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رب ہوں بعد میں کسی اور کا ۔

سورہ الحجر آیت 72 لعمرک انہم لفی سکرتہم یعمھون ” (اے میرے رسول) تیری عمر کی قسم وہ اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے ”۔ عمر کا تعلق انسان کی پیدائش کے دن سے موت کے دن تک کا ہے۔ اس آیت میں اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوری عمر کی قسم کھائی ہے اب یہ کس بحث میں پڑتے ہو کہ محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کس عمر میں نبی ہوئے یا محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کس وقت نبی ہوتے تھے اور کس وقت انسان۔ اللہ نے پوری عمر کی قسم کھا کر بتا دیا کہ میرا حبیب صل اللہ علیہ و آلہ وسلم عمر کے جس حصہ میں بھی تھا وہ طاہر تھا۔  اس کی عمر کا بچپن ہو، جوانی ہو یا ادھیڑ عمری سب میرے سامنے ہے اور اللہ کے نزدیک اس کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر کا ہر حصہ اتنا عظیم ہے کہ وہ اس کی قسم کھاتا ہے۔  اب کیا ڈھونڈھتے ہو کہ نبوت کب ملی۔ جامع تزمذی جلد 5 میں نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب اللہ کے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو کب نبوت ملی تو آپ نے ارشاد فرمایا ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی جسم اور روح کے درمیان تھے ”۔ اس طرح کی حدیث ہمیں ینابع المودۃ میں بھی ملتی ہے۔ اللہ کو اپنے محبوب نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چیزوں سے بھی اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمبل یا کملی کی قسم کھاتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اتنا اعتبار کہ اس کے عمل کو اپنا عمل بتاتا ہے۔  کہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں  کہ اے میرے حبیب یہ کنکریاں آپ نے نہیں اللہ نے ماری ہیں۔ کبھی اللہ رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہتا ہے۔

قرآن نور ہے اور اسے اللہ نے قلب رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اتارا تو قرآن کا نور میری نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں پناہ پاپا گیا تو میرے نبی کا دل پہلے سے کتنا نورانی تھا کہ اس نے قرآن کے نور کو جذب کر لیا۔ قرآن کے ہر لفظ اور ہر آیت کی ادائیگی زبان رسول سے ہوئی۔ دوسروں لفظوں میں کہا جائے تو رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدق زبان پر اللہ کو کتنا یقین کہ جو الفاظ زبان سے نکلے آیات نبیں اور رسول بھی اتنا صادق اور اتنا امین کہ اللہ کے کلام کو قرآن کہے اور اپنے کلام کو حدیث۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت اور امانت اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ نے سورہ النجم میں اعلان کر دیا کہ میرا رسول جو کہتا ہے وحی الہی سے کہتا ہے۔  یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اللہ کا نورانی کلام اگر لفظوں میں ڈھلے تو قرآن اور مقام بشریت پر آئے تو میرا نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔

اللہ کا یہی بشر یہی عبد جب معراج پر گیا تو جبرائیل علیہ السلام نے ایک خاص مقام سے آگے جانے سے اپنی معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ اس مقام سے آگے جاؤں گا تو میرے پر جل جائیں گے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مقام سے آگے بڑھے۔ اللہ نے پوری کائنات کو بتایا کہ دیکھو یہ ہے میرا حبیب کہ جس مقام پر مقرب ترین فرشتہ بھی آگے نہ بڑھ سکے میرا عبد خاص آگے بڑھ رہا ہے۔ معراج وہ مقام ہے کہ جہاں خالق اور اس کے عبد میں کوئی فاصلہ نظر نہیں آتا۔ معراج کی شب قربت کی وہ انتہا تھی کہ قرآن کریم نے سورہ النجم میں قربت کی انتہا کو صرف انھی الفاظ میں پیش کیا کہ فاصلہ قاب قوسین او ادنی تھا اب یہ فاصلہ کتنا کم تھا اپنی اپنی معرفت رسول و اللہ پر ہے۔ میرے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ وہ مقام ہے کہ جہاں اللہ نے اپنے حبیب سے گفتگو کے لیے کسی مقرب ترین فرشتہ کا پاس ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ میں کیا بات ہوئی سورہ النجم میں صرف اتنا کہا کہ ” پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی ”۔

وہ مذاہب جو اس بات پر خود کو دنیا کا سب سے قابل فخر مذہب مانتے ہیں کہ ان کا نبی اللہ کا بیٹا ہے(معاذ اللہ) تو قرآن میں اللہ نے اعلان فرما دیا کہ اے قوم یہود تم نبی عزیر علیہ السلام کو میرا بیٹا کہتے ہو اور نصاریٰ تم نبی عیسیٰ علیہ السلام کو میرا بیٹا بناتے ہو اور اسے شان اور فخر سمجھتے ہوسورہ الزخرف کی آیت 81 ارشاد ہوا کہ ” قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العبدین کہ آپ کہہ دیجیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا”۔

