Irtekaz e Tawajjah – Astral Body | ارتکاز توجہ (آسٹرال باڈی) از علامہ شاد گیلانی مرحوم

فہرست

 کچھ شخصیا ت ایسی ہوتی ہیں جو ہم میں موجود تو نہیں ہوتیں لیکن ان کی باتیں بہت گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں یہ باتیں اگر تحریر کی صورت میں مل جائیں تو انمٹ نقوش کی حامل ہوتی ہیں
ان کی تحریر کا ہر حرف گویا ان کی ذات اور علم و فیض کی گواہی دیتا ہے ان ہستیوں کے نظروں سے اوجھل ہونا ایسا ہی ہے جیسا سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے سورج پھر بھی زمین کو اپنی زندگی عطا کرنے والی قوت فراہم کرتا رہتا ہے شاد گیلانی بھی ایک ایسے ہی شخص ہیں جو بظاہر بادلوں میں چھپے ہیں لیکن کی تحریریں آج بھی علم کے پیاسوں کی تسکین کا سامان ہیں

علم یا تو کتابوں میں ملتا ہے یا استاذان فن سے ۔۔۔ علم ایک اکتسابی چیز ہے علم پڑھنے اور سیکھنے سے آتا ہے ۔ نبیﷺ اور امام ؑ کے سوا مادرزاد عالم نہ کوئی ہوا نہ ہی ہوگا میں نے اور آپ سب نے جو کچھ حاصل کیا ہے جو کچھ پڑھا ہے جو کچھ سیکھا ہے وہ استادوں اور کتابوں سے پڑھا ہے اور سیکھا ہے اگر ایک کتاب میں نے پڑھی ہو اور وہی آپ نے بھی پڑھی ہو تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ شاد گیلانی نے یہ علم فلاں کتاب سے نقل کیا ہے اس کا دوسرا رخ یہ ہوگا کہ میں بھی بلا تامل یہ کہہ دوں گا کہ آپ نے بھی یہ علم فلاں کتاب سے نقل کیا ہے۔
مادر زاد عالم نہ آپ ہیں نہ ہی میں ہوں ۔ میں نے بھی کتابوں سے علم حاصل کیا ہے اور آپ نے بھی لہٰذا اگر میں تب کے مشہور و معروف لاما رامپا کی ایک کتاب سے کچھ بیان کردوں تو آپ کو یہ کہنے کا حق حاصل نہ ہوگا کہ شاد نے رامپا کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔
رامپا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اب کسی انگریز کے جسم میں منتقل ہوچکا ہے اور اس کا اپنا بدن (جس میں اس نے جنم لیا تھا ) وہ دوسری جنگ میں جاپانیوں کی سختیوں اور مصیبتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ناکارہ ہو چکا تھا اور زندگی چلانے کے قابل نہ تھا لہٰذا اس کا دعویٰ ہے اور اس نے اپنی روح ایک جوان طاقتور انگریز کے جسم میں ڈال دی ہے بظاہر یہ بات بڑے اچنبے کی معلوم ہوتی ہے اور دماغ اس بات کو قبول کرنے سے قاصر ہے کہ ایک روح کا دوسرے جسم میں منتقل ہوجانا حیرت انگیز اور تعجب انگیز بات ضرور ہے مگر میں نے بعض صوفیاء کی جب داستان حیات پڑھی تو اسی قسم کے واقعات سامنے آئے اور صوفیائے اکثر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایک نوع ایک جنس اور ایک جسم سے دوسرے جسم دوسری نوع اور دوسری جنس میں تبدیل ہوجانے کی طاقت رکھتے ہیں
انتقال روح سے ایک دو قدم آگے ہے ، انتقال جسم یعنی جسم کو ایک جگہ فضا میں تحلیل کرکے دوسری کسی بھی جگہ اصلی جسم میں ظاہر ہوجانا
