تاریخ مسمریزم

ہمارے کئی قارئین نے اس بات کی فرمائش کی ہے کہ عمل مسمریزم کے متعلق بھی مضامین شائع کئے جائیں موجودہ دور میں اردو زبان میں اس موضوع پر بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے البتہ ماضی میں چند نادر تحریرات ضرور ملتی ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم مسمریزم کے اصول و ضوابط کو بیان کریں مناسب خیال کرتے ہیں کہ مسمریزم کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ یہ پہلو بھی تشنہ لب نہ رہے ۔ مضمون ہٰذا کی تیاری میں چند قدیم کتب سے مدد لی گئی ہے جن میں عجائبات مسمریزم سر فہرست ہے ۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ زمانہ ہائے گزشتہ سے مسمریزم چلا آتا ہے اور جس زمانہ کا نام تاریخ عالم میں ابتدائی زمانہ ہے اس میں بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے مسمریزم یا قوت مقناطیس نے صرف بعد کے زمانوں میں اپنا نام بدل لیا ۔ اور مختلف زمانوں میں اس کے مختلف نام رکھے گئے لیکن اس کے اصول اور اس کی طاقت و تاثیر میں ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے ۔
مصر کا ایک زبردست اور نامور فیلسوف اور مورخ سپلس لکھتا ہے کہ قدیم زمانہ میں بعض لوگ مریضوں کو چھو کر یا پھونک مار کر شفایاب کر دیا کرتے تھے ۔
عبرانی اور اسوری قوم میں اس طرق علاج کا رواج تھا جیسا کہ انکی پاک کتابوں سے ظاہر ہے ۲سلاطین ۵ باب ۱۱ آیت میں لکھوا ہے کہ "نعمان ملول ہوا اور چلا گیا اور بولا مجھے گمان تھا کہ وہ بے شک مجھ پاس نکل آوے گا اور کھڑا ہو کر خداوند اپنے خدا کا نام لے گا اور اس جگہ اپنا ہاتھ پھیرے گا اور کوڑھ کو کھودے گا۔”۔
اسی طرح گنتی ۲۷ باب آیات ۱۱۔ ۲۳ میں لکھا ہوا ہے کہ ” تب خداوند نے موسی کو کہا کہ نون کے بیٹے یاشو کولے ۔ وہ ایک شخص ہے جس میں روح ہے ۔ اس پر اپنا ہاتھ رکھ اور اسے الیعاذ ۔ کاہن اور ساری جماعت کے آگے کھڑا کر اور اسے ان کے حضور وصیت کر ۔ اور اپنی عزت میں سے کچھ اس پر ڈال دے تاکہ بنی اسرائیل کی ساری جماعت اس کی فرمانبرداری کرے وہ الیعاذرکاہن کے آگے کھڑا ہو ۔ جو اس کے لئے اریم کا حکم خداوند کے حضور پہنچے وہ اور سارے بنی اسرائیل ساری جماعت سمیت اس کے کہنے سے باہر نکلیں اور اسکے کہنے سے بھیتر آویں ۔ سو موسویٰ نے جیسا خداوند نے اسے فرمایا تھا کیا اور اس نے یاشو کو لیکر الیعاذر کاہن اور ساری جماعت کے سامنے کھڑا کیا اور اس نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے اور اسے جیسا خداوند نے اسکو فرمایا تھا وصیت کی "۔
کتاب مقدس میں اور کئی مقامات پر بھی اس علم اور اس طرق علاج کا ذکر آیا ہے ۔
مختلف قوموں میں مکاشفہ ۔ پیشین گوئیاں ۔ خواب اور دیگر ذرائع سے بعض معاملات کا انحصار کیا جاتا تھا ۔ اور مریض کے اوپر تھوک کر یا اسے چھو کر یا اس کا دامن پکڑ کر یا اسے ٹھوکر لگا کر یا کسی اور طریقہ سے تندرست کردیا جاتا تھا یہودیوں میں یہ باتیں عام طور پر رائج تھیں ۔
ہندوستان ۔ یونان ۔ مصر ۔ روم ۔ فرانس ۔ چین۔ اور ایران وغیرہ میں بھی قدیم زمانہ میں مسمریزم کا بڑا رواج تھا ۔
قدیم زمانہ میں یونان میں اطبا ایک طریقہ میں مریضوں کا علاج کرتے تھے اور اسے خفیہ علاج ۔ یا کشف کہتے تھے ۔ ہپّو قریطس حکیم لکھتا ہے کہ جسم کے اندر جو دکھ یا درد یا تکلیف ہوتی ہے وہ آنکھیں بند کرنے سے روح انسانی کو نظر آجاتی ہے اور یونان میں اکثر طبیب مریض کے اس مقام کو جہاں درد یا ورم یا کوئی اور شکایت ہوتی تھی اپنے ہاتھوں سے ملتے تھے اس زمانہ کے یورپین طبیب اس بات کے قائل ہیں کہ طبیب کے ہاتھ میں اسے ایک قسم کی مفید حرارت خارج ہو کر مریج کو نفع پہنچا سکتی ہے یونان میں نیپہ کے مقام پر ایک غار تھا جسے بلوٹو دیوتا اور چونودیوی کے نام پر متبرک سمجھا جاتا تھا اور وہاں کے پجاری سے مریض اکثر اپنی صحت کے لئے مکاشفے طلب کیا کرتے تھے ان کے جواب میں جوبات پجاری ان سے کہتا تھا اس پر وہ عمل کرتے تھے اس سے ان کو آرام ہوجاتا تھا
رومیوں میں بھی مسمریزم کا بڑا رواج تھا حکیم استلا پیدس اپنے مریضوں کے لئے خواب کے ذریعہ علاج تجویز کیا کرتا تھا وہ ہاتھوں سے جھالے دے کر اور مقام درد کو ہاتھ سے ملکر اور اس پرپھونک لگا کر یا مریض کو سلا کر اس کو چنگا کر دیا کرتا تھا وارو مورخ لکھتا ہے کہ سائیبل جو ایک عورت تھی اور جسے مکاشفہ دینے کی قدرت تھی وہ دقیق امراض میں لوگوں کو خواب کے ذریعہ علاج بتایا کرتی تھی جس پر عمل کرنے سے ان کو صحت حاصل ہوجاتی تھی جسٹن زاہد نے بھی اس عورت کے مکاشفوں کا ذکر ایک کتاب میں کیا ہے ۔
ہندوستان میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں بہت سے رشی منی لوگ بیمار کو چھوکر یا ڈنڈے مار کر تندرست کردیا کرتے تھے بعض اوقات وہ اپنی دھوتی میں سے ذرا سی راکھ اٹھا کر دیدیتے تھے جس کے کھانے یا لگانے سے مریض کی شکایت دور ہوجاتی تھی اور باتوں کا ذکر ہندوؤں کی کتابوں میں جا بجا موجود ہے ۔
چین میں مسمریزم کا رواج تھا اور ان کی تاریخ سے اس کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں ایک مستند کتاب جسے قصص۔ افسانوں اور روایات کا مجموعہ کہنا چاہئے اس میں جا بجا لکھا ہوا ہے کہ چین کے اطبا جانوروں کو سلا کر ان کی شکایات دور کردیتے تھے اسی کتاب میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ایک دیوتا نے اپنے ایک عابد کو جس سے وہ خوش ہوگیا تھا لوگوں کے نفع کی غرض سے ایک ایسا طریقہ بتایا جس سے مریضوں کو صحت ہوجاتی تھی فرانس میں بھی قدیم زمانہ میں مسمریزم کا بڑا رواج تھا اور جب وہاں قوم ڈریود کی حکمرانی تھی تو متسرس عورتیں مکاشفوں کے ذریعہ پیشگوئیاں کیا کرتی تھیں اور مریضوں کے لئے علاج تشخیص کئے جاتے تھے ان باتوں کا پتہ صاف صاف طور پر ٹیسی ٹس ۔ لیمپر ئیڈیس اور ووپس کس  مورخوں کے کارناموں سے لگتا ہے جنہوں نے ایسے بہت سے واقعات اپنی تصانیف میں بیان کئے ہیں اگر زیادہ تحقیق سے کام لیا جائے اور مختلف ملکوں اور قوموں کی تاریخ کی ورد گردانی کی جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں ایسی کوئی قوم نہ تھی جس میں مسمریزم کا رواج نہ تھا اور جس کے ذریعہ علاج معالجہ کیا جاتا تھا اور پیشینگوئیاں کی جاتی تھیں ۔