ہمیں قرآن کریم میں اور دیگر معتبر اسلامی کتابوں میں ایسے اسمائے الہی اور اسمانے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ملتے ہیں جو مشترک ہیں یعنی اللہ نے خود کو جن ناموں سے پکارا انہی ناموں سے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارا۔  قرآن کی ہرسورہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ اس میں اللہ رب کائنات نے خود کو رحمن اور رحیم کہا ہے۔  سورہ توبہ کی آیت ایک سو اٹھائیس میں اللہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحیم اور رؤف کہا ہے۔ کبھی اللہ اپنی بادشاہت اور کائنات پر اپنے تصرف کو خود کو ولی کہہ کر بیان کرتا ہے اور کبھی اپنے ساتھ اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ولی کہہ کر اس کی کائنات پر بادشاہت اور تصرف کو دکھلاتا ہے۔ اللہ نے اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی شکورکہا توکبھی کریم اور کہیں حکیم۔ گویا ذات باری تعالیٰ بتاتا چاہتی ہے کہ اللہ کی جتنی صفات ہیں ان کا اظہار اور جلوہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے۔

اللہ نے ہماری بہتری کے لیے اپنے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وسیلہ نجات بنایا ہے۔ ہم اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ اپنے گناہوں کی معافی صرف اللہ سے مانگنی چاہیے کیونکہ وہ معاف کرنے والا ہے جبکہ اللہ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک ہم اپنے گناہوں کی معافی کے لیے بھی نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وسیلہ نہ نبا لیں۔ سورہ نساء کی آیت 64 میں ارشاد ہے کہ ” اگر یہ لوگ جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یقینا یہ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے”۔  قرآن مجید قیامت تک کی انسانیت کے لیے راہنمائی ہے اب وہ ماضی کا انسان ہو یا آج کا یا پھر مستقبل کا اس سے جب بھی خطا سرزد ہو وہ جب تک در مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سجدہ ریز نہ ہو گا اللہ اسے معاف نہیں کرے گا۔

ہر مسلمان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ آخرت میں نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت خاص سے اس کے گناہوں کو معاف فرما کر جنت میں جانے کی اجازت عطا کر دے گا۔ ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شفاعت کے لیے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ربط رکھنا ضروری ہے۔ یہ ربط بنتا ہے کہ ہم پوری زندگی ایسے کام سرانجام دیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی خوشی میں خوش ہوں اور ان کے غم میں غمناک۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی لاعلمی کے باعث خود کو ایسے کاموں میں ڈال دیں جو نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ناخوشی کا موجب ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ پتہ نہیں ہم کس طرح کے مسلمان ہیں کہ کلمہ نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پڑھتے ہیں اور نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جشن ولادت کے سلسلہ میں نکالے جانے والے جلوسوں اور اس کلمہ کو بچانے والے نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسہ امام حسین علیہ السلام کے جلوسوں سے بغض رکھتے ہیں۔

قرآن کا آغاز اللہ نے اس اعلان سے کیا کہ ” الحمد للہ رب العالمین ، اللہ عالمین کا رب ہے ” اور نبی کریم کو سورہ الانبیاء کی آیت 107 میں کہا کہ آپ رحمت عالمین ہیں۔ اب جہاں جہاں اللہ کی ربوبیت وہاں وہاں محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت۔ اس کائنات میں کھربوں سے بڑھ کر کہکشائیں ہیں ستاروں اور سیاروں کی ان گنت تعداد۔ ان میں کون کون سی مخلوق آباد ہے اب تک انسان نہیں جان سکا لیکن اللہ ان سب عالمین کا خالق ہے اور پھر ان کہکشاؤں پر کوئی بھی آباد ہو، خواہ ہو انسان ہو یا کوئی اور مخلوق، وہ پیڑ ہوں پھول ہوں یا پتھر یہ سب نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت کےسایہ میں سانس لے رہے ہیں اور نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت خاص سے رزق پا رہے ہیں۔

اس حقیر کاوش کا اختتام اس دعا پر کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت اپنے محبوب نبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی آل پاک علیہ السلام کے صدقہ میں کائنات میں بسنے والی ہر مخلوق کو رحمت للعالمین کے سایہ میں رکھے اور روز قیامت اللہ اپنے پیاروں کی محبت کے صدقہ میں ہمیں بخش دے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*