مغربی ممالک میں آکلٹ سائنس کے کسی بھی ماہر نے انتقال جسم کا دعویٰ نہیں کیا یہ بات صرف اسلام جیسے پاک اور روحانی مذہب میں ہے کہ اس مذہب کے پیروکار اس حد تک روحانیت رکھتے تھے کہ کوئی مذہب اس کے برابر کی روحانیت کا دعویٰ آج تک نہ کر سکا
سائنس اپنے مقام پر تعجب خیز سہی مگر اسلام کی روحانیت سے اسے کوئی ٹکر نہیں بس ایک ہی بات نے روحانیت اسلام کو پردہ پوش رکھا ہے اور وہ ہے صرف اخفاء یا جسے دوسرے لفظوں میں اسے بخل کہہ دوں ۔
اکلٹ سائنس کے دامن میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے تاکہ ہر کس و ناکس اس سے فائدہ اٹھا سکے ، مگر اسلام میں روحانیت کے علمبرداروں نے روحانیت کا کوئی بھی راز ظاہر کرنے سے قطعی گریز کیا اور اپنے سوا پوری دنیا کو نا اہل سمجھ کر سب کچھ اپنی قبر میں ساتھ لے گئے ۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ صاحبان روحانیت کو یہ مقام اچانک تو نہیں ملا آخر کچھ ریاضتوں کچھ محنت کچھ ورد وظائف اور دیگر امور سے انکو ملا ، اور اگر یہ لوگ اپنی تمام کار گزاری کو بیان کردیتے تو ہو سکتا تھا کہ ان کی طرح چند اور لوگ بھی اسی مقام روحانیت پر پہنچ جاتے مگر ایسا نہ ہوا اور تمام کچھ پردہ روحانیت اسلام اخفاء کی قبر میں دفن ہوتے گئے ۔
اسلام کی روحانیت کے کمالات کا ذکر کیا جائے تو مغربی آکلٹ سائنس کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جائیں ۔
ہوا میں پرواز کرنا ۔ ایک مقام پر ہوا میں تحلیل ہو کر ہزاروں میل دور پورے جسم کے ساتھ ظاہر ہوجانا ۔ عالم ناسوت اور ملکوت کی سیر کرنا کسی بھی دیگر ذی روح چیز کی نوع اور جنس کو بدل دینا
بیٹھے بیٹھے غائب ہوجانا ۔
یہ وہ مقام روحانیت ہے جس کے آج صرف قصے اور داستانیں ہی رہ گئی ہیں اور اگر انمیں سے ایک بات کا مظاہرہ ہوتا بھی ہے تو اس خرق العادات انسان کے دماغ میں اپنے ولی اللہ ہونے کا "خبط” ہوتا ہے اور وہ باقی دنیا کو اپنا عقیدت مند ۔ اپنا مرید اور روحانیت کے نا اہل قرار دیتے ہوئے ان امور روحانیت کی نشر و اشاعت سے صریحاً گریز کرتا ہے ۔ میں اسلام کے پیروان ۔ روحانیت کے دعویداروں ، خرق العادات کے حامل انسانوں، با کمال درویشوں ، اور اپنے آپ کو ولی کامل سمجھنے والے مہربانوں کی خدمت میں اپیل کروں گا کہ اسلام کی روحانیت پر پردے ڈالنے کی بجائے اس گنج فراواں کو عام کیا جائے اور جو ظرف اس روحانیت کے قابل نظر آئے اس کیساتھ بخل کے بدترین کردار کا مظاہرہ نہ کیا جائے ایسا نہ ہو کہ مغربی آکلٹ سائنس اور یوگا روحانیت کے میدان میں اسلام سے بڑھ جائیں اور مسلمان صرف بچے پیدا کرنے اور اصل چیز میں ملاوٹ کرنیکے لئے ہی زندہ رہ جائیں ۔