مسمریزم کی وجہ تسمیہ

لفظ مسمریزم لفظ مسمر سے نکلا ہے مسمر ایک شخص تھا جسے علم ادویہ اور طبابت میں بڑا ملکہ تھا وہ دریائے دائن کے کنارے پر مئی ۱۷۳۴ء کو پیدا ہوا تھا جس شخص نے دائن کے کالج میں پروفیسر وان سوسٹن اور پروفیسر ہائن سے علم ادویہ اور طبابت سیکھی اور اعلیٰ درجہ کی سند حاصل کی اس نے جیسو بٹ فرقہ کے ایک پادری کو مسمریزم کے ذریعہ جسے وہ قوت مقناطیس حیوانی کے نام سے یاد کیا کرتا تھا مریضوں کا علاج کرتے ہوئے دیکھا ۔ ۱۷۵۰ء میں اس نے اس طریقہ علاج کی خود بھی تحقیقات شروع کردی اور جب وہ اس میں خوب ماہر ہوگیا تو اپنے طور پر مریضوں کا علاج کرنے لگا۔ ڈاختر مسمر کا پورا نام ڈاکٹر انتھونی مسمر تھا جب وہ اپنے ملک میں تجربات کرچکا تو اس نے جرمنی اور سوئتزر لینڈ کا سفر کیا اور بہت سے شہروں اور قصبوں میں گیا جہاں وہ کامیابی کے ساتھ مریضوں کا علاج کرتا رہا عوام الناس کیا بلکہ علماء فضلاء ۔ امراء اور بادشاہوں نے اس کے تجربات دیکھے اور اس کے معتقد ہوگئے ۔
ڈاکٹر مسمر ۱۸۷۸ میں فرانس گیا اور وہاں اس نے مختلف مقامات پر مریضوں کا حیرت انگیز طریقہ سے علاج کیا اس کی خدمت میں فرانس کے عالم فاضل رہنے لگے اور اس امر کی کوشش کرتے تھے کہ اس کے طریق علاج کا راز معلوم کرلیں فرانس میں ایک انجمن بھی ڈاکٹر مسمر کے طریقہ علاج کا راز معلوم کرنے اور اس کی آزمائش کرنے کے لئے قائم کی گئی اسی ڈاکٹر نے جس طریقہ کا رواج دیا اسی کا نام مسمریزم پڑگیا۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*