بعض لوگ مجھے یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ خرق العادات کے مظاہرے "روحانیت نہیں ہیں اور اگر یہ تعجب خیز اور حیرت انگیز امور روحانیت نہیں ہیں تو مجھے جواب دیا جائے کہ روحانیت اور کس چیز کا نام ہے "؟
خرق العادات کا مظاہرہ اس وقت تک ہو سکتا ہی نہیں جب تک جسم انسانی میں لطافت نہ پیدا ہو نفس کی لطافت کا پرتو ہے خرق العادات ہونا ۔۔۔۔۔۔۔ نفس کی پلیدگی انسانوں کو مافوق الفطرت نہیں بنا سکتی اور طہارت نفس کے قواعد ہر مذہب میں جداگانہ ہیں اور آج کل تو یوگا اس مقصد کے لئے پورے مغرب پر چھا گیا ہے میں نے بیسیوں انگریزی کتب کا مطالعہ کیا ہے جو آکلٹ سائنس پر لکھی گئی ہیں مگر ان کتابوں میں اسلام یا اسلامی روحانیت کا کہیں ایک لفظ بھی مجھے نہیں ملا ، اور صرف یوگا کا ہی ذکر ان میں متواتر ہے اس کا سبب صرف ہمارا روایتی بخل ہے ۔ اگر ہندو مذہب اپنی مداریانہ ریاضتوں سے مغرب کو مطمئن کر سکتا ہے تو ہمارا اسلام صرف اپنوں کو اس نعمت سے کیوں مالا مال نہیں کر سکتا ۔
ہمیں چاہئے تھا کہ اسلام کی روحانیت اور اس کی ریاضتوں سے ہم اپنوں کو یوں تعلیم دیتے کہ آج ہر بالغ مسلمان خرق العادات کا حامل نظر آتا۔ روایتی بخل کا یہ عالم ہے کہ جب میں نے جفر پیش کردینے کا تہیہ کرلیا تو مجھے چند جفار کہلانے والے دوستوں نے صاف صاف لکھا کہ تم اللہ کا عذاب مول لے رہے ہو ان پاک علوم کو ظاہر کرنے پر اللہ کا عذاب یقینی ہے ۔ مگر میں نے اللہ کےعذاب سے پناہ مانگ کر اپنے مقصد کو فی الواقعہ پورا کرکے دکھا دیا اگر یہ علم میرے سینے میں رہ جاتا تو میرا سینہ گھٹ کے لوہے کا پنجرا بن جاتا جس میں علم کا طوطا کبھی  کبھی ٹیں ٹیں کرتا اور پھر خاموش ہوجاتا ۔ مگر اب تو "میرا علم اور میں ” پاکستان کے بوستان علم کی ڈالی ڈالی پر چہک رہے ہیں میرا اس میں کیا بگڑ گیا ؟ میرا کیا نقصان ہوا ؟
میں صحیح کہہ رہا ہوں کہ دیگر مذاہب کی روحانیت کی ریاضتیں مداریانہ قسم کی ہیں مگر اسلام کی ریاضت نہایت پاک ۔ ارفع و اعلیٰ اور خالص قرآنی ہے مگر ہے کیسی ؟ یہ کون بتائے ؟
ہے کوئی صاحب دل جو بتا سکے اور اگر میری اس آواز پر کوئی آواز نہ اٹھی تو میں محسوس کروں کہ کلمہ گو صرف روزی کمانے کے لئے زندہ رہ گئے ہیں اللہ اللہ خیر سلّا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اسلامی روحانیت سینہ بسینہ ہی سفر کر سکتی ہے تو میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ فی الواقعہ ایسا ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے مگر آج کل نہیں ہے اور اگر ہے بھی کوئی انسان جو سینہ بسینہ روحانیت کو آج منتقل کر سکنے کے قابل ہے آپ مجھے بتائیے کہ کہاں ہے ؟ کیا وہ ہر ضرورت مند کے سینے میں روحانیت منتقل کر سکتا ہے ؟
اپنے آپ کو ولی اللہ سمجھتا ہے یا عام انسان ؟
کچھ بتانے یا دینے کا عادی بھی ہے یا ساری دنیا اس کے سامنے نا اہل ہے ؟
مجھے رامپا اور لیڈز بیڑ کی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت نہ تھی اگر مجھے ایسا کوئی انسان اپنے ہی دیس میں مل جاتا
آپ اور میں سب لوگ روحانیت چاہتے ہیں خواہ اپنے دیس سے ملے یا رامپا کی کتابوں سے ۔
آج کی بزم میں رامپا کی ایک کتاب سے سیر ناسوت (اسٹرال ٹریولنگ ) کا ایک سبق خود بھی پڑھ رہا ہوں اور آپ کو بھی سنا رہا ہوں ۔
میرے لئے مثالی جسم کی یہ سیر کوئی نئی بات نہیں ہے آپ نے ۱۹۷۳ ء میں میرا ایک مضمون پڑھا ہوگا جس میں ، میں نے مثالی جسم کی سیر کو اپنے تجربے کی روشنی میں وضاحت سے لکھا تھا اور اس کے بعد بھی کئی مضامین شائع کر چکا ہوں آپ کو یہ تصور کرکے ناک چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ریاضت تب کے کسی لاما رامپا کی لکھی ہوئی ہے بلکہ ہر وہ ریاضت جس میں اللہ کا نام آجائے وہی اسلامی کہلانے کی مستحق ہے ۔ میں نے یوگا کی جس قدر ریاضتوں کا ذکر کیا ہے ان تمام کو اللہ کے نام کے ساتھ سمو کر عبادت بنا دیا ہے اور عین اسلامی ً ۔ اگر اس ہر تکنیک میں اللہ اللہ کا ورد ساتھ کیا جائے تو یہ عین اسلامی ریاضت ہے ۔
مثالی جسم ۔۔۔۔ اس مادی جسم سے بالکل باہر آسکتا ہے ہو بہو آپ کی طرح کا ایک نورانی ہیولا اور ریاضت بڑھنے پر ممکن ہے کہ وہ آپ سے ہم کلام بھی ہو سکے اسی کو عاملوں کی اصلطاح میں ہمزاد بھی کہا گیا ہے مگر حقیقت میں یہ نفسی جسم ہے ۔ صوفیاء اسے لطیفہ نفس کے ذریعے اپنے مادی جسم سے باہر نکالا کرتے ہیں اور جس جگہ چاہیں جا سکتے ہیں ۔
آپ نے ہزاروں بار خواب دیکھے ہوں گے آپ خواب میں ہزاروں میل دو جا کر ملکوں ملکوں کی سیر کیا کرتے ہیں ۔ یہی اسٹرال باڈی (مثالی جسم ) سے سیر نہ کی ہوگی ۔ مگر جاگنے کے عالم میں سیر کچھ اور ہوتی ہے اور سونے کی حالت میں کچھ اور ۔۔۔ اس سیر کی ریاضت کیلئے رات کا وقت انتہائی موزوں ہے جب آپ ہر دھندے ہر کام ہر فکر اور ہر جھنجٹ سے آزاد ہوں اس وقت تنہائی کے عالم میں آپ کرسی پر بیٹھ جائیں ، بستر پر سو کر ریاضت کرنے کے بارے میں رامپا سختی سے ممانعت کرتا ہے بستر پر سو کر ریاضت کرنے سے جھٹ پٹ نیند آجاتی ہے اور ریاضت کا مقصد فوت نہیں بلکہ سوجاتا ہے ۔
اس لئے آرام کرسی یا پلنگ پر بیٹھ کر روشنی بجھا کر آنکھیں بند کرکے اپنے بدن کو ڈھیلا کریں (ریلکس) بدن کو اتنا ڈھیلا چھوڑ دیں کہ آپ کا بدن بالکل آپ کا سایہ معلوم ہونے لگے ۔ آپ کے بدن کی ہر شکن اور کپڑوں کی ہر چبھن دور ہوجائے جسم کے کسی مقام پر سختی ۔۔۔۔۔۔ معلوم نہ ہونے پائے ، آپ کا بدن اتنا ڈھیلا ہوجائے جتنا کہ آپ کے اپنے کپڑے ۔
بدن کو ڈھیلا کرکے آپ نے اپنے بدن کو آرام تو پہنچا لیا ہے یہ تو ہے باڈری ریلیکسیشن۔
اب مائینڈ ریلیکسیشن کے لئے رامپا صاحب نے ایک عجیب و غریب ریاضت تجویز کی ہے ، میں سابقہ مضامین میں کئی تجاویز اور ریاضتیں پیش کر چکا ہوں
یہ سب کچھ ہوتا ہے ذہن کا رخ موڑ کر صرف ایک ہی یکسوئی کی سڑک پر اسے لا کر ڈال دینا ۔
جب ایک ہی بات پر ہمہ تن توجہ بن جائے گا تو تمام ذہنی تفکرات اور خیالات سمٹ کر ایک کونے میں دبک جائیں گے
اور انسانی ذہن جب ایک مرکز پر اکٹھا ہوجاتا ہے تو انسان بلا بن جاتا ہے ۔ اسی کنٹریکٹ ۔۔۔۔۔۔۔ کی بدولت روس کی ایک مشہور و معروف عورت میز پر پڑی ہوئی چیزوں کو آنکھوں کے اشاروں سے حرکت دے سکتی ہے رامپا نے یکسوئی کے لئے جو ریاضت تجویز کی ہے وہ خاص کر اسی اسٹرال باڈی کو دیکھنے کے لئے مختص ہے ۔
آپ جب ریلکس ہوجائیں تو اپنے ٹخنوں کو ، اپنے گھٹنوں اپنی کمر اپنے سینے اپنے کولہوں ، اپنے کندھوں اور اپنے ہاتھوں کے جوڑوں پر تصور کریں ۔ بند آنکھوں سے ان تمام مقامات کو دیکھنے کی کوشش کریں اور یوں تصور کریں کہ آپ کا سارا بدن ایک عظیم فیکٹری ہے ایک بہت بڑا کارخانہ ہے یا فوج کی ایک بہت بڑی چھاؤنی ہے اور جس میں آپ کے ذرات جسم یا مولی کیولز چھوٹے چھوٹے آدمیوں کی صورت اس کارخانے اور اس فیکٹری میں کام کر رہے ہیں
آپ ان چھوٹے چھوٹے آدمیوں کے تصور کو پختہ رکھیں آپ کے بدن کے کارخانے میں مزدوروں کی طرح کام کر رہے ہیں اب آپ تصور ہی میں ان لوگوں کو حکم دیں کہ کارخانے کا وقت ختم ہو چکا ہے اور تم لوگ فیکٹری بند کرکے فیکٹری سے باہر آجاؤ۔
اس تصور میں پختگی کے لئے آپ کو ایک یا دو دن کافی نہیں ہیں ہو سکتا ہے چھ ماہ تک آپ کو یہ تصور آسکے بہر صورت کوشش میں لگے رہو اور یوں سمجھو کہ تم ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر ان مزدوروں کو ٹخنوں ۔۔۔ اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے جوڑوں پر دوڑے ہوئے اور مارچ کرتے ہوئے خود دیکھ رہے ہیں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک شخص ایک بلند عمارت پر کھڑے ہو کر مال روڈ لاہور پر لوگوں کی آمد و رفت دیکھا کرے بازار اشدھام ۔۔۔ کھوے سے کھوا چل رہا ہے لوگ دوڑے چلے جا رہے ہیں اور ایک بلند مقام پر کھڑے ہوتے اس منظر کو آپ دیکھ رہے ہیں ۔
اس ریاضت کو کئے جاؤ۔ کئے جاؤ۔ حتیٰ کہ سچ مچ کا تصور تمہارے ذہن میں آجائے لوگوں کی بھیڑ ، چہل پہل ۔۔ سب کے سب فیکٹری سے باہر نکل رہے ہیں باہر نکل چکے ہیں تمہارے جسم کی فیکٹری بالکل خالی اور سونی پڑی ہے اس وقت آپ ریلیکسیشن کی انتہا پر ہونگے ۔ آپ کا ذہن پرسکون ہوگا بالکل ریلیکس ہوگا اس وقت یہ تصور کریں کہ آپ ایک غبارہ کی طرح کمرے کے اندر تیر رہے ہیں اس مشق کو دو تین دن کے بعد آپ اپنے ریلیکس بدن میں ایک جھٹکا سا محسوس کریں گے اور آپ یقیناً دیکھیں گے بالکل دیکھیں کہ آپ اپنے مادی جسم سے باہر نکل چکے ہیں بالکل باہر نکل چکے ہیں اور آپ کمرے کی ابتدائی فضا میں بلبلے کی طرح تیر رہے ہیں ۔
اس وقت آپ کو اپنا جسم بالکل واضح طور پر بند آنکھوں کے سامنے نظر آئے گا۔
آپ کا اسٹرال جسم فضا میں تیر رہا ہوگا کمرے کے اندر ۔۔۔۔
اور آپ کا اسٹرال باڈی دیکھ رہا ہوگا کہ آپ کا مادی جسم آنکھیں بند کئے مراقبہ کی حالت میں بیٹھا ہے اور آپ کا نفسی جسم اپنے بدن سے نکل چکا ہے بالکل نکل چکا ہے ۔ مگر آپ گھبرائیں نہیں آپ کے نفسی جسم کے باہر نکل جانے پر آپ کوئی خطرہ محسوس نہ کریں بالکل کوئی خوف کی بات نہیں اب بھی جب بھی چاہیں گے اپنے مادی جسم میں واپس آئیں گے آپ کمرہ کی فضاء میں ادھر ادھر پرواز کریں آپ کے اس مثالی جسم کو مکان کی دیواریں اور بلکہ لوہے کی دیواریں بھی نہیں روک سکتیں آپ جب بھی بند کمرے سے باہر جانے کا ارادہ کریں گے آپ چھوٹے سے روزن سے باہر سالم کے سالم نکل آئیں گے اور اگر آپ کا دل چاہے تو آہنی دیوار کے ایک طرف سے آپ دوسری طرف بالکل صاف باہر نکل سکتے ہیں آپ کے لئے وقت اور فاصلہ اب کوئی وقعت نہیں رکھتا ، دنیا بھر کے فاصلے سمٹ کے اب آپ کے قریب آگئے ہیں آپ چشم زدن میں قطب شمالی سے قطب جنوبی کی طرف پرواز کر سکتے ہیں یہ پرواز یقینی درست ہوتی ہے اس میں خواب کا شائبہ نہیں ہوتا موسمیات کا اثر آپ کے نفسی جسم پر اثر انداز نہیں ہو سکتا آپ طوفانوں کو چیر کے دوسری طرف آسانی سے جا سکتے ہیں آپ "اپالو” بن چکے ہیں مگر آپ کی رفتار "اپالو” سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا زیادہ ہے ۔
مگر آپ سیر ناسوت میں عجلت نہ کریں پہلے دن صرف کمرے کے اندر گھومنے کے سوا اور کچھ بھی نہ کریں اور جب دل چاہے اپنے من کے اندر اپنے مادی جسم کے اندر آجائیں ۔ آپ جب اپنے مادی جسم میں دوبارہ داخل ہوں گے تو آپ کے مادی جسم کو ایک جھٹکا سالگے گا اور آپ کے حواس خمسہ پوری طرح کام کرنے لگ جائیں گے اور یکدم بیدار ہوجائیں گے ۔
اس ریاضت کو آہستہ آہستہ بڑھائیں کسی دن کمرےمیں پرواز کرنے کی بجائے باہر صحن میں اور گلی میں نکل جائیں اور صحت کا حقیقی اور درست منظر آپ کے سامنے ہوگا ۔ وہی ملحقہ مکانات وہی گھر میں بکھری ہوئی چیزیں ہو بہو ۔ بالکل ہوبہو آپ کے سامنے ہوں گی اس میں کسی غلطی کا شائبہ نہ ہوگا اس میں شعور کا کوئی دخل نہ ہوگا اس میں آپ کے ذہنی تصورات کا کوئی عکس نہ ہوگا جو چیزیں جو منظر جو باتیں آپ اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں بالکل وہی منظر آپ کی نفسی آنکھیں دیکھا کرے گی ۔
آپ ذرا اس سے آگے ” ریاضت کا قدم ” بڑھائیں اور اپنے کسی قریب کے مکان کے اندر چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دوست رسالہ "فنون” پڑھ رہا ہے آپ اس کے کندھوں پر اپنے نفسی ہاتھ رکھ کر ذرا جھ کر دیکھیں گے تو یہ حضرت احمد ندیم قاسمی کی غزل میں مگن ہوں گے ۔ آپ اسٹرال ٹریولنگ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر یاد رکھئے کہ اس ریاضت کو آہستہ آہستہ بڑھانا ضروری ہے ۔

